بیٹا آج شام تیار رہنا کچھ لوگ
آرہے ہیں ! امّی نے پھر وہی اعلان کیا جس کے ذکر سے اس کو اب چڑ سی ہونے
لگی تھی مہمانوں کے سامنے ڈمی کی طرح اس کا یہ کم و بیش چھتیس واں چکر تھا
،ہر بار اپنی انا اور خود داری کو اپنے ہی پاؤں تلے کچل کر وہ رشتہ کے لئے
آنے والے لوگوں کے سامنے اپنی نمائش کے لئے پیش ہوتی اور ہر بار آنے والے
جیسے منڈی میں جانور خریدنے آئے ہوں اُس کو اُوپر سے نیچے تک دیکھ کر اور
کھا پی کر منع کروا دیتے ،زندگی کے ان تکلیف دہ لمحوں کو جھیلتے جھیلتے گو
یا وہ اب تھک چکی تھی ،آخر ہر بار صرف لڑکیوں کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟
صرف لڑکوں اور اُن کے گھر والوں کو ہی لڑکی کو پسند کرنے اور ٹھکرانے کا حق
کیوں ہے؟ یہ سوچ سوچ کر اس کا دماغ شل ہو جاتا مگر اِس کے جواب کسی کے پاس
نہ تھے کہ یہ تو زمانے کا دستور ہے۔
فضا ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ،حالات بہت دِگر گوں نہ تھے کہ
چیزوں کے لئے للچانا پڑتا ،مہنگائی سے ایک عام گھرانہ جس قدر متاثر ہو سکتا
ہے وہ بھی اس قدر متاثر تھے ہاں یہ ضرور شُکر تھا کہ کبھی بھوکے پیٹ نہ
سوئے فضا کے والد ایک فیکڑی پر اچھی اُجرت میں کام کرتے تھے، گھر کا ایک
پورشن کرائے پر دیا تھا اُس سے بھی ایک لگی بندھی آمدنی ہو جاتی تھی،ایک ہی
بھائی تھا وہ بھی سب سے چھوٹا تین بہنوں میں فضا کا تیسرا نمبر تھا ، تینوں
اچھی تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ گھر گھرستی میں بھی اچھی تھیں ، اس کی
دو بہنیں اچھے رشتوں کی آس میں کافی وقت گُزار چکی تھیں اِن کے رشتوں کے
لئے آنے والے لڑکوں کی مائیں اور بہنیں شکل وصورت سے لے کر جہیز کی لمبی
فہرست تک ان کی ڈیمانڈ پوری نہ کر پائے تو ماں باپ نے بھی تھک کر ہار مان
لی ، بیٹیوں کے سروں میں اترنے والی چاندی اکثر اِن کو رات بھر جگا ئے
رکھتی ،مگر آنے والے لوگوں کی نیتوں کا کنواں بھرنے کا اِن میں یارا نہیں
تھا ،کبھی شکل و صورت کی کمی، کبھی جہیز کی ڈیمانڈ اور کبھی علاقہ آنے
والوں کے شایانِ شان نہ ہوتا ،اور یوں سوائے دِل میں کُڑھنے کے کچھ باقی نہ
تھا ، اب تو وہ دِل پر پتھر رکھ کر ہر رشتہ کو قبول کرنے کو تیار تھے، کبھی
کبھی فضا کے دِل و دماغ میں عجیب و غریب قسم کے باغیانہ خیالات جنم لیتے جس
کو اُس کی ماں زبان دینے نہیں دیتی،
آج بھی ایک ایسے ہی دن فضا کی مہمانوں کے سامنے پریڈ تھی ،اور تمام انتظام
و لوازمات سے لَیس وہ پھر ٹھکرائے جانے کے لئے تیار تھی ، اور پھر وہی ہوا
جو کہ اکثر ہوتا تھا ، فضا اُن کو پسند نہیں آئی لڑکی کا رنگ کم اور قد
چھوٹا ہے ، یہ بات رشتہ کروانے والی بوا نے اگلے دن امی کو بتائی اور وہ
ایک ٹھنڈی سانس بھر کے رہ گئیں ہونہہ! لڑکی چاند جیسی چاہیے، چاہے اپنا
بیٹا اماوس کی رات کی طرح ہو، وہ منہ ہی منہ میں دیر تک بُڑبُڑاتی رہی اُس
کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح اُن کو کھری کھری سنا ئے، بار بار کی ذلت
سے تنگ آ کر فضا نے فیصلہ کر لیا کہ وہ آئندہ کسی ایسی نمائش کا حصہ نہیں
بنے گی ، اپنی انا اور عزت کو دوسروں کے آگے خوار نہیں کرے گی اُس نے گھر
میں اعلان کر دیا کہ اب میرے رشتے کے لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں وہ
اپنے ماں باپ کو مزید دُکھ نہیں دینا چاہتی ،یہ اعلان تھا کہ بم ! رشتہ
کروانے والی بوا کے ذریعے گویا پورے محلے میں جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر
پھیل گئی ، پھر تو جتنے منہ اُتنی ہی باتیں ، کوئی کہتا کہ یقینا لڑکی میں
ہی کوئی عیب ہے یا دو لفظ کیا پڑھ لئے دماغ ہی خراب ہو گیا ہے؟ مگر اُس نے
لوگوں کی باتیں نہ سُننے کی قسم کھا رکھی تھی ،دِن اسی طرح پر لگا کر اُڑنے
لگے اُس نے اس دوران کئی کورس کر لئے اور پرائیوٹ امتحانات دے کر ایک اچھی
فرم میں ملازمت کر لی۔ اس کی دو نوں بہنیں اپنی مرضی کے خلاف ایک دو اور
ایک چار بچوں والے باپ سے بیاہی جا چکی تھیں ، اس پر اس نے ہلکا سا احتجاج
بھی کیا مگر والدین نے نہ اس کی سُنی اور نہ ہی اس کی بہنوں کی کیونکہ
زمانے کا یہ ہی دستور تھا ، یہ دستور آج تک اُس کی سمجھ ہی نہیں آیا ،
کبھی کبھار کہیں سے کوئی بُھولا بھٹکا رشتہ آ جاتا ، شکل و صورت پر تو پہلے
بھی لوگوں کو اعتراض تھا اب تو بڑھتی عمر بھی انکار کی ایک ٹھوس وجہ بنتی
جا رہی تھی ،آج بھی امی کا اصرار تھا کہ وہ آنے والے لوگوں کے سامنے جانے
پر راضی ہو جائے اور رات سے اسی بات پر ماں اور اُس کے درمیان بحث جاری تھی،
ماں اُسے معاشرے کے قاعدے اور قانون پڑھانے کے چکر میں تھی اور وہ اُن کے
سامنے جانے کے لئے تیا ر نہیں تھی، آخر طویل بحث اور اس وعدے کے ساتھ کہ وہ
یہ سب آخری بار کرے گی راضی ہو گئی۔
مہمانوں کے آتے ہی وہ تیار ہو گئی ،اور چائے کے ساتھ لوازمات لے کر ڈرائینگ
روم میں مہمانوں کے سامنے جا پہنچی، سامنے بیٹھی بھاری بھرکم نقلی زیورات
سے سجی خاتون نے ایک ناقدانہ نظر اُس پر ڈالی اور اُس کی امی سے مخاطب ہوتے
ہوئے کہا، بہن آپ کی بیٹی کی تنخواہ کتنی ہے؟ ہم چاہتے ہیں کہ لڑکی شادی کے
بعد بھی ملازمت کرے کیونکہ آج کل کے مہنگائی کے دور میں ایک کی تنخواہ سے
گُزارا نہیں ہوتا ہمیں لڑکی پسند ہے ، عمر کچھ زیادہ ہے ،لیکن چلیں خیر ،
گویا انھوں نے یہ بات کہہ کر فضا کی امی پر احسان جتا دیا،
جی نہیں مگر مجھے ہر گز یہ رشتہ قبول نہیں ہے۔ فضا ایک جھٹکے کے ساتھ کھڑی
ہوئی، آپ کو میرے ماں باپ پر یہ احسان کرنے کی قطعی ضرورت نہیں جتنا آپ کو
پسند نہ پسند کرنے کا حق ہے اُتنا ہی حق میرے اﷲ رسول نے مجھے بھی دیا ہے
آپ یہ رشتہ کرنے پرصرف اس لئے راضی ہیں کہ لڑکی کما رہی ہے؟ کیا آپ ایک
کمانے والی لڑکی کو اُس کی تنخواہ خود استعمال کرنے اور ویسا ہی آرام دینے
پر راضی ہیں جیسا آپ اپنے بیٹے کو دیتے ہیں جب وہ کما کر آتا ہے؟ میرے ماں
باپ کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے لڑکی پیدا کی؟ آپ جیسے سماج کے ٹھیکے دار جب
چاہیں لڑکی کو پسند کریں اور جب چاہیں ٹھکرا کر چلیں جائیں ؟ اور اس کو
زمانے کے دستور کا نام دے کر اپنی جان چُھڑا لیں؟ نہیں اب ایسا نہیں ہو گا
میں اس سماج اور دستور کو نہیں مانتی میری قسمت میں اگر شادی ہے تو ضرور ہو
گی لیکن میری انا اور خودداری کی قیمت پر نہیں ، شادی جیسی پاک رسم کو آپ
جیسے لوگوں نے ہی کاروبار بنا رکھا ہے؟ ڈریے اُس وقت سے جب آپ کی بیٹیوں کو
ٹُھکرایا جائے آج میں اس رشتے سے انکار کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دِل میں بھرا ہوا برسوں کا غُبار نکال کر آج جیسے وہ ہلکی پُھلکی ہو گئی
تھی ، اور سب لوگوں کو حق دق چھوڑ کر وہ سرعت سے کمرے سے نکل گئی گویا اُس
نے آج اپنا انتقام لے لیا ہو۔
(روبینہ احسن۔ کراچی) |