گذشتہ کئی برسوں سے کالج میں
الوداعی تقریب کے نئے انداز نے اپنے قدم جمالئے تھے۔الوداعی تقریب سے ایک
روز قبل ہر ایک کو یہ آزادی دی گئی تھی کہ وہ اپنے عزیز دوستوں کو کوئی بھی
تحفہ دے سکتا تھا پھر چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی۔اور اس نئی روایت کا یہ اثر
تھا کہ ہر کوئی اسے مقابلہ آرائی کی نظر سے دیکھتا۔لڑکیاں سوچتی تھیں کسے
سب سے زیادہ تحائف ملیں گے؟۔۔۔وہیں لڑکے سوچتے کسے تحفہ دیا جائے؟۔۔۔
زیادہ تر لڑکے لڑکیاں اعلیٰ گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اس کالج کی شہر
میں کافی اہمیت تھی۔کلاس روم کا ایک جانب سو لڑکوں نے اور دوسری جانب سو
لڑکیوں نے توازن برقرار رکھا تھا۔سب اپنی اپنی پڑھائی میں منہمک نظر آتے
تھے۔کچھ لڑکوں کی نظریں کبھی کبھار ٹیچرس پر پڑجاتی تھیں ورنہ زیادہ تر وہ
لڑکیوں کو گھورنے میں مصروف رہتے۔یہی وجہ تھی کہ لڑکیاں لڑکوں سے بے
اعتنائی ہی برتتی تھیں۔اور ویسے بھی کالج کی زیادہ تر لڑکیاں امیری کی وجہ
سے غرور میں ڈوبی ہوئی تھیں۔جن میں سر فہرست تھی’’مہروز‘‘۔انتہائی
حسین۔کالج کے سبھی لڑکے اس سے بات اور دوستی کرنے کے خواہش مند۔ لیکن وہ
کسی سے بات کرنا تو دور ،دیکھنا تک پسند نہیں کرتی تھی۔حالانکہ اُس کی بھی
چاہت تھی کہ الوداعی تقریب سے ایک دن قبل سب سے زیادہ تحفے اُسے ہی ملیں۔۔۔۔۔۔
آخر وہ دن آہی گیا،اور سب سے زیادہ تحائف مہروز کے ہی حصے میں آئے۔وہ خوشی
خوشی اپنی کار کی طرف بڑھی اور ڈرائیور کو آواز دی ۔ڈرائیور نے پچھلا
دروازہ کھولا اور مہروز نے سبھی تحائف کار کی پچھلی سیٹ پر ڈال دئے،تبھی
ایک چھوٹا بچہ دوڑتا ہوا آیا اور ایک چھوٹا سا بکس جورنگین پلاسٹک سے ڈھکا
تھا اُس کے ہاتھ میں تھمادیا،اس سے پہلے کہ مہروزاُس سے کچھ پوچھتی وہ بچہ
بھاگ کھڑا ہوا۔اس نے وہ بھی انہی تحائف کے ساتھ رکھ دیا۔کئی لڑکے لڑکیاں
اسکوٹر س اور موٹر سائیکلس پر اور کئی اپنی کاروں میں روانہ ہونا شروع
ہوگئے کیونکہ شام ہوچکی تھی اور کل الوداعی تقریب کی تیاری بھی کرنی
تھی۔یہی سوچ کر مہروز بھی وہاں سے روانہ ہوگئی۔رات کھانے کے بعد اس نے بستر
پر سارے تحائف کو دیکھنا شروع کیا ۔کافی مہنگے اور قیمتی تحائف ملے تھے ،تبھی
اُس کی نظر اُس چھوٹے سے بکس پر گئی جو اُس بچے نے دیا تھا،وزن سے تو مہروز
کوایسا محسوس ہوا گویا وہ خالی ہو۔اُس نے سوچا کہیں کسی نے مذاق تو نہیں
کیا،پھر کچھ سوچ کر اُس نے بکس کھولا۔اندر ایک تہہ کیا ہوا کاغذ تھا جس پر
کافی کچھ لکھا ہوا تھا۔مہروز نے اُس کاغذ کو ہاتھ میں لیا اور تکیے سے ٹک
کر پڑھنا شروع کیا۔
’’یہ میری زندگی کا پہلا اور آخری خط ہے جو میں کسی لڑکی کو لکھ رہا
ہوں،پلیز اسے پڑھ کر پھاڑ دینا ۔اور شاید تم اسے ایسے بھی پھاڑ ہی دو۔تم نے
میرے ساتھ جو بھی کیا مجھے اس کا ذرا بھی افسوس نہیں۔‘‘میں نے تمہیں معاف
کیا۔مہروز نے حیرت سے خط کو دیکھا اُس کی پیشانی پر اُلجھنوں کے آثار نظر
آنے لگے۔کیونکہ بات ہی ایسی لکھی ہوئی تھی،میں نے کیا کیا کسی کے
ساتھ؟؟۔۔۔۔۔ اور پھر اس نے پڑھنا شروع کیا۔ ’’کالج کا پہلا دن تھا، میں نے
تمہیں دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔لیکن تم نے آخری دن تک میری طرف نہیں
دیکھا۔‘‘مہروز کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی،شاید اسے لگا یہی اس نے غلط کیا اس
کے ساتھ۔۔
جس راستے سے تم کالج آتی ہو میں روزانہ اُس راستے پر آدھا گھنٹہ پہلے ہی سے
آکر بیٹھ جاتا تھا صرف تمہیں دیکھنے کیلئے،واپسی میں تم سہیلیوں کے ساتھ
پیدل ہی جاتی اس لئے میں بھی تمہارے پیچھے پیچھے آتا،پتہ نہیں کیوں، شاید
میں پاگل تھا۔تمہیں دیکھ کر عجیب سا سکون ملتا تھا میرے دل کو۔رات بڑی بے
چینی میں گذرتی،صرف صبح ہونے کا منتظر رہتا۔چھٹی کے دن تو براحال
ہوتا۔برداشت نہیں ہوتا تھا تو تمہارے گھر کے سامنے گھنٹوں بیٹھا رہتا لیکن
تم نظر کیسے آتیں،اتنی بڑی بڑی دیواریں اور گیٹ پر پہریدار۔دور سے گھر کو
دیکھ کر ہی واپس آجاتا تھا۔کئی بار سوچا تم سے کچھ بات کروں،لیکن تم تو کسی
کی بھی طرف دیکھنا پسند نہیں کرتی،مجھ سے کیا بات کروگی۔
ایک دن کالج کی چھٹی کے بعد تم حسب معمول نغمہ اور افروز کے ساتھ ناشتہ
کرنے نکلیں میں بھی تمہارے پیچھے تھا،جہاں روزانہ تم چاٹ کھاتی تھیں اُس کے
بازو میں جس فروٹ والے سے سیب لیتی تھیں وہ اُس دن نہیں تھا،تم نے نغمہ سے
کہا تھا مجھے چاٹ کھانے کے بعد ایپپل کھانا ہے ۔کہیں اور سے انتظام کرنا
پڑیگا۔۔۔میں نے دیکھا آس پاس کوئی فروٹ کی دوکان نہیں،میں دوڑ کر دوسری گلی
میں گیا،وہاں بھی فروٹ کی دوکانیں بند تھیں۔میں نے ایک شخص سے دریافت کیا
تو معلوم ہواپورے شہر میں آج فروٹ والوں کی ہڑتال ہے۔کہیں بھی فروٹ نہیں
ملے گا۔مجھے یاد آیا کہ قریب ہی ایک گودام ہے جہاں فروٹ رکھے جاتے ہیں،میں
بھاگتے بھاگتے وہاں گیا اور گودام کے مالک سے درخواست کی کہ مجھے کچھ سیب
دے دیں۔اُس نے کہا’’سیب مفت میں نہیں ملتے برخوردار‘‘۔میں نے کہا میں قیمت
دینے کو تیار ہوں۔اُس نے کہا۔قیمت تو ہمیں بازار میں بھی مل جاتی ہے،تم
ایسا کیا دے سکتے ہو جو ہمیں بازار میں نہ ملے۔مجھے کچھ سمجھ نہ آیا،میں نے
کہا تم ہی بتا دو۔اُنھوں نے کہا۔آج سے ایک مہینے تک تم ہمارے پاس غلام
۔’’بولو منظور ہے‘‘۔میں نے پوچھا مجھے کرنا کیا ہوگا؟ انھوں نے کہا۔صرف ایک
ماہ دن رات ہمارے گودام کی رکھوالی،کھانا پینا تمہیں یہیں ملے گا ۔یہاں تک
کہ تم ایک ماہ تک اپنے گھر بھی نہ جاسکوگے۔بولو کیا بولتے ہو؟۔ ’’میں نے
سودا منظور کرلیا‘‘۔ بدلے میں جتنے اُٹھا سکتے ہو اُتنے سیب لینے کی اور
انہیں تم تک پہنچانے کی اجازت مل گئی ۔میں نے بڑی سی بوری میں تازہ اور
عمدہ قسم کے سیب بھر لئے اور تمھارے پاس لے کر آیا تم تینوں وہیں کھڑی نظر
آئیں،میں نے قریب آکر فروٹ کی بوری تمہاری طرف بڑھائی ،لیکن تم نے میری طرف
بنا دیکھے مجھ سے کہہ دیا،’’معاف کرو‘‘۔میں تم سے کچھ مانگنے نہیں آیا تھا
مہروز۔بلکہ تمہارے لئے سیب لایا تھا۔تم تینوں تو آگے بڑھ گئیں۔گودام مالک
کا ایک آدمی میرے بغل میں کھڑا سوالیہ نظروں سے مجھے گھور رہا تھا۔یہ سب
تمہارے لئے کیا تھا اس لئے میں نے وہ بوری تمہارے بنگلے پر پہنچادی۔چوکیدار
کو کہہ دیا کہ مہروز بی بی کو یہ بوری دینی ہے اور اُن سے کہنا یہ’’ ایک
ماہ کی پیشگی تنخواہ،ایک چھوٹا سا تحفہ ‘‘ہے۔شاید تمہارے چوکیدار کو بھی یہ
پتہ تھا کہ سیب تمہیں بہت پسند ہیں اور فی الحال بازار میں ہڑتال کی وجہ سے
کہیں سیب دستیاب نہیں اس لئے اُس نے مجھ سے زیادہ سوالات نہیں کئے اور لے
لئے۔ ۔۔۔۔ میرا معاہدہ کل رات ختم ہو رہا ہے۔۔۔۔۔کل کالج کا آخری دن ہے۔
مجھے اس بات کا شروع سے ہی احساس ہے کہ میں تمہارے قابل نہیں۔لیکن میری
زندگی کا یہ ایک مہینہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا جو میں نے تمہارے نام کیا
ہے۔میری خط لکھنے کی وجہ یہ نہیں کہ میں تمہیں جتانا چاہتا ہوں کہ میں نے
تمہارے لئے کیا کیا۔بلکہ یہ ہے کہ میں کل الوداعی تقریب میں نہیں آسکوں
گا۔اور اب شاید تمہیں کبھی دیکھ نہ سکوں اسلئے ایک گزارش ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کل رات
الوداعی تقریب کے بعد تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خط ادھورے میں ہی ختم ہوچکا تھانہ ہی کسی کا نام تھا اور نہ ہی کوئی
پتہ۔مہروز حیرت سے خط کو دیکھ رہی تھی اُسے وہ دن یاد آیا جب چوکیدار نے وہ
بوری دی تھی اور کہا تھا بی بی جی،یہ ایک ماہ کی پیشگی تنخواہ،ایک چھوٹا سا
تحفہ کوئی آپ کیلئے دے گیا ہے۔اور وہ ہڑتال کے باوجودسیب ملنے سے بے حد خوش
ہوئی تھی لیکن ایک سوال اس کے ذہن میں تھا جس کا جواب اُسے ایک ماہ بعد ملا
تھا۔ خط پڑھ کر اس کا دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔رات بھر مہروز سو نہ سکی۔اُس کے
ذہن میں صرف ایک سوال تھا ۔کوئی کسی کے لئے اتنا کچھ کرسکتا ہے؟انہی خیالات
میں وہ کب سو گئی اُسے خبر نہیں۔
کالج جاتے وقت اُس کے ذہن میں اب بھی وہی خط گردش کررہا تھا ۔بہر حال وہ
اُس شخص سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکی تھی اور اب صرف اسے تلاش کرنا چاہتی
تھی۔انہی خیالات میں وہ کار سے اُتر کر آگے بڑھ ہی رہی تھی تبھی پیچھے سے
افروز اور نغمہ نے اُسے آواز دی۔’’محترمہ،کیا بات ہے؟ آج تو ہمارا خیال ہی
نہیں آپ کو۔اپنی دھن میں چلی جارہی ہیں‘‘۔مہروز کے چہرے پر خفیف سا تبسم
اُبھرا،اُس نے مُڑ کر دونوں کا ہاتھ پکڑ لیا اور جلدی جلدی اُنہیں لے کر
کلاس روم کی طرف بڑھنے لگی۔شاید اُسے خط کے بارے میں دونوں سے بات کرنے کی
جلدی تھی۔کلاس روم میں پہنچ کر اُس نے دونوں کو وہ خط دیا اور ساری بات
مختصر میں بتائی۔دونوں نے خط کو بغور پڑھا اور آپس میں ایکدوسرے کو حیرت سے
دیکھنے لگے۔ــ’’یہ تو ادھورا ہے‘‘۔ نغمہ نے کہا۔وہی تو!۔ نہ ہی کسی کا نام
ہے اور نہ پتہ۔کہیں کسی نے مذاق تو نہیں کیا؟۔افروز کے اس سوال پر مہروز نے
ہڑتال اور سیب والی بات کی تصحیح کی۔ نغمہ نے کہا چلودیکھتے ہیں تقریب کے
بعد۔
کالج کے سبھی طالب علم چاہتے تھے کہ تقریب جلد ختم نہ ہو،صرف مہروز کی سوچ
سب سے مخالف تھی۔تقریب کے اختتام پر جب تینوں باہر آئیں سڑک پر کچھ بھیڑ
تھی لوگ اُدھر ہی دوڑ پڑے تھے۔ پولیس کی وین اور ایمبولینس بھی سائرن بجاتی
ہوئی آچکی تھی ،ان سب سے بے خبر مہروز کی نظریں کسی اور کو تلاش کر رہی
تھیں۔نغمہ نے بھیڑ سے لوٹ رہے ایک لڑکے سے پوچھا۔’’ماجرا کیا ہے؟۔‘‘
اُس لڑکے کے جواب پر تینوں پر سکتہ طاری ہو گیا۔اپنے ہی کالج کا ایک لڑکا
ساحل جو گزشتہ ایک ماہ سے کالج نہیں آیا تھا اس کا سڑک پار کرتے ہوئے ابھی
کچھ دیر قبل ہی ایکسیڈنٹ ہو گیا۔تینوں بھیڑ کو چیرتے ہوئے اس کے پاس پہنچے
تو دیکھا وہ سڑک پر اوندھے منہ پڑا ہے اور آج بھی اُس کے ہاتھ میں ایک بوری
ہے جس کا منہ کھلا ہوا ہے اور اُس میں سے سیب نکل کر سڑک پر بکھرے پڑے
ہیں۔مہروز نے ایک نظر ساحل پر ڈالی،اُس کی آخری سانسیں چل رہی تھیں اور اُس
کے چہرے پر مہروز کو دیکھ کر ایک عجیب سی چمک آگئی اور اس کی روح پرواز کر
گئی۔اس نے جھک کر اپنے پیر کے پاس پڑے ہوئے ایک سیب کو اُٹھایا ،شاید یہ
تحفہ بھی اسی کیلئے تھا۔اور آنسوؤں کی ایک لکیر اُس کے رخسار سے ہوتی ہوئی
اُسی سیب پر آکر ٹھہر گئی۔ |