اللہ کا وجود
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
ایک شخص نائی کی دوکان بال اور
داڑھی بنانے کے لئے گیا۔ جیسا کہ عموماً ھوتا ھے نائی اور گاھک کے درمیان
گفتگو شروع ھو گئی۔ بات جب اللہ کے موضوع پر آئی تو نائی نے کہا؛
’’مجھے (نعوذباللہ) اللہ کے وجود پر یقین نہیں ھے.‘‘
گاھک نے پوچھا کہ وہ کیوں؟
نائی نے کہا؛ ’’اِس کے لئے باھر سڑک پر ایک نظر ڈالنا ھی کافی ھے۔ اگر خدا
ھوتا تو کیا اِتنے لوگ بیمار ھوتے؟ اِتنی اولادیں یتیم ھوتیں؟ دنیا میں
اِتنا رنج و غم ھوتا؟ مجھے یقین ھے کہ اگر رحیم و کریم اللہ کا وجود ھوتا
تو وہ ھرگز اِس کی اجازت نہیں دیتا کہ دنیا اتنے مسائل سے بھرا ھو۔‘‘
گاھک نے کچھ دیر سوچا لیکن اُس سے کوئی جواب نہ بن پڑا، ویسے بھی وہ بحث
کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
نائی نے اُس کے بال اور داڑھی بنائے اور وہ پیسے دے کر دوکان سے باھر نکل
آیا۔ اُسی وقت اُس کے سامنے سے ایک شخص گزرا جس کے بال اور داڑھی لمبے اور
بے ترتیب تھے اور لگ رھا تھا کہ بہت عرصہ وہ نہایا بھی نہیں ھے۔
گاھک واپس دوکان میں داخل ھُوا اور نائی سے کہنے لگا؛
’’جانتے ھو کیا؟ میرے خیال میں دنیا میں نائیوں کا بھی کوئی وجود نہیں ھے۔‘‘
نائی نے کہا کہ کیسی بات کر رھے ھو۔ میں نائی ھوں اور تمہارے سامنے موجود
ھوں، ابھی ابھی تمہاری داڑھی اور بالوں کی حجامت کی ھے۔
’’میں نے کہا نا کہ کوئی وجود نہیں ھے نائیوں کا، اگر ھوتا تو ایسے لوگ
ھرگز نظر نہ آتے جیسا میں نے ابھی ابھی تمہاری دوکان کے سامنے سے گزرتے
دیکھا ھے، لمبے اور الجھے بالوں اور داڑھی کے ساتھ۔‘‘
’’نہیں جناب نائی تو موجود ھیں اب اگر ایسے لوگ ھمارے پاس نہ آئیں تو ھم
کیا کر سکتے ھیں؟‘‘
’’بالکل یہی بات ھے۔ اللہ بھی ھر جگہ اور ھر زمانے میں موجود ھے، اب اگر
لوگ اُسے نہ ڈھونڈیں، اُس سے رابطہ نہ کریں اور سچّے دل سے اُس کی پیروی
اور اطاعت کر کے اُس سے نہ مانگیں تو یہ اللہ کا تو نعوذ باللہ قصور نہیں
ھے۔‘ |
|