مہترانی
(Ghulam Ibn-e-Sultan, Jhang)
لاہور کے آزادی چوک سے لے کر شاہی
قلعہ تک جنوبی سمت کی شاہراہ پرہر وقت چہل پہل رہتی ہے۔یہ کشادہ سڑک کئی
تاریخی حوالوں کی وجہ سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہے ۔ بادشاہی مسجد، شاہی
قلعہ اور بھاٹی اسی علاقے سے ملحق ہیں۔ اسی سڑک کے بالکل سامنے تاریخی
اقبال پارک ہے جس کے مرکز میں آسمان کی رفعتوں سے ہم کلام مینارپاکستان بر
عظیم کے مسلمانوں کی جد و جہد آزادی، قومی عظمت ،حریتِ فکر و عمل اور ملی
وقار او رسر بلندی کی علامت ہے ۔اس کے سامنے لیڈی ولنگڈن ہسپتال واقع ہے
جہاں دکھی انسانیت کی خدمت کی قدیم اور قابل قدر روایت مسلسل پروان چڑھ رہی
ہے ۔شہر میں جدید میٹرو بس چلنے سے یہاں سڑک پر ٹریفک کا ہجوم قدرے کم ہو
گیاہے اور میٹر و بس کے لیے تعمیر کی گئی بالائی سڑک نے قدیم شاہراہ پر
مسافروں کی نقل وحمل کا بوجھ بانٹ لیاہے۔ یہاں ماحولیاتی آلودگی ،ٹریفک کے
بے ہنگم ازدحام اور شور کی وجہ سے بہت مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ اس کے با
وجود یہ علاقہ اپنی صد رنگی کی وجہ سے اپنے حسن و دل کشی میں اپنی مثال آپ
ہے۔ شہر کی صفائی پر مامور بلدیہ کے ذمہ دار اہل کاروں نے شہر کے دوسرے
علاقوں سے کہیں بڑھ کر اس علاقے پرتوجہ دی ہے۔ شہر کے دور افتادہ علاقوں کی
کچی آبادیوں کے کچے گھروندوں میں تو صفائی کی نوبت ہی نہیں آتی کیونکہ وہاں
شیدی فولاد خان قماش کے مسخرے شہر کا صفایا کرنے میں انہماک کا مظاہرہ کرتے
ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے اسی شاہراہ پرجاروب ہاتھ میں تھامے دو
مہترانیاں سورج طلوع ہونے سے پہلے سڑک پر صفائی میں مصروف ہو جاتیں ۔صبو
اور ظلو نام کی یہ دو مہترانیاں شاہی محلے کی مکین تھیں۔کچھ عرصہ پہلے تک
تو ان کے کوٹھے آباد تھے لیکن وقت گزرنے اور ان کا شباب ڈھلنے کے ساتھ ساتھ
سب رونقیں ماند پڑ گئیں ۔ حالات وقرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ طوائف کا
بڑھاپا اس کے لیے بہت بڑا عذاب بن جاتا ہے۔اسی لیے قحبہ خانوں کے اکثر
بھڑوے یہ کہا کر تے تھے کہ ہر جسم فروش رذیل طوائف کے لیے بہتریہی ہے کہ وہ
نوشتہء دیوار کو پڑھ لے اور عالمِ شباب ہی میں عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر
باندھ لے۔ وہ زمانہ اب خیال و خواب ہو گیا جب صبو اور ظلو کے رقص ،گانے اور
حسن و جمال کے شیدائی ان کے ایک اشارے پر دل ،جان اور متاعِ حیات تک لٹانے
کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے لیکن اب تو صبو اور ظلو کو شہر میں مانگنے پر
بھیک بھی نہیں ملتی تھی۔
جمالیات سے دلچسپی رکھنے والوں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ جس طرح پُر شکوہ اور
حسین عمارات کے کھنڈرات بھی ماضی کی داستان سناتے ہیں بالکل اسی طرح دو
شیزاؤں کے حُسن پر اگر ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد پڑ جائے تو پھر بھی یہ
حُسن اپنی گُزشتہ تابانیوں اور آتش سامانیوں کی داستان سنا کر حسن و رومان
کے معمرمتوالوں کے دلوں کو لُبھا کر لہو کر گرماتا رہتا ہے۔ عشق پر زور
نہیں یہ ایک ایسی آتش ہے جو اس وقت بھی بھڑک سکتی ہے جب ہاتھ میں جنبش تک
نہ ہو اور عناصر کا اعتدال عنقا ہو چکا ہو۔جب بھی لُٹی محفلوں کی دُھول کو
صاف کیاجائے تو ماضی کے متعدد چاند چہرے اور حال کے ماند چہرے اپنی حسرت
اور عسرت کے اوراقِ پا رینہ کی روداد زبانِ حال سے بیان کر نے میں کوئی
تامل نہیں کرتے۔صبو اور ظلو ہر روز اپنی ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراقِ
پارینہ کا مطالعہ کرتیں ،اپنی حسرتوں پر آنسو بہاتیں ،کچرے کے ڈھیر صاف
کرتیں اور شہر کی گندگی کو زدِ جاروب سے ہٹاتی چلی جاتیں۔وہ حسینائیں جن کے
عشرت کدے گلاب ،چنبیلی اور موتیا ،صندل ،موگرا ،رات کی رانی اور دن کے راجا
کے عطریات سے ہمہ وقت مہکتی رہتی تھیں اب وہ ان مقاما ت کی صفائی کرنے پر
مجبور تھیں جہاں سے عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے رہتے تھے۔نیلے رنگ
کی شلوار ،قمیص اور نیلے رنگ کا دوپٹہ اوڑھے یہ دونوں مہترانیاں اس پُر
ہجوم شاہراہ کی صفائی میں ہمہ وقت مصروف رہتیں ۔ان کی پتھرائی ہوئی آنکھوں
میں ہمیشہ آنسو ، مُر جھائے ہوئے لبوں پر آہیں ،سفید بالوں میں زندگی کے
رائیگاں طویل اورصبرآزما سفر کی دُھول اور اعصاب شکن مسافت کے باعث کمر میں
خم تھا،جو ان کے لیے تذلیل کی صورت مجسم بن گیا تھا ۔کچھ دنوں سے علی الصبح
ایک شخص اپنے دو ساتھیوں کو ساتھ لے کر ا س طرف آ نکلتا اور ان مہترانیوں
کو حیرت سے دیکھتا اور اشاروں کنایوں سے انھیں متوجہ کرنے کی کوشش کرتا تھا
۔یہ متفنی سٹھیایا ہوا خضاب آلودہ کھوسٹ بادامی باغ کی جانب سے نمو دار
ہوتا ۔اس کی اور اس کے ساتھیوں کی ہئیت کذائی دیکھ کر ہنسی ضبط کر نامشکل
تھا۔لنڈا بازار سے خریدے ہوئے انگریزی سوٹ میں ملبوس یہ گنجے اپنی عیاشیوں
کے باعث پریوں کااکھاڑا سجا کرراجا اِندر بن جاتے اس جنسی جنون میں وہ اب
تک گنجِ قارون لُٹا چُکے تھے۔اپنی آنکھوں پر موٹے شیشیوں کی عینکیں لگائے ،انگلیوں
میں عقیق کی انگوٹھیاں ٹھونسے،پاؤں میں استعمال شدہ جوتے گھسیٹ کر جب چلتے
تو دو طرفہ ندامت اور پُورے بازار کی لعنت ،ملامت ،تُوتکار اور پھٹکار ان
کے ہم رکاب ہوتی۔واقفانِ حال سے معلوم ہوا کہ یہ گھاسفو ،زادو لُدھیک اور
رنگو تھے۔یہ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتے اور ہر پری چہرہ کو دیکھ
کر خُوب ہنہناتے ۔یہ رسوائے زمانہ چکنے گھڑے اپنی بے ضمیری ،بے حسی اور بے
غیرتی کی وجہ سے بہت بد نام تھے۔
گھاسفو ،زاد ولُدھیک اور رنگو اس علاقے کے بد نام سمگلر ،منشیات فروش ،بھتہ
خور اور جنسی جنونی تھے۔ان کے خوف اور دہشت کی وجہ سے لوگ انھیں دیکھ کر
راستہ بدل لیتے اور سوچنے لگتے کہ ان فراعنہ کی بد اعمالیوں اور روسیاہیوں
کے غیر مختتم سلسلے کے با وجود نا معلوم کیوں خالقِ کائنات نے ان کے عرصہء
حیات کو طُول دے رکھا ہے۔ان تینوں ننگ انسانیت درندوں کا جرائم پیشہ افراد
کے ساتھ قریبی تعلق تھا اس لیے کوئی بھی ان سے ٹکر لینے کاحوصلہ نہ
رکھتاتھا۔صبو اور ظلو ان جنونیوں کے قبیح کردار کے بارے میں سب کچھ جانتی
تھیں۔کہا جاتا ہے کہ ان دونوں بُو ڑھی مہترانیوں کا سو پُشت سے آبائی پیشہ
قحبہ خانہ کی خرچی ہی تھا۔دوسری طرف گھاسفو ،زادو لُدھیک اور رنگو کا نا م
سُن کر ہر شخص استغفار پڑھتااور بر ملا کہتا کہ ان مشکوک نسب کے موذیوں کا
نہ تو باپ اور نہ ہی دادا ،ان میں سے توہر ایک ہے سو پُشت کا حرام
زادہ۔گھاسفو ،زادو لُدھیک اور رنگونے اپنے مکر کی چالوں سے صبو اور ظلو کو
بھی اپنا ہم نوا بنا لیا ۔صبو اور ظلو کو یہ بات اب اچھی طرح معلوم ہو گئی
تھی کہ اب ان کا وقت گُزر چُکا ہے۔ کتابِ زیست سے شباب کے باب کی تکمیل کے
بعد وہ خود کو حالات کے رحم و کرم پر محسوس کرتی تھیں۔ ہوس پرستوں کا کمینہ
پن اب ان پر واضح ہو چُکا تھا جولوگ انھیں دیکھ کر جیتے اور ہروقت ان کے
ساتھ مکر و فریب پر مبنی پیمان وفا باندھ کر ان کی زندگی سے کھیلتے رہے اب
ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ان کے خود غرض پرستار ان کے گلشنِ
زیست کی کلیوں کا رس چوس کر اپنی اپنی راہ لگے اور اب جان لیوا مصائب ،آلام
روزگار اورایڈز جیسی مہلک بیماری کا زہر پینے کے لیے وہ تنہا رہ گئی تھیں۔
گھاسفو،زادہ لُدھیک او ر رنگو کی صورت میں اُنھیں ایسے محرم مِل گئے جو نہ
صرف ان کے ماضی سے آگاہ تھے بل کہ ان کے حال اور مستقبل پر بھی ان کی گہری
نظر تھی۔ جنس و جنون ،عیش و طرب اور عریانی و فحاشی کے گھناؤنے دھندے کی
بہتی گنگا میں سب مل کر ہاتھ دھوتے ،ہنومان جی کی سیوا کرتے لکشمی دیوی کی
پُوجا کرتے اور ہر چڑھتے سورج دیوتا کی پرستش کر کے اپنا اُلّو سیدھا
کرتے۔دُور سڑک کے کنارے واقع ایک مندر کے سائے میں بیٹھ کر منشیات فروشوں
اور جنسی جنونیوں کا یہ ٹولہ بد اعمالیوں کے نئے حربے تلاش کرتا ۔کئی چور ،ٹھگ
اور اُچکے ان کے ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے۔کبھی یہ سنجیونی بُوٹی بیچتے ،کبھی
اُلّو کی آنکھ کا سُرمہ فروخت کرتے اورکئی با ر جاہل لوگوں کو گیدڑ سنگھی
بیچی ۔’’ محبو ب تمھارے قدموں میں‘‘ کے عنوان سے گنڈے اور عملیات کے نام پر
نو جوانوں سے رقم بٹوری ۔سادہ لوح لوگوں کو اپنے جال میں پھنسا کر یہ پیرِ
تسمہ پا زمین کا بوجھ بن کر دِل سے آلام روزگار کا بوجھ ہلکا کرنے کی سعی ء
ناکام کرتے۔ یہ طوطا چشم اور موقع پرست درندے عام آدمی کی زندگی کی تمام
کلیوں کو شرر کر کے رُتوں کو پلک جھپکتے میں بے ثمرکر دیتے تھے۔گرگٹ کی طرح
رنگ بدلنا ان بگلا بھگت،جو فروش گندم نما مُو ذیوں کا وتیرہ تھا۔ انھوں نے
کئی بار نجومی ،جوتشی ،رمال ،نجومی ،عطائی ،عامل اور سادھو کا سوانگ رچایا
۔صبو اور ظلو بلدیہ کے شعبہ صفائی میں مہترانی کی ملازمت کے علاوہ سہ پہر
کو متمول لوگوں کے گھروں میں بھی جاتیں اور وہاں بیت الخلا اور گھروں کے
صحن اور فرش کی صفائی کے کام کرتیں اور اس طرح وہ معقول رقم کما لیتیں ۔صبو
اور ظلو کے ذریعے گھاسفو ،زادو لُدھیک اور رنگو دولت مند طبقے کے گھرانوں
کے اندرونی حالات سے آگاہی حاصل کرتے اورنہایت عیاری سے ان گھرانوں کی جمع
پُونجی لُوٹ کر ان کا صفایا کر دیتے۔حالات اس قدر ابتر ہوتے چلے جا رہے تھے
کہ زمین کا بوجھ بننے والے تو دندناتے پھرتے تھے لیکن زمین کا بوجھ اُٹھانے
والوں کا کہیں بھی سُراغ نہیں ملتا تھا۔
اچانک ایک تبدیلی رو نما ہوئی اور ایک نئی مہترانی اسی علاقے کی صفائی پر
مامورہو گئی۔ دیکھنے والوں کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں، شعاع نام کی
یہ مہترانی کہنے کو تو مہترانی تھی لیکن یہ تو سچ مچ کی ر انی تھی۔ایک تو
اُٹھتی جوانی پھر اس کا حسن ، عشوے ،غمزے ،نا زو ا دا اور چال جیسے کڑی
کمان کا تیر یہ سب کچھ دیکھ کر کئی عشقی ٹڈے دل تھام کر رہ جاتے ۔ شعاع کے
غرور ِ حسن کا یہ حال تھا کہ وہ کسی کی طرف بھی آنکھ بھرکر نہ دیکھتی جب کہ
شعاع کو دیکھتے ہی نگاہیں چندھیا جاتیں۔ شعاع کے حسن کے ہر سُو چرچے تھے سر
و قد،دُبلا اور متو ازن جسم، پتلی کمر ،سر پر لمبی گھنی اور سیاہ زُلفیں ،
باریک اُنگلیاں،صراحی کے مانند گردن ،گُلاب کی پنکھڑیوں کے مانند نرم و
نازک ہو نٹ ،کشادہ پیشانی،نیلی چشمِ غزال،ٹھوڑی پر چاہِ زنخداں اوربات کرتے
وقت رخساروں پر پڑنے والے چھوٹے چھوٹے گڑھے۔ اس کی زنجیر زلف کی ہمہ گیر
کیفیت کا یہ عالم تھا کہ کئی آزاد بھی اس زلف گرہ گیر کی اسیری کی تمنا لیے
اس شاہراہ کی خاک چاٹتے پھرتے ۔وہ جب بولتی تو یوں محسوس ہوتا کہ اس کو
ہونٹوں سے پُھول جھڑ رہے ہیں۔ اس علاقے میں صفائی کی صورت ِ حال میں بہتری
لانے کی غرض سے یہ نئی مہترانی پہلے سے کام کرنے والی دو مہترانیوں صبو اور
ظلو کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے یہاں تعینات کی گئی۔زادو لُدھیک ،رنگو
اور گھاسفو نے جب شعا ع کو دیکھا تو وہ بھی اس کے دیوانے ہو گئے۔یہ مخبوط
الحواس ،فاتر العقل ،جنسی جنونی ،عادی دروغ گواور ہمہ وقت شراب کے نشے میں
دھت رہنے والے سٹھیائے ہوئے مجنوں اپنی اپنی دنیا میں اس نئی لیلیٰ کو بسا
کراس کی راہ میں سب کچھ نثار کرنے پر تُل گئے۔شعاع کے حصے میں صفائی کا ایک
سو گز شاہراہ کا ٹکڑا آیاتھا۔ صفائی پر مامور عملے کے نظام الاوقات کے
مطابق شعاع ہر روز صبح چھے بجے صفائی کے لیے اپنے مقام تعیناتی پر بلاناغہ
پہنچتی تھی۔جب وہ یہاں آتی تو پُوری سڑک پر کہیں بھی گندگی کا نام و نشان
تک نہ ہوتا تھا ۔شعاع کے پہنچنے سے پہلے ہی سڑک کی مکمل صفائی کر دی جاتی
اور اس پر چھڑکاؤ بھی کر دیا جاتا ۔اس کے ساتھ ہی اس علاقے کا تما م کچرا
بھی دُور کہیں ٹھکانے لگا دیاجاتا۔پوری شاہراہ آئینے کے مانند صاف ، شفاف
اور حسین منظر پیش کر رہی ہوتی۔دیکھنے والوں کو گُمان گُزرتا کہ شاید کوئی
بہت ہی اہم شخصیت آج اس طرف سے گُزرنے والی ہے۔شعا ع ہاتھ پر ہاتھ دھرے
خاموشی سے یہ منظر دیکھتی اورمنہ سے کچھ بھی نہ کہتی۔ وہ جانتی تھی کہ دنیا
میں عقل کے اندھوں اور گانٹھ کے پُوروں کا کبھی قحط نہیں رہا ایک کی تلاش
میں نکلو تو راستے میں ایک سو احمق آنکھوں پر پٹی باندھے دل تھام کر حُسن
کی بارگاہ میں کورنش بجا لانے کو تیار دکھائی دے گا۔
بلدیہ کے حکام نے شعاع کی کارکردگی کو دیکھا تو صبو اور ظلوکے حصے کا علاقہ
بھی اسے دے دیا اور اس کی حوصلہ افزائی کی خاطر اس کی تنخواہ میں بھی بیس
روپے ماہانہ کا اضافہ کر دیا۔اس کے ساتھ ہی صبو اور ظلو کو شعا ع کا معاون
مقرر کر دیا۔صبو اور ظلو کی تو گویا جان ہی چُھوٹ گئی اور بلی کے بھاگوں
چھینکا ٹوٹ گیا۔اب ان کے حصے کی شاہراہ کی صفائی بھی علی الصبح ہو جاتی ۔شعاع
کی آمد سے ان دونوں مہترانیوں کا بوجھ ختم ہو گیا اور اب وہ مستقل طور پر
آرام کرتیں۔یہ دونوں مہترانیاں اب آرام طلب اور کا م چور بن گئی تھیں۔اس
علاقے کے مکینوں کی متفقہ رائے تھی کہ رنگ ،خوشبواور حسن و خوبی کے تمام
استعارے شعاع کے دم سے ہیں۔شعاع کے پیرہن کو رنگ کا منبع اور اس کی زلف کو
لہرانے کو عطر بیزی کا وسیلہ سمجھا جانے لگا۔ کئی توہم پرست لوگوں کی رائے
تھی کہ شعاع پر کسی پری کا سایہ ہے ۔یہ پری بھوتوں کو حکم دیتی ہے کہ شعاع
کے حصے کی صفائی سب بُھوت مل کر کیا کریں۔شاید اسی وجہ سے شعاع کے ہاتھوں
صفائی کے لیے شاہراہ کا جو حصہ مقرر کیا جاتا اس کی صفائی اس خوش اسلوبی سے
ہو جاتی کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ۔ بعض عامل اور سادھو یہ بھی کہتے کہ
شعاع نے جادو اور عملیات کے ذریعے ہم زاد ،بھوت ،جن اور چڑیلیں اپنی تابع
بنا رکھی ہیں۔یہ باتیں دیکھنے والوں کے جی کو لگتیں اوروہ فرطِ اشتیاق سے
شعاع کے انو کھے کام کو دیکھ کر دل کو سنبھالنے کی کوشش کرتے اور اسے کسی
مافوق الفطرت قوت کا کرشمہ قرار دیتے۔بد نام جنسی جنونی رنگو ،گھاسفو اور
زادو لُدھیک اکثر یہ کہتے کہ شعاع کے صفائی کے کام پر آنے کے بعد سے ہر طرف
موسم گُل کا سما ں ہے۔ چند ماہ بعدیہ بات ڈھکی چُھپی نہیں رہ گئی تھی کہ
شعاع کی جگہ گندی نالیاں اور شاہراہوں کی صفائی میں کون جی کا زیاں کر رہا
ہے۔اہلیان علاقہ نے کئی مرتبہ شعاع کے کام کی تعریف کی لیکن شعاع نے کسی رد
عمل کا اظہار نہ کیا۔دوسری طرف رنگو، گھاسفو اور زادو لُدھیک کے مزاج میں
مسلسل اضمحلال کی کیفیت پیدا ہوتی چلی گئی اور کئی بیماریوں نے ان نا ہنجار
عیاشوں کو گھیر لیا تھا۔خاص طور پر تکلیف دِہ جِلد ی عوارض اور سانس کی
بیماریوں نے تواُن کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ وہ ہمیشہ شعاع کی محبت کا دم
بھرتے لیکن شعاع نے کبھی ان کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ایک دن تینوں دوستوں نے
ظلو اور صبو کو ساتھ لیا اور شعاع کے گھر جا پہنچے۔تینوں دوست اس نتیجے پر
پہنچے کہ شعاع کے عجز و نیاز سے راہ پر آنے کا کوئی امکان نہیں۔وہ گزشتہ
چھے ماہ سے اس کی خاطر جاروب کشی کررہے تھے ،گندے نالے صاف کر رہے تھے ا ور
اس شاہراہ کا کچرا اور غلاظت اپنے سر پر اُٹھا کر شہر سے دُور پھینک آتے۔آج
اُنھوں نے شعاع کا دامن حریفانہ کھینچنے کا تہیہ کر لیا۔
شام کے سائے ڈھل رہے تھے کئی ماہ سے بھل صفائی کرتے کرتے رنگو ،گھاسفو اور
زادو لُدھیک کے لمحات زیست پیہم غموں میں ڈھل رہے تھے۔ وصل کی تمنا میں
اُنھوں نے دل پہ جبر کر کے ستم کش سفر رہنے اور جاروب کش بننے سے بھی دریغ
نہ کیا۔ تینوں منافق رفیق اور حاسدرقیب اپنی داشتاؤں ظلو اور صبو کو ساتھ
لے کر شعاع کے گھر جا پہنچے۔اُنھوں نے ایک سکیم بنائی کہ اس تپسیا کی وجہ
سے ان کی حالت بہت سقیم ہونے لگی ہے ۔اس سے پہلے کہ وہ غمِ دوراں کے ہاتھوں
گور کنارے پہنچ جائیں، شعاع جیسی سونے کی چڑیا کو پنے دام میں پھنسا کر
قحبہ خانے کی زینت بنا دیاجائے اور اس کے ذریعے خرچی وصول کرکے پھر سے دادِ
عیش دینے کے مواقع پیدا کیے جائیں۔وہ بہت سے فواکہ اور شیرینی لے کر شعاع
کے گھر پہنچے ۔شعاع نے مصنوعی خندہ پیشانی سے ہوس کے مارے ان جنسی جنونیوں
کا بادِلِ نا خواستہ خیر مقدم کیااور ان کے راتب بھاڑے کا بھی انتظام کیا
لیکن ان میں سے کسی نے اس طرف توجہ نہ دی۔شعاع کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ
سب کس مقصد کے لیے اس کے ہاں آئے تھے ۔رنگو ،گھاسفو اور زادو لُدھیک نے بہ
یک زبان شعاع سے کہا کہ وہ ان میں سے کسی ایک کو شریک حیات بنا لے ۔ وہ
ٹسوے بہاتے ہوئے کہنے لگے کہ اُن کی گردن تو کٹ سکتی ہے لیکن اب جدائی کی
گھڑیا ں کاٹے نہیں کٹتیں۔ شعاع نے اس بے جوڑ ناتے سے معذرت کی تو یہ تینوں
مشتعل ہو گئے ۔ باؤلے کتے کی طرح ان تینوں جنسی جنونیوں کے منہ سے جھاگ بہہ
رہا تھا اور وہ شعاع کو کاٹنے کے لیے غُرا رہے تھے۔زادو لُدھیک نے نتھنے
پھیلا کر غُراتے ہوئے آگے بڑھ کر شعاع کو اپنی بانہوں میں دبوچنے کی کوشش
کی ۔شعاع نے اس غیر متوقع دست درازی کو اس بُوڑھے اور خزاں رسیدہ شخص کے
پاگل پن پر محمول کیا اور اس سے بچنے کے لیے جست لگائی اور پُوری قوت سے اس
درندے کی گردن پر گھونسے مارنے شروع کر دئیے ۔زادو لُدھیک شعاع کے اس دفاعی
وار کی تاب نہ لا سکا اور لڑ کھڑا کر منہ کے بل گر پڑا۔اس کی ناک اور منہ
سے خون بہنے لگا، اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور بے سُدھ ہوگیا ۔اب گھاسفو
نے نہایت ڈھٹائی اور بے حیائی سے آگے بڑھ کر شعاع کو پکڑنا چاہا۔شعاع نے اس
درندے کو ٹھوکر مار کرگرایا اور اُس پر بھی لاتوں اور مُکوں کی بو چھاڑ کر
دی۔گھاسفو بھی دور جا گرا اور خوف اور درد کے مارے اس کی گھگھی بندھ
گئی۔رنگو نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن شعاع نے اس بُزدل اور گھٹیا عیاش کو
دبوچ لیا اور اس کی خوب دُرگت بنائی۔ظلو اور صبو نے جب یہ حال دیکھا تو وہ
مگر مچھ کے آنسو بہانے لگیں اورشعاع کے قدموں میں گِر کر معافی کی دست بستہ
اِلتجا کی۔اب شعاع نے ایک مضبوط اور بھاری جُوتااُٹھایا اور سب ننگِ
انسانیت درندوں کو تڑ تڑ پیزاریں پڑنے لگیں ۔ حسین و جمیل خواجہ سرا شعاع
نے جُوڈو کراٹے کی جو تربیت حاصل کررکھی تھی ،وہ اس کے کام آ ئی اوراس نے
سانپ تلے کے سب بچھو کُچل کر نیم جاں کر دئیے ۔آج اس پُر عزم اور باہمت
خواجہ سرا کے ہاتھوں ان بے ضمیروں کی جو دُھنائی ہوئی اس سے سب مُوذیوں کو
نانی یاد آ گئی۔ |
|