آٹزم ۔۔۔۔ اپنی ذات میں گُم

میں نے کہیں ایک بڑا دلچسپ معنی خیز جملہ پڑھا تھا کہ ’’ماں کوئی اسم Noun یعنی نام چیز یا جگہ نہیں بلکہ ایک فعل (Verb ) کا نام ہے جو زمان و مکان کی قید سے آزاد ماضی حال اور مستقبل میں اپنی اولاد کی فکر میں نڈھال اور اسکے کاموں میں بے حال رہتی ہے۔ یہی حال ایک اُستاد یعنی ٹیچر کا بھی ہے یعنی وہ Noun اسم نہیں بلکہ فعل Verb یعنی کام ہے۔ ہر صبح کا آغاز کام سے ہوتا ہے زندگی کا ہر دن گویا کتاب کاایک ورق ہے جو پلٹتا ہے تو تجربات میں گزرتا جاتاہے ہر گزرتا دن ماں کی طرح ایک ٹیچر کے تجربات مشاہدات اور ذمہ داریوں میں اضافہ کرتا چلا جاتاہے۔

پچھلے دنوں اسکول میں ایک ورکشاپ منعقد ہوئی جسکا موضوع تھا آٹزم یعنی اپنی ذات میں گُم ، موضوع بہت پیچیدہ اور وقت طلب تھا مگر وقت بہت کم تھا لہٰذا ازلی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہر کر تحقیق کی کہ آخر آٹزم ہے کیا نیٹ پر ڈھونڈا ، ماہرین سے پوچھا کچھ معلومات حاصل ہوئیں تو سوچا قارئین سے بھی شئیر کی جائیں تاکہ وہ آٹزم کے متعلق کچھ جان سکیں۔دراصل ہر بچہ مہم جو مستجسس اور بے چین ہوتا ہے بچوں میں نئی بات کے سیکھنے جاننے اور پر کھنے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔ ننھے بچے چیزوں کو چھُو کر انہیں کھینچ کر اور منہ میں ڈال کر دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ بڑے بچے توجہ حاصل کرنے کے لیے دوسرے بچوں کو مار کر یا انہیں دھکا دے کر اپنی انفرادی خصوصیت کااظہار کرتے ہیں۔

تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ ہر بچے کی شخصیت مختلف ہوتی ہے کچھ بہت پُر اعتماد ہوتے ہیں تو کچھ شرمیلے تو کچھ چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں مثلاً اُونچا کھانسنے اور زور سے دروازہ بند کرنے سے بھی ڈر جاتے ہیں کچھ بچوں میں اوئل عمری میں محسوس کئے جانے والے خوف عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ کم ہو نے لگتے ہیں جبکہ یہی معمولی خوف کچھ بچوں میں بڑھتی عمر کے ساتھ ان کے ذہنوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔

ہر ماں کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کا بچہ پُر اعتماد شخصیت کا حامل ہو اور ذہانت میں اس کا کوئی ثانی نہ ہو اس خواہش کے حصول کے لیے ماؤں کو متوازن طریقہ کار اپنانا پڑے گا والدین کی طرف سے بچوں کو غیر ضروری تحفظ Over Protection کی فراہمی انہیں دبو اور بزدل بنا دیتی ہے بچوں کا ضرورت سے زیادہ خیال رکھنا اسے نقصان پہنچا سکتا ہے لہٰذا دیکھ بھال اور حد سے زیادہ دیکھ بھال میں حد فاصل قائم رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح بچوں کی دیکھ بھال اور تحفظ میں کمی بھی انہیں مختلف مسائل کا شکار کر سکتی ہے۔ والدین اُستاد اور بچے ایک ایسی مثلث کے تین کردار جن کے باہمی تعلق کا نتیجہ ایک بڑا اعتماد اور ذہن طالبِ علم کی صورت میں نکلتا ہے۔ عموماً مائیں اپنے بچوں کی کئی حرکتوں اور ان کے کئے گئے عمل کو معمولی سمجھ کر نظر انداز Ignore کر دیتی ہیں جو بڑے ہو کر ان کی شخصیت کے مجموعی تاثر اور علم کے حصول کے عمل کو متاثر کرتے ہیں۔

ایک اُستاد کا کمرہ جماعت کے تمام طالب علموں کے ساتھ یکساں برتاؤ ہوتا ہے اُس کے لیے ہر بچہ برابر اہمیت کا حامل ہوتا ہے ایک ٹیچر کا طالب علم کو پرکھنے کا جج کرنے کا انداز ایک ماں سے مختلف اور منفرد ہوتا ہے اگر ہم آٹزم کی بات کریں تو یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی علامت بچوں میں ۱۸ ماہ سے واضح ہونا شروع ہو تی ہے اور سکول جانے کی عمر تک یہ پختہ ہوتی جاتی ہے۔ عموماً مائیں گھر کے کاموں اور ازدواجی معمولات میں مصروف ہو کر بچوں میں پیدا ہونے والی ان معمولی علامات کو نظر انداز کر جاتی ہیں کیونکہ آٹزم کوئی بخار تو نہیں ہے جسے تھرما میٹر سے چیک کر کے بتایا جاسکے کہ اب بچے کو 99C بخار ہے یا 102C بخار کا شکار ہے ۔ آٹزم کی تشخیص اورعلاج کا طریقہ بہت مختلف ہے بچوں کے کئی منفی اور مثبت رولے جو ماؤں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہ جاتے ہیں ایک تجربہ کار ٹیچر سے مخفی نہیں رہ سکتے اسی لیے بچے کی زندگی کے وہ تمام سال بہت اہم ہوتے ہیں جو والدین اُستاد اور طالب علم کے درمیان گزرتے ہیں۔ اُستاد خصوصاً خاتون اُستاد کی ماہرانہ نگاہوں سے کوئی بچہ چھُپ نہیں سکتا اسکول میں دی جانے والی ورکشاپ کا مقصد یہ تھا کہ اساتذہ طالبات کے درمیان میں سے آٹزم کا شکار یا آٹزم سے قریب طالبات میں فرق محسوس کر سکیں۔

دراصل آٹزم نشوونما یا ارتقاء سے متعلق ایک مسئلہ ہے جس کی علامت 18 ماہ کی عمر سے واضح ہو نا شروع ہو جاتی ہے اور اسکول جانے کی عمر تک اس کی باقاعدہ تشخیص بھی ہو جاتی ہے اس مسئلے کو بطور مسئلہ سمجھنا خود ایک بڑا مسئلہ ہے اس لیے کہ بچے بظاہر بالکل نارمل نظر آتے ہیں لیکن ان کے رویے بہت مختلف ہوتے ہیں آٹزم کی ایک علامت میں بتدریج بچے کی بڑھوتی کا مسئلہ خصوصاً بولنے کھیلنے اور دوسروں سے تعلق بنانے میں بچہ مشکلات کا شکار ہو جائے کچھ بچوں میں ان کی علامات ہلکی نوعیت کی اور کچھ میں شدید ہوتی ہیں۔ تکلیف جتنی جلدی سمجھ میں آجائے اُس پر قابو اتنا ہی جلدی پایا جاسکتا ہے ایسے بچوں کے ساتھ بازار جانا کسی تقریب میں شرکت کرنا ماؤں کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ آٹزم کا شکاربچے ہیجان خود اذیتی اضطراب یا شدید غصے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کا بروقت علاج کروائیں اور لوگوں کی بات مت سنیں جو کہ یہ کہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہو جائے گا کوئی بات نہیں حقیقت پر پردہ ڈالنے کی بجائے سمجھداری اور بروقت علاج سے ایسے بچوں کو خود مختار بالغ شکل میں ڈھالا جاسکتا ہے۔

Nusrat Sarfaraz
About the Author: Nusrat Sarfaraz Read More Articles by Nusrat Sarfaraz: 42 Articles with 48357 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.