آخری ملاقات
(Naeem Ahmad Anzar, Lahore)
وہ اُن کی آخری ملاقات تھی۔ اُن
کی دوستی دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ تھا۔ وہ کبھی یہ نہیں جان پائے کہ اُن
کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے کیا ہے۔وہ بس یہ جانتے تھے کہ ہم نے ایک
دوسرے کوہمیشہ خوش رکھنا ہےاور اپنی دوستی نبھانی ہے۔ اُنہوں نے کبھی یہ
نہیں سوچا تھاکہ ایک دن یہ رشتہ اِس موڑ پر بھی آجائے گا کہ انہیں ایک
دوسرے کو الوداع بول کر اپنی اپنی راہ پہ چل دینا ہوگا۔ اُن رستوں پہ جو
کبھی نہیں ملتے۔ اُنہوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ بھی بچھڑ جائیں
گے کیونکہ لوگ اُنکی دوستی اور رشتے کی مثالیں دیتے تھے۔ وہ گویا یوُں تھے
جیسے ایک دوسرے کے لئے ہی بنے ہوں۔
عالیہ زیادہ پیاری لڑکی تھی مگر فیصل بھی کسی سے کم نہ تھااور یہ احساس بھی
اُسے عالیہ نے ہی دلایا تھا۔ اُن کی پہلی ملاقات عالیہ کے گھر پہ اُس کی
سالگرہ پہ ہوئی تھی جہاں سے پھر اُن کی دوستی شروع ہوئی۔ فیصل، عالیہ کو
پسند کرنے لگا تھا مگر عالیہ کسی اور کو چاہتی تھی اور اُس نے پہلے ہی فیصل
کو یہ بات بتا دی تھی کیونکہ وہ نہ تو اُسے کسی دھوکے میں رکھنا چاہتی تھی
اور نہ اِس رشتے کو جھوٹ سے شروع کرنا چاہتی تھی۔ وہ دل کی بہت صاف اور
مخلص لڑکی تھی۔
فیصل نے بھی اِس سچ کو خوُشی سے قبول کیا اور عالیہ کا ہاتھ پکڑ کر اُ س سے
دوستی کا رشتہ قائم کیا اور یہ عہد کیا کہ ہمیشہ ایک اچھا دوست بن کر اُس
کی زندگی میں اُس کا ساتھ نبھائے گا اور کبھی بھی اُس کے سکھ دُکھ میں اس
کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ وہ اُس کا بہت خیال رکھتا تھا صرف اِس لئے نہیں کہ
وہ اُس سے پیار کرتا تھا بلکہ صرف اِس لئے کہ اُس کی اپنی خوشی عالیہ کی
خوشی میں تھی۔ اُس نے ہمیشہ سب کی فکر کئے بغیر ہر جگہ اُس کا ساتھ نبھایا
۔ عالیہ نے بھی فیصل کا ہمیشہ بہت خیال رکھا۔ اُس نے جو کچھ بھی اُس سے
مانگا اُس نے کبھی انکار نہیں کیا اور ہنس کر اپنے دوست کی بات مانی۔
سالگرہ کی ملاقات کے بعد دونوں کی زندگیاں بدل گئیں۔ فیصل تو بالکل بدل چکا
تھا۔ کوئی مانتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہی لڑکا ہے جو گاؤں سے اُس حلیے میں
آیا تھا جسے دیکھ کر ہر کوئی ہنستا تھا۔ عالیہ نے اُس کی شخصیت کو بہت
زیادہ سنوارہ ۔ وہ اُسے اُس کی ہر غلطی پر ٹوکتی ، اُس کی درستگی کرتی اور
ضرورت پڑتی تو اُسے ڈانٹ بھی دیتی تھی اور فیصل کو بھی یہ بہت اچھا لگتا
تھا۔
عالیہ کی اگلی سالگرہ اُن دونوں کی زند گی کا سب سے خوبصورت دن تھا۔اُنہوں
نے چھے گھنٹے اِکٹھے گزارے۔ فیصل نے اِس دن کو سپیشل بنانے کے لئے سب کچھ
کیا اور عالیہ کواُس کی پسند کے ڈھیر سا رے تحا ئف دیئے اور واپسی پہ عالیہ
نے خود کہا کہ فیصل یہ میری زندگی کی سب سے خوبصورت اور یادگار سالگرہ رہے
گی۔
اور آج اُس وقت ہر طرف تاریکی چھا گئی جب فیصل نے خود عالیہ کو بولا کہ تم
مجھے چھوڑ دو ، اب ہمیں یہ رشتہ ، یہ دوستی اور یہ ڈراما ختم کر دینا
چاہئیے اور میں نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ یہ بات بولتے ہُوئے
پُوری طرح ٹوٹ چکا تھا، اُس کے جسم کے ہر حصے میں چھید ہو چکا تھا، اُس کی
آنکھوں سے لہُو بہہ رہا تھا، اُس کی ٹانگیں شل ہو چکی تھیں اور اُس کے ہاتھ
یُوں کانپ رہے تھے جیسے وہ نوے سال کا بُوڑھا ہو۔ اُس وقت میں نے سانس کے
بغیر کسی کو بات کرتے ہؤئے دیکھا۔یہ وہ بات تھی جو کبھی اُس نے اپنے خیالوں
میں بھی نہ سوچی ہوگی مگر وہ یہ سب کرنا چاہتا تھا اور اُس سےبہت دُور جانا
چاہتا تھا۔
عالیہ یہ سب سن کر بس چپ تھی کیونکہ اُس کے پاس نہ بولنے کے لئیے کوئی لفظ
تھااور نہ بولنے کی سکت۔ فیصل اُس کے لئے سب کچھ تھا کیونکہ وہ اُس کاصرف
دوست ضرور تھا مگرکہیں نہ کہیں وہ اُس کے لئے ذیشان سے بھی بڑھ کر تھا جسے
وہ پیار کرتی تھی ۔ جب بھی کبھی ذیشان اُس کا دل دُکھاتا تھا تو وہ فیصل کا
ہی سہارا ڈھونڈتی تھی اور اُس کے کندھے پہ سر رکھ کر ہی آنسو بہاتی تھی اور
اپنا من ہلکہ کرلیا کرتی تھی۔ فیصل بھی پھر اُسے خوش کرنے کے لئے ہر اُلٹی
سیدھی حرکت کرتا تھا اور آج وہی فیصل اُس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے دور جا
رہا تھا۔
وہ اُسے سب کچھ بولتا چلا گیا اور وہ چُپ سادھے اپنے آنسُو ضبط کیے سنتی
چلی گئی۔ فیصل ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے اُس کی زندگی سے نکل جانا چاہتا تھا مگر
پھر بھی دل میں کہیں نہ کہیں یہ بات ضرور مچل رہی تھی کہ عالیہ مجھے روک لے
گی، مجھے جانے نہیں دے گی مگر اُس نے ایک لفظ بھی نہ بولا کیونکہ وہ شاید
اُسے جانے دینا چاہتی تھی یا شاید وہ اُسے روکنا نہیں چاہتی تھی یا شاید وہ
اُسے روکنے کا حق نہیں سمجھتی تھی یا پھر شاید وہ اُسے روکنے کا حق نہیں
سمجھتی تھی یا پھر شاید وہ کبھی اُسے سمجھ نہ پائی کہ فیصل تو ہمیشہ میرے
حُکم کا منتظر ہوتا ہے کہ کب مجھے کچھ عالیہ کہے اور میں مان جاؤں۔ اُس نے
یہ سب سمجھا ہی نہیں کہ اب بھی اگر میں اُسے تھپڑ مار کر بھی روکوں تو وہ
مسکرا کر میرے لئیے رُک جائے گا مگر اُس نے ایک ہی جُملہ بولا"جاؤ تمہیں
اجازت ہے الوداع۔ مجھ پر تمہاری محبت ساری زندگی بوجھ رہے گی۔" وہ چلا گیا
اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئیے تنہائی اور انتظا ر کے سمند ر میں ڈوب گیا اور
نیند اُس کی آنکھوں سے ایسے گم ہو گئی جیسے شام ہونے کے بعد سورج اور اُس
سورج کو دوبارہ پانے کے لئے اُسے اب تاریک رات سے گزرنا ہے اور اگلی صبح کی
خوبصورت روشنی میں وہ اپنی دوست کو مسکراتے ہُوئے دیکھے گا چاہے وہ اُس کے
ساتھ ہوگی یا اُس کے بغیر۔ |
|