ڈاکٹر سلیم خان کے ناول وہم زاد : جیتو جلاد کا اورنگ آباد میں رسم اجراء

معروف افسانہ نویس اور ناول نگار جناب نورالحسنین کے زیر صدارت ایک پروقا ر تقریب میں ڈاکٹر سلیم خان کے ناول وہم زاد: جیتو جلاد کی رسم رونمائی ادارہ ادب اسلامی ( مہاراشٹر)کے صدر ابراہیم خان صاحب کے ہاتھوں عمل میں آئی۔ اورنگ آباد کے مولانا آزاد ریسرچ سینٹر میں منعقدہ پروگرام کا آغا ز ذکراللہ خاں صاحب کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ ابتداء میں مولانا الیاس فلاحی صاحب نے ادارہ ادب اسلامی کا تعار ف اور اغراض و مقاصد پیش فرمائے۔ آپ نے بتایا کہ ادب اور انسان کا تعلق اتنا غیر معمولی ہےکیونکہ اللہ رب العالمین نے انسان کوادبی ذوق کے ساتھ پیدا فرمایا۔ ادب انسانی فطرت کا حصہ ہے ۔قرآن خود ایک عظیم ادبی معجزہ ہے۔ ادارے کے مقامی صدر جناب احمد اقبال صاحب نے صاحبِ تصنیف کا تعارف پیش کیا۔ امیر مقامی جناب عباس انصاری نے مصنف کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کیا۔

کتاب پر تبصروں کا آغاز ممبئی کے مشہورشاعر جناب اسلم غازی کے تحریرکردہ مقالہ سے ہوا۔ آپ نے فرمایاوہم زاد :جیتو جلاد ایک طبعزاد تخلیق ہے جس میںاچھے ناول کے سارے اجزائے ترکیبی بدرجہ اتم موجود ہیں ۔ ناول کا پلاٹ بہت اچھوتا ہے ۔ڈاکٹر سلیم خان نے اس ناول میں ادیباسیوں کے انسانی اور سماجی حقوق کی مسلسل پامالی سے بحث کی ہے۔اردو ادب میں شاید یہ پہلی تصنیف ہے جس میں اس سلگتے ہوئے مسئلہ کو مرکزی موضوع بنایا گیا ہے۔ادیباسیوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی تنظیموں میں مسلمان نظر نہیں آتے مگر ڈاکٹر سلیم خان نے امت مسلمہ پر عائد ایک فرض کو ادا کرنے کی جانب پہل کی ہے۔غازی صاحب نے مزیدفرمایا کہ اپنےاعدادوشمار کے سبب یہ ناول ایک دستاویزی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ رام چندر جی پر تنقید کو انہوں نے نامناسب قراردیا۔

معروف افسانہ نگار اسلم خان نےکہاادب میں ادب اور اخلاق موجود ہوتا ہے۔ ادب اسلامی پر اعتراض کرنے والوں کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے سوال کیا کہ اگر ترقی پسند ادب ہوسکتا ہے ، دلت ادب ہوسکتا ہے تو اسلامی ادب کیوں نہیں ہوسکتا؟ مصنف کی بابت اسلم خان نے کہا کہ سلیم خان وہ مدرس ہے جو اپنے نظریئے کوصحافت کے ذخیرے سے سنوار کرکہانی کے پیکر میں ڈھالتا ہے۔ اورنگ آباد کی مشہور علمی شخصیت ایڈوکیٹ اسلم مرزانے اپنے خیالات کا اظہاریوںکیا کہ اس ناول کا مصنف مذہب ، تہذیب وتمدن اور سائنس کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔ یہ ناول اپنی کہانی ،پلاٹ ،کردارنگاری اور اس کے اختتامیہ کی وجہ سے ایک اچھوتی تصنیف بن گیا ہے۔ قاری کے تجسس کو قائم رکھنا ناول نگار کا سب سے بڑا کمال ہوتا ہے اور اس میں سلیم خان کامیاب ہے۔ یہ ناول بہت تیز چلتا ہے اور قاری کو بالکل تھکن محسوس نہیں ہوتی۔ ناول کے کرداروںکی نفسیاتی الجھنوں پر ان کی پکڑ ہے ۔ یہ ناول ایسےزمینی حقائق سے جڑا ہوا ہے جن کا اردو ادب میں فقدان ہے۔آپ نے فرمایا کہ مکالمہ کو بیانیہ کا حصہ بنا دینا اس کتاب کا نقص ہے۔

کتاب کا اجراء فرمانے والےابراہیم خاں صاحب نےاپنے خطاب میں فرمایا کہ مظلوم طبقات کی دادرسی اس ناول کا مرکزی موضوع ہے۔ سلیم خان نے حیرت انگیز طور پر خلیج میں بیٹھ کر چھتیس گڑھ اور اڑیسہ کے ماحول کی مکمل عکاسی کی ہے۔ناول کے شروع میں جو تجسس جنم لیتا ہے وہ آخر تک قائم رہتا ہے۔ اس ناول میں سیاستدانوں کی مکاری اور بین الاقوامی کمپنیوں کی سازشوں کو بے نقاب کیا گیاہے۔ یہ ایک ایسے ناول نگار کی کہانی ہے جو اپنے کردار میں کھو جاتا ہے اور اپنے آپ کو اپنا کردار سمجھنے لگتا ہے۔اس کتاب میں تاریخ ، مذاہب کا تقابلی مطالعہ،قبائلی معاشرت اور سرکاری اسکیموں کے معلومات کا خزانہ ہے۔یہ مصنف کا ایک قلمی جہاد ہے۔مراٹھواڑہ کی نہایت معتبر علمی شخصیت پروفیسر شاہ حسین نہری نے فرمایا سلیم خان کہانی بہت بہتر طریقے سے بن سکتا ہے۔کہانی بننے کی صلاحیت کو وہ اپنے مقاصدکے حصول کی خاطرفن کو متاثر کئے بغیر استعمال کررہے ہیں لیکن اس بابت احتیاط کی ضرورت ہے۔ سلیم خان کے یہاں کہانی در کہانی کا سا انداز بھی ہے اور درمیان میں وہ اپنی باتیں بھی کہتے جاتے ہیں ۔اس ناول کو ہندی میں بھی چھپنا چاہئے۔ صدارتی خطبہ سے قبل ڈاکٹرسلیم خان نے خدا کا شکر ادا کیا اور منتظمین کا شکریہ ادا کرنے کے بعد کتاب کے چند صٖفحات پڑھ کر سنائے۔

صدر مجلس جناب نوارالحسنین جو معروف افسانہ نگار ہونے کے ساتھ کئی ناول تصنیف کر چکے ہیں نےاپنا پر مغزمقالہ پیش کیا۔جس کے چند اقتباسات حسب ذیل ہیں ’’ اس ناول کا انداز گوکہ نیا نہیں ہے لیکن موضوع یقینا ً اردو قارئین کیلئے نیا ہے۔ اس ناول میں سلیم خان نے ان پہاڑی علاقوں میں آباد ادیباسیوں کی زندگی میں جھانکنے کی کوشش کی ہے جو غربت کی سطح کے نیچے زندگی گذار رہے ہیں اور جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ ڈاکٹر سلیم خان نے ان آدیباسیوں کی زندگی ان کی معاشرت ، ان کی غربت ، ان کے استحصال،غیر ملکیوں کے اپنے مفاد، ملکی سیاست، سیاست کے بازیگروں کی خودغرضیاں اور ان کیلئے کام کرنے والے بے لوث افراد، نکسلی تنظیم، ان کے بندوق اٹھانے کی وجوہات،مذہب کے نام ہونے والے مظالم ، غلط فہمیاں ، سوشیل تنظیمیں،سیمینار، عالمی بنک سے ملنے والے فوائد اور عالمی بنک کے اپنے مفادات،ڈیم اور بند کی تعمیرات، ان کی خاطر دیہاتوں کا انخلاء ، دیہاتیوں کا بے زمین ہونا، ان کی بازآبادکاری میں عدم تعاون،بدعنوانی اور مغربی نظریات جیسے بے شمار موضوعات وواقعات کو اپنے ناول میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ جناب نورالحسنین نے اپنے مقالہ میں ناول کے اقتباسات کو موتیوں کی مانند پرو کرثابت کیاکہ اس میں ادیباسیوں کے پچھڑنے کی وجوہات اور اس کا حل سجھایا گیا ہے۔ ادارہ کے سکریٹری جناب معین عظیم صاحب نے اظہار تشکر کیا اور تقریب کی نہایت شگفتہ نظامت جناب صلاح الدین صدیقی نے فرمائی۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450106 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.