وہ بہت مایوس ہو گیا تھا ۔۔۔ اس
کے پیرنٹس کا رویہ ااس کے ساتھ اس قدر روڈ تھا ۔۔۔ وہ دلبرداشتہ ہو رہا تھا
۔۔۔ ہر لمحہ اسے تشنگی کا احساس رہتا تھا ۔۔۔
آج کے کے پیرنٹس اس کے سات تھے ۔۔۔ اسی گاڑی میں اس کے ساتھ سفر کر ررہے
تھے ۔۔۔
مگر اسے لگا وہ آج بھی تنہا ہے ۔۔۔۔ اسی طتح ۔۔۔جیسے وہ کئی سالوں سے رہتا
آ رہا تھا ۔۔۔
ماں کیا ہوتی ہے ۔۔۔باپ کیا ہوتا ہے ۔۔۔ وہ ماں کی ممتا اور باپ کے پیار سے
نا واقف تھا ۔۔۔وہ کئی کئی سال پاکستان نہ آتے اور جب آتے تو یوں ملتے جیسے
کسی غیر سے مل رہے ہوں ۔۔۔
سکندر ‘‘ یہاں سے لغاری صاحب کے ہاں چلے جاتے ہیں ۔۔۔ پھر صبح ارلی مارننگ
ان کے ساتھ کراچی بھی تو جانا ہے ‘‘
کیوں نہ وہیں سٹے کر لیا جائے ‘‘
ممی نے پاپا سے کہا ۔۔
اوہ یس آئیڈیا تو اچھا ہے ۔۔۔‘‘پاپا نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ۔۔۔ ممی بھی
مسکرا دیں ۔۔۔
مگر ؛‘‘ ممی اگر آج رات آپ گھر میرے پاس رہ لیں ۔۔۔‘‘ پلیز ‘‘
اوہ سوری ‘‘ بٹ یو نو صبح میٹنگ ہے ٹین او کلاک ۔۔۔‘‘ بہت مشکل ہو جایے گا
۔۔۔‘‘ اس لیے اب ہی جانا بیٹر ہے ۔۔۔‘‘ ممی نے مسکراتے ہوئے چاہ زر سے کہا
۔۔۔ شاہ زر جو ابھی بھی اک زرا سی امید پہ بول پڑا تھا ،۔۔۔ ممی کے جواب پہ
اس نے شرمندگی سے سر جھکا لیا ۔۔۔۔
ڈرائیور گاڑی لغاری صاحب کے بنگلے کی طرف موڑ لو ۔۔۔‘‘ ممی بولیں ۔۔
پتہ نہیں مجھے کیا ہو جاتا ہے ۔۔۔‘‘ کیوں بے اختیار ہو جاتا ہوں ۔۔۔‘‘ وہ
دل ہی میں اپنے آپ کو ڈپٹنے لگا ۔۔۔ اسے خود پہ شدید غصہ تھا ۔۔۔
اسے کے چہرے پہ گھہری چپ طاری تھی ۔۔۔
اس کا دل چاہ رہا تھا وہ ڈھاریں مار مار کر روئے ۔۔۔۔
مگر
کئی کندھا نہیں تھا کوئی سہارہ نہیں تھا ۔۔۔وہ اپنے آپ کو بے بس و لا چار
محسوس کر رہا تھا ۔۔۔
کوئی اس قدر بے حس و سفاک کیسے ہو سکتا تھا ۔۔۔ اسے اپنوں کے اس سفاک رویے
کی وجہ سے ہی سب لوگوں پر اعتبار بھی نہ تھا ۔۔۔ کوئی اس کے جتنا قریب آنا
چاہتا ۔۔۔ وہ اتنا ہی دور بھاگتا ۔۔۔ اسی لیے اس کا لوگوں سے زیادہ میل جول
نہ تھا ۔۔۔
اسے سب منافق دکھائی دیتے تھے ۔۔۔
٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
اماں روتے ہوئے بان کی چارپائی پہ لیٹے اردگرد سے بیگانہ سلمان کی طرف
بڑھیں ۔۔۔ سلمان کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی ۔۔۔
اماں نے بڑھ کر اس کی نبض ٹٹولی ۔۔۔ اس کی نبض بہت آہستہ چل رہی تھی
۔۔۔۔اماں وہیں زمین پہ بیٹھی ڈھاریں مار مار کر رونا
شروع ہو گئیں ۔۔۔۔
اماں ۔۔۔‘‘ اماں ‘‘ کیا ہوا ہے بھائی کو ‘‘ پاس کھڑی صائیمہ اماں کو
جھنجوڑتے ہوئے بولی۔۔
ًغڑ آًآن ًمیں کچھ بھی کہنے کی ہمت نہ تھی ۔۔۔ وہ بس روئے چلی جا رہی تھیں
۔۔۔
صایمہ بآبر کی طرف بھاگی اسے احسان کے بولنے کی آواز آئی ۔۔۔
اس نے جا کر احسان کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا ۔۔۔
احسان بھاگتا ہوا اندر آیا اور پھر دروازے کے بیچ سے ہی باہر کی طرف بھاگا
۔۔۔
تھڑی دیر بعد رکشہ گھر کے دروازے میں کھڑا تھا ۔۔۔احسان دو لڑکوں کے ساتھ
اندر آیا اور۔۔۔ سلمان کو رکشے میں بمشکل بٹھایا اور ۔۔۔
قریبی قصبے کے چھوٹے سے ہسپتال میں لے گیے ۔۔۔۔
مگر وہاں کے ڈاکٹرز نے اس کی حالت تشویش ناک بتائی ۔۔۔ اور اس بات سے آگاہ
کیا کہ اسے شہر میں بڑے ہسپتال میں لے جایا جایے ۔۔۔۔
٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
جگن کو بیوٹیشن تیار کرنے کے لیے آئی تھی ۔۔۔
ستارہ بیگم نے کہا ہے کہ ‘‘ ۔۔۔ آپ کو تیار کیا جائے آج محفل ہے ۔۔۔‘‘ وہ
بھی خاص قسم کی ۔۔۔‘‘
سجی دھجی بیوٹیشن جویریہ جگن کے پاس کھڑی بول رہی تھی ۔۔۔
جگن جو کافی دیر سے گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی۔۔۔۔
جویریہ کی بات پہ اس نے سر اٹھا کر اسے غصے سے دیکھا ۔۔۔۔وہ اسے کتنی ہی
دیر یوں ہی دیکھتی رہی ۔۔۔
وہ جگن کی حالت پہ حیران ہو رہی تھی ۔۔۔۔
جگن کے بال بکھرے ہعیے تھے رو رو کر اس کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں ۔۔۔ اس
کے گال گلابی ہو رہے تھے ۔۔۔۔
وہ آنسو بہاتی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
ارے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے آپ نے ‘‘ اور رو کیوں رہی تھیں ‘‘جویریہ فکر
مندی سے بولی اور آگے بڑھ کر اس کے بال سلجھانے لگی ۔۔۔
چھوڑو‘‘ چھوڑو مجھے ‘‘اس نے بے دردی سے اس کے ہاتھ جھٹک دیے ۔۔۔۔۔
مگر ۔۔۔‘‘ ستارہ بیگم ۔۔۔‘‘
جاؤ اپنی ستارہ بیگم کو بتا دو مجھے نہ تو تیار ہونا ہے اور نہ ہی اس کمرے
سے باہر جانا ہے ۔۔۔‘‘ وہ غصے سے زمین پہ نظری گاڑے ہوئے بولی ۔۔۔
آپ میک اپ کروا لو پھر جو آپ کا دل چاہے کر لینا ۔۔‘‘
جویریہ گھبراتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔
چلی جاؤ یہاں سے دفع ہو جاؤ ۔۔۔۔‘‘ نہیں کرانا مجھے کوئی میک اپ ۔۔۔اس
گندگی کو لے جاؤ یہاں سے ۔۔۔ نفرت ہے مجھے ان سب چیزوں سے ۔۔۔‘‘ اس نے
سامنے پڑے میک اپ باکس پہ زہریلی نظر ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔
جویریہ میک اپ کا سامان اٹھائے کمرے سے باہر نکل گئی ۔۔۔
جگن نے سامنےے لگے وال کلاک پہ نظر ڈالی ۔ دس بھج کر پچس منٹ ۔۔۔۔
وہ اٹھی اور ننگے پاؤن رات کے اس پہر کوٹھے کے پچھلی طرف گئی ۔۔۔۔ اور تنگ
چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گزر کر پچھلے حصے کی طرف آ گئی ۔۔۔اس تنگ سی گلی میں
چھوٹا سا بلب آن تھا ۔۔۔۔ اور اس نے لکڑت کے دروازے کو دھکیلا تو وہ کھلتا
ہی چلا گیا ۔۔۔
سامنے ہی بستر پہ بی بی سو رہی تھیں ۔۔۔ اس نے انہیں زیادہ تر دواؤں کے زیر
اثر سوتے ہی دیکھا تھا
وہ آہست آہستہ ننگے پاؤں چلتی ہوئی اندر آ گئی تھی ۔۔۔
اور وہیں کارپٹ کے چھوٹے سے ٹکرے پہ جا کر بیٹھ گئی ۔۔۔ اس پھٹے ہوئے کاپٹ
پہ بیٹھتے ہی اسے انتہائی سکون اور اطمننان کا احساس ہوا۔۔۔۔ اور اس نے
اپنی آنکھیں موند لیں ۔۔۔
پھر وہ اٹھی اور میز پہ پڑی پرانی سی ڈائیری کی طرف بڑھی ۔۔۔ اس کی آنکھوں
میں تجسس تھا ۔۔۔ حیرانی تھی ۔۔
جاری ہے ۔۔ |