مذہب اور ریاست
(S Alay Ahmed Bilgrami, )
اسلام دین فطرت ہے اور اسکے
قوانین فطرت کے اصول سے ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے قابل فہم اور سہل ہیں ۔اسلام
کے احکام اجمالی اور اصولی شان رکھتے ہیں اسلام کسی بھی نظام کے لیے بنیاد
فراہم کرتا ہے جس پر تشکیل دیا ہوا نظام بجا طور پر اسلامی نظام کہا جا
سکتا ہے ۔یہ ھی وجہ ہے کہ مختلف او ر متضاد معاشروں میں بھی اسلام ان
معاشروں کی فطری ساخت اور تمدن کو تبدیل کیے بغیر سرایت کر گیا ۔اسلام کے
اصول اور کلیہ مختصر جامع اور اجمالی ہیں مثال کے طور پر لباس کے احکاما ت
میں اسلام نے چند اصول دیے مثلا لباس پاک ہو غصبی نہ ہو اور ستر پوش ہو اب
ہر معاشرہ اپنے تہذیب و تمدن کے مطابق ان اصول کو مد نظر رکھ کر جو بھی
لباس پہنے گا وہ اسلامی لباس ہی کہلائے گا ایسے افراد سے قرون وسطی کے عرب
لباس یا عمامہ ٹوپی کا اصرار کرناقطعا غیر اسلامی طرز فکرہے ۔ قرآن پاک میں
شرعی احکام سے متعلق کم و بیش ۵۰۰ آیات ہیں ان آیات کو بنیاد بنا کر اجمال
کی تفصیلی قوانین مرتب کرنا انسانی عقل کا کام ہے اسلام کے اصول کے مطابق
ہر شے حلال اور جائز ہے جب تک اسکے حرام ہونے کی کوئی نص قران اور حدیث سے
واضح طور پر موجود نہ ہو۔اسلام کے اصول مختصر اور اجمالی ہیں باقی جو کچھ
فقہ اور شریعت کے ذیل میں ذخائر ہے وہ مختلف دور کے علماء و فقھاء کی فکر
اور ذاتی آراء ہے جو تمام کی تمام ظن اور تخمین اور قیاس پر مشتمل ہے ان
آراء کی اہمیت اپنی جگہ مگر یہ سارا مواد نہ تو حجت ہے اور نہ اٹل ان آراء
سے اختلاف بھی ممکن ہے اور ان پر نظر ثانی بھی کی جا سکتی ہے خود ان فقھاء
کے درمیان بھی ان مسائل میں اختلاف رہا ہے۔
الجھن اس وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرے کے منجمد ذہن ان آراء کو نص کا درجہ
دے کر اپنے اپنے مسالک سے متعلق علماء کی آراء کو ریاست میں رائج کرنے کی
کوشش کرتے ہیں ایسی فکر کے افرا اسلام کی اجمالی طرز کو چھوڑ کر ریاست اور
افراد کے ہر مئلہ کو شریعت کا لبادہ پہنانے لگتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیں
اسلام میں داڑھی کے بجائے داڑھی میں اسلام نظر آتا ہے انکے نزدیک ہر مسئلہ
اور ہر معاملہ مذہبی ہے وہ نجی خلوتوں سے لے کر خلائی سفر تک ہر معاملے میں
اپنا فرمان جاری کرنا اپنی شرعی زمہ داری سمجھتے ہیں یہ جمعہ یا اتوار کی
چھٹی کا معاملہ کو بھی کفر کی سازش قرار دے کر واجب اور حرام کے راکٹ داغتے
ہیں -
اسلام فرد سے مخاطب ہوتا ہے اور ہر فرد کو اخروی کامیابی کے لیے تیار کرتا
ہے مگر چوں کہ انسان مدنی الطبع ہے اورافراد دیاست کا جز بن کر رہتے ہین اس
لیے وہ ریاست کے لیے بھی کچھ اصول مرتب کرتا ہے ان میں بھی پیش نظر افراد
کا نظم اور بہبود ہوتی ہے ۔ ریاست کا کام فقہ و شریعت کی ترویج یا نفاذ
نہیں اگر ریاست معاشرے کے کسی ایک نقطہ نظر کو اختیار کر لے تو دوسرے تمام
طبقے جو اس نقطہ نظر سے اختلاف رکھتے ہیں عدم تحفظ کا شکار ہو جائین گے اور
اسطرح ریاست کے مختلف طبقے باہم دست و گریبان ہو جائیں گے جو نظم کی خرابی
پر منتج ہو گا البتہ ریاست اسلام کے فراہم کردہ اصول(مثلا عدل انصاف مساوات
وغیرہ) کو مدنظر رکھ کر افراد کی فلاح اور معاشرے کے نظم کے لیے قانوں مرتب
کرے گی مگر فقہھاء کی شرعی تاویلوں اور تشریحات کو مد نظر رکھنا یا کسی فقہ
کو نافذ کرنا ریاست کا کام نہیں - |
|