تعلیم قومی زندگی کے لیے آبِ
حیات کی مانند ہے، لیکن پاکستان میں شعبہ تعلیم اپنی نظریاتی اساس سے
محرومی اور غیر مؤثر حکمتِ عملی کے باعث مطلق فوائد و ثمرات قوم تک منتقل
نہیں کر سکا ، تعلیم کے بارے میں ہمارا مجموعی رویہ بے مقصدیت سے دو چار
رہا ہے ہم صرف ایک ایسی تعلیم یافتہ نسل تیار کر پائے ہیں جو اپنی ہی قوم
کی کھال اتارنے پر کمر بستہ ہے وطنِ عزیز کی کی اکثریت کو پڑھانے کا کوئی
منصوبہ ابھی تک ترتیب ہی نہیں دیا گیا اسی لیے تو آج بھی پاکستانی قوم علم
سے نا آشنا ہے ۔علم حروف کی آبرو ہے ، جملے کی عصمت ہے، انسانیت کے احترام
کی دستاویز ہے انسانیت سے محبت کا اقرار ہے، انسانیت کی معراج کا سر چشمہ
ہے مگر پاکستان کی نصف آبادی اس لفظ سے نا آشنا ہے۔ آج پاکستان کو بنے
سڑسٹھ برس گزر چکے ہیں ان سڑسٹھ برسوں میں شرحِ خواندگی اب تک 67 فیصد بھی
نہیں ہوی جبکہ پاکستان کے ساتھ آزاد ہونے والے پڑوسی ملک بھارت میں شرحِ
خواندگی 70 فیصد ہے،جبکہ دوسری طرف آج بھی پورے پاکستان میں کروڑوں بچے
سکول نہیں پڑھتے۔
حالیہ اقتصادی جائزہ برائے 14۔2013 کے مطابق ملک میں شرحِ خواندگی 60 فیصد
ہے لیکن پانچ سے نو سال کی عمر کے 67 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ اقتصادی
رپورٹ کے مطابق بچوں کو پرائمری سطح پر تعلیم دلوانے کا سب سے زیادہ رجحان
پنجاب میں ہے جہاں 93 فیصد بچے سکول جاتے ہیں جبکہ بلوچستان میں پانچ سے نو
سال کی عمر کے سکول جانے والے بچوں کا تناسب 65 فیصد ہے۔ حکومتی منصوبے کے
تحت سنہ 2013 سے 2016 تک پچاس لاکھ بچوں کو سکول میں داخل کروایا جائے گا
پاکستان اپنی خام ملکی پیداوار کا دو فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے اور حکومت
کا کہنا ہے کہ 2018 تک تعلیم کے لیے مختص فنڈ دو گنا زیادہ کر دیا جائیگا۔
پاکستان میں ڈگری جاری کرنے کا اختیار رکھنے والے اداروں اور جامعات کی
تعداد 156 ہے ان میں سرکاری اداروں کی تعداد 88 اور نجی کی 69 ہے ، ڈگری
جاری کرنے والے اداروں میں 12 لاکھ 30 ہزار طلبا اور طالبات زیر تعلیم ہیں۔
اوپر بیان کیے ہوے اعداد و شمار حکومت نے اقتصادی سروے برائے 14۔2013 میں
خود بتائے ہیں جو رواں سال کا مالی اقتصادی جائزہ پیش کرتے ہوئے بتائے گئے
تھے ۔
یہ رپورٹ حقیقت کے بلکل الٹ ہے زمینی حقائق کچھ اور ہیں مگر حکومت کچھ اور
ہی بتا رہی ہے، ایک نجی تنظیم الف اعلان 2014 کے سروے کے مطابق ملک بھر میں
ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے پاکستان ، نائیجیریا کے بعد دوسرا ملک ہے
جہاں اتنی بڑی تعداد میں بچے سکول نہیں پڑھتے اس سروے میں مزید بتایا گیا
ہے کہ صوبوں میں تعلیم کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات میں پنجاب سب
سے آگے ہے پنجاب میں شرحِ تعلیم 79 فیصد ہے، سندھ میں 62.99 فیصد ہے، خیبر
میں شرح تعلیم پچھلے سال کی نصبت دو فیصد کم ہو کر 62.21 فیصد ہو گئی ہے
جبکہ بلوچستان میں شرحِ خواندگی 58 فیصد ہے اس سروے میں یہ بھی بتایا گیا
ہے کہ کونسے صوبے میں کتنے فیصد بچے اسکول نہیں پڑھتے بلوچستان میں 66
فیصدبچے سکول نہیں جاتے ، سندھ میں 4 . 50 فیصد بچے نہیں پڑھتے ، پنجاب میں
ایسے بچوں کی تعداد 46.7 فیصد ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں 39.1 فیصد ایسے
بچے ہیں جو اسکول پڑھنے سے محروم ہیں، دوسری طرف ملک بھر سے ایک سو چھیالیس
اضلاع میں پرائمری تعلیم کے معیار کا جائزہ لیا گیا اور ان اضلاع میں وفاقی
دارلحکومت اسلام آباد پہلے نمبر پر ہے جہاں شرحِ خواندگی 83.75 فیصد ہے
جبکہ دوسرے نمبر پر چکوال ہے جہاں شرح تعلیم 83 فیصد ہے اس کے بعد کشمیر ہے
جہاں شرح خواندگی77 فیصد ہے شروع کے بیس اضلاع میں سندھ اور خیبر کا کوئی
ایک ضلع شامل نہیں ہے ۔
اب تھوڑ ا یونیسکو کے مطابق خواندگی کی عملی تعریف کے حوالے سے بات کی جائے
تو Unesco کے مطابق خواندگی کی عملی تعریف کچھ یوں ہے ۔مختلف تناظرات میں
مطبوعہ اور تحریری مواد کو پہچاننےسمجھنے، تشریح کرنے، تخلیق کرنے، دوسروں
تک پہنچانے، اور حساب لگانے کی صلاحیت ہو اسے پڑھا لکھا تصور کیا جاتا ہے
۔اگر یونیسکو کے تناظر میں بات کی جائے تو پھر پاکستان کی 60 فیصد آبادی ان
پڑھ ہے۔ملک میں موجودہ تعلیمی مسائل کے بارے میں جب ماہرِ تعلیم ، بلوچستان
ایجوکیشن فائونڈیشن کے مینیجنگ ڈائیریکٹر پروفیسر عبدالتواب خان سے رابطہ
کیا گیا انہوں نے مسائل کو حل کرنے اور ان سے مستقل طور پر نمٹنے کے لیے جو
کچھ کہا وہ نیچے درجِ ذیل ہے۔
حالات کا تقاضہ ہے کہ تمام صوبوں میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے اور
اگلے چند سالوں میں ایک ایسا تعلیمی نظام متعارف کرایا جائے جو ایک
نظریاتی، مہذب دیانتدار، بہترین صلاحیتوں کی حامل متحد اور منظم قوم تشکیل
دے سکے اور تمام صوبوں میں زریعہ تعلیم اردو ہو انگریزی اور اردو زریعہ
تعلیم کی جاری کشمکش کے باعث نئی نسل صاف سیدھی اردو بول نہیں سکتی جبکہ
انگریزی زبان ابھی تک ہماری دسترس میں پوری طرح آ ہی نہیں پائی اردو ہماری
قومی زندگی میں رابطے، مفاہمت، اتحاد کی مظہر اور بین الاقوامی سطح پر
ہماری شناخت کی علامت ہے اس علامت کو مٹنے سے بچانے کا اہم ترین راستہ اسے
بطور ذریعہ تعلیم اپنا لیا جائے اور ساتھ ہی علاقائی زبانوں کو بھی قومی
دھارا میں لانے کے لیے ان کو بھی سلیبس میں شامل کیا جائے۔
ملک میں یکساں نظامِ تعلیم کے لیے سب سے پہلے ایک قومی نصاب National
Curriculum) ( تشکیل دیا جائے جو بین الاقوامی معیار کے ہم پلہ ہو قومی
نصاب کے مطابق درسی کتب تیا کروائی جائیں حکومت مقابلہ تدوین کتب کا اہتمام
کرے ایک مضمون کی تمام کلاسز کی سب کتب ماہرین پبلشرز کا ایک ہی گروپ تیار
کرے۔ مثال کے طور سائنس کی کتاب پہلی کلاس سے پانچویں کلاس تک ایک ہی گروپ
یا ایک ہی پبلشر تخلیق کرے تا کہ ایک مضمون کی تمام کتب باہم مربوط ہوں۔
اور تمام نجی سکولوں میں یہی ایک قومی نصاب پڑھایا جائے یکساں نصاب و درسی
کتب کے علاوہ ہر صوبے میں ضلعی سطح پر سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے مابین
نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کے صحت مند مقابلے کروائے جائیں تا کہ مختلف
طبقات کے بچے باہم گھل مل سکیں۔معیارِ تعلیم کی ترویج سہولیات اور فیسوں
میں توازن کی نگرانی ک لیے ھایئر ایجوکیشن کمیشن کی طرز پر اسکول ایجوکیشن
کمیشن (School Education Commission) تشکیل دیا جائے جو کم از کم سہولیات
کا ایک معیار مقرر کرے اور مالی لحاظ سے مستحکم افراد، اداروں یا گروپس ہی
کو پرائیویٹ سکول بنانے کی اجازت دےاور ہر پرائیویٹ اسکول (SEC)کے ما تحت
ہوں، تا ہم ان کے روزمرہ انتظامی معاملات میں کمیشن کی براہ ِ راست کوئی
مداخلت نہ ہو، یہ کمیشن نجی تعلیمی اداروں کو بھی اپ گریڈ کروانے میں ان کی
معاونت کرے۔
سرکاری اسکولوں کی تعداد کو آئندہ تین سالوں میں دو گنا کر کے لڑکیوں کے
لیے کم از کم مئٹرک تک تعلیم لازم کر دی جائے جن علائقوں میں لڑکیوں کے
تعلیم حاسل کرنے پر پابندی ہے وہاں سخت قوانین نافذ کیے جائیں، پاکستان میں
غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لاکھوں خاندانوں کا ذریعہ معاش
ان کے معصوم بچوں کی محنت و مشقت پر ہے، ایسے بچوں کے لیے غیر رسمی
(Informal)سکول قائم کیے جائیں جہاں تعلیم کا دورانیہ صرف دو گھنٹے ہو ہر
گلی محلے میں کھلے بیشمار پرائیویٹ سکول اور سرکاری تعلیمی ادارے شام کے
صرف دو گھنٹے ان محنت کش بچوں کے لیے دستیاب ہوں، اورمقامی مارکیٹوں میں
دستیاب کوئی بھی ہال، یا گرائونڈ بھی غیر رسمی اسکول کے لیے استعمال کیا جا
سکتا ہے، ان محنت کش بچوں کے لیے انتہائی ضرورت کا سلیبس ڈیزائن کیا جائے
اور گھروں میں کام کرنے والی خواتین اور ان کے بچوں کو بھی تعلیم دینے کے
لیے ذمہ داری ان گھروں پر عائد کی جائے جن کی خدمات پر یہ غریب مامو ر ہیں،
اور انڈسٹری کا رشتہ تعلیم سے جوڑا جائے ا ور ویسے بھی پاکستان میں Labor
policy 2010 قانون موجود ہے۔ اِس قانون کے مطابق ہر وہ فیکٹری جہاں دو سو
مزدور کام کرتے ہوں ان کے مالکان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کے
بچوں کے لیے فری اسکول قائم کریں اور حکومت کو چاہیے کہ اس قانون پر سختی
سےعمل کروائے اور اگر جو انڈسٹری اسکول نہ بنا سکے اسے اولاً کسی نہ کسی
اسکول کی مالی سرپرستی کی ترغیب دی جائے اور (Adopt a child for education)
جیسی مہم چلائی جائے ، اِس کی تشہیر اور لوگوں کو ترغیب دینے کے لیے میڈ یا
خصوصی پروگرام نشر کرے اور ساتھ ہی ہر گریجوئیٹ کے لیے یہ لازم قرار دیا
جائے کہ وہ ان پڑھ بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھائے اِس ضمن میں اپنے حصے کا
چراغ جلایئے کے عنوان سے تعلیمی رضا کار رجسٹرڈکیے جائیں، اور پروفیسر
عبدالتواب خان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں یہ بھی ایک بڑا المیہ ہے کہ
غربت کی چکی میں پسنے والے نا خواندہ والدین اپنے بچوں کو پڑھانے کی خواہش
ضرور ر دل میں کھتے ہیں اور کچھ اپنی ان نیک خواہشات کو پورا کرنے میں
کامیاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن ہر ایک کے حالات اور حوصلے ایک جیسے نہیں ہو
تے اس لیے پھر وہ والدین اپنے بچوں کو ورکشاپس میں کام پر لگا دیتے ہیں
دوسری طرف جو بچے سکول اور کالجوں سے پڑھ کر بڑی مشکلات جھیل کر جب ھائیر
ایجوکیشن کے لیے کسی یونیورسٹی میں مزید پڑھنے کے لیے جاتے ہیں تب انہیں
مالی مشکلات کا سامنہ کرنا پڑتا ہے ایسی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان
میں ایسا کوئی ٹھوس قانون موجود نہیں جو ایسے مستحق طلبا کی مدد کر سکے
پاکستان میں 95 فیصد بینک طلبا کو قرضہ نہیں دیتے اور جو 5 فیصد بینک قرضہ
دیتے ہیں وہ بھی ماسٹر لیول کے طلبا کو قرضہ دیتے ہیں حکومت کی جانب سے کچھ
اچھے اقدامات ضرور اٹھائے گئے ہیں مگر وہ نا کافی ہیں افسوس کی بات یہ ہے
کہ پاکستان بھر میں صرف 4 فیصد ایسے طلبا ہیں جو ھائیر اجوکیشن حاصل کر
پاتے ہیں مگر حکومت ان چار فیصد طلبا کی بھی مدد صحیح طریقے سے نہیں کر
پاتی ، ملک کی نصف آبادی غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہیں پھر
اِن غریبوں کی نوجوان نسل کیسے پڑھے گی اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا تو
پھر پاکستان کے یہ ہونہار ذہن تباہ ہو جا ئیں گے اور پاکستان میں ہونہار
ذہنوں کی قلت ہو جائے گی ملک میں کوئی ایسا قانون متعارف کرایا جائے جو
بغیر کسی تفرق اور رنگ و نسل کے سب کے لیے یکساں مواقع فراہم کرے۔
یہاں پر یہ کہنا بلکل بھی غلط نہ ہو گا کہ ریاست کو اور اربابِ اختیار کو
ماننا پڑیگا کہ تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے ۔ اور یہ بھی ریاست پر ہی
عائد ہوتا ہے کہ وہ ہر بچے کے لیے مساوی تعلیم کا بندوبست کرے ۔ بصورتِ
دیگر اعلیٰ تعلیم و ہنر سے محروم قومیں ایسی تاریک راہوں کی مسافر ہوتی ہیں
جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ ہمیں بچوں میں نو عمری سے ہی وقت کی اہمیت کا
احساس پیدا کرنا ہوگا تا کہ مستقبل کا پاکستانی ایک متحرک، جفاکش، تعلیم
یافتہ اور ہنرمند قوم کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے، یہی روشن پاکستان
ہوگااور ہمیں بطورِ قوم یہ حقیقت ذہن نشین رہنی چاہیے کہ جس تیرگی کو ہم
اپنا مقدر سمجھ بیٹھے ہیں اس سے دامن چھڑانے کی تدبیر روشنیوں کے دیپ جلانے
کے سوا کچھ نہیں ہم سب تبدیلی کے خواہاں ہیں لیکن تبدیلی کے لیے خود ہم نے
کس قدر کوشش کی ہے ذرا تصور کریں کہ اٹھارہ کروڑ لوگ چاھتے ہیں کہ معاشرہ
بلکل ٹھیک ہو جائے، مگر یہ اٹھارہ کروڑ لوگ چاہتے ہیں کہ صرف صدر، وزیرِ
اعظم ،چیف جسٹس یا دیگر سیاسی رہنما ہی سب کام کر دیں ہمیں کوئی زحمت نہ
اٹھانی پڑے کیا اس طرح کبھی معاشرہ فلاح پا سکے گا، جاگتی آنکھوں کے خوابوں
کی تعبیر مسلسل جدو جہد کے بغیر نا ممکن ہے۔ |