٢۔ اس سلسلہ میں دوسرا باب تعزیت کا ہے
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس سلسلہ میں دوسرا باب تعزیت کا ہے
عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
عَلَى أَبِي سَلَمَةَ وَقَدْ شَقَّ بَصَرُهُ فَأَغْمَضَهُ ثُمَّ قَالَ "
إِنَّ الرُّوحَ إِذَا قُبِضَ تَبِعَهُ الْبَصَرُ " . فَضَجَّ نَاسٌ مِنْ
أَهْلِهِ فَقَالَ " لاَ تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ إِلاَّ بِخَيْرٍ
فَإِنَّ الْمَلاَئِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ " . ثُمَّ
قَالَ " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأَبِي سَلَمَةَ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِي
الْمَهْدِيِّينَ وَاخْلُفْهُ فِي عَقِبِهِ فِي الْغَابِرِينَ وَاغْفِرْ
لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ وَافْسَحْ لَهُ فِي قَبْرِهِ .
وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ " .
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ہمارے
گھر) ابوسلمہ کی وفات پر تشریف لاۓ...اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے دعا کی، مفہوم:
یااللہ! ابو سلمہ کو بخش دے، ھدایت یافتہ لوگوں میں اسکا مرتبہ بلند فرما
اور اسکے پسمندگان کی حفاظت فرما، یا رب العالمین! ہم سب کو اور مرنے والے
کو معاف فرما، میت کی قبر کشادہ کر دے اور اسے نور سے بھر دے.
حوالہ رواہ مسلم: 920
عورت اپنے خاوند کی موت پر چار ماہ دس دن سے زیادہ سوگ نہ کرے
دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم
فَقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ " لاَ
يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ تُحِدُّ عَلَى
مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ، إِلاَّ عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ
وَعَشْرًا "
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ
محترمہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوۓ
سنا، مفہوم: اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھنے والی کسی خاتون کے لیے بھی
میت پر تین دن سے زیادہ اور شوہر کی میت پر چار ماہ دس دن سے زیادہ سوگ
جائز نہیں.
حوالہ: رواہ بخاری، رقم الحدیث: 1281، 1282 ومسلم، رقم الحدیث: 1486
خاوند کے علاوہ ہر مرد یا عورت کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ جائز نہیں
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، قَالَ تُوُفِّيَ ابْنٌ لأُمِّ عَطِيَّةَ ـ
رضى الله عنها ـ فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الثَّالِثُ دَعَتْ بِصُفْرَةٍ،
فَتَمَسَّحَتْ بِهِ وَقَالَتْ نُهِينَا أَنْ نُحِدَّ أَكْثَرَ مِنْ ثَلاَثٍ
إِلاَّ بِزَوْجٍ.
محمد بن سیرین رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا
بیٹا فوت ہوگیا. انتقال کے تیسرے دن انہوں نے"صفرۃ خلوق" (ایک قسم کی زرد
خوشبو) منگوائ اور اسے لگایا اور فرمایا، مفہوم: ہمیں شوہر کے علاوہ کسی
اور پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے منع کیا گیا ہے.
(حوالہ: رواہ بخاری، رقم الحدیث: 1279)
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم
أَمْهَلَ آلَ جَعْفَرٍ ثَلاَثًا أَنْ يَأْتِيَهُمْ ثُمَّ أَتَاهُمْ فَقَالَ
" لاَ تَبْكُوا عَلَى أَخِي بَعْدَ الْيَوْمِ..."
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے (سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پر) تین دن تک
لوگوں کو آنے کی اجازت دی. تین دن کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
تشریف لاۓ اور فرمایا، مفہوم: آج کے بعد میرے بھائ کا سوگ نہ کیا جاۓ.."
حوالہ: سنن ابوداود رقم الحدیث: 4192 سنن النسائ رقم الحدیث: 5227، و سندہ
صحیح، یعنی یہ روایت صحیح سند کے ساتھ ہے)
میت کے اہل خانہ کے ہاں کھانا بھیجنے کا بیان
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ لَمَّا جَاءَ نَعْىُ جَعْفَرٍ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ "اصْنَعُوا لآلِ جَعْفَرٍ
طَعَامًا فَقَدْ أَتَاهُمْ مَا يَشْغَلُهُمْ أَوْ أَمْرٌ يَشْغَلُهُمْ".
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، مفہوم: جب سیدنا جعفر
رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر آئ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے
اہل وعیال کے لیے کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور فرمایا، مفہوم: ان لوگوں
پر ایسی مصیبت آئ ہے یا فرمایا ایسا معاملہ پیش آیا ہے جس میں وہ کھانا
نہیں پکا سکیں گے
(حوالہ: سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث: 1610،و سندہ حسن)
تعزیت پر چیخنا، چلانا، کپڑے پھاڑنا اور ماتم کرنا منع ہے
أَنَّ أَبَا مَالِكٍ الأَشْعَرِيَّ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله
عليه وسلم قَالَ "أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لاَ
يَتْرُكُونَهُنَّ الْفَخْرُ فِي الأَحْسَابِ وَالطَّعْنُ فِي الأَنْسَابِ
وَالاِسْتِسْقَاءُ بِالنُّجُومِ وَالنِّيَاحَةُ ". وَقَالَ
"النَّائِحَةُ إِذَا لَمْ تَتُبْ قَبْلَ مَوْتِهَا تُقَامُ يَوْمَ
الْقِيَامَةِ وَعَلَيْهَا سِرْبَالٌ مِنْ قَطِرَانٍ وَدِرْعٌ مِنْ
جَرَبٍ".
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: میری امت میں زمانہ جاہلیت
کے چار کام ایسے ہیں جنہیں لوگ نہیں چھوڑیں گے. 1. اپنے حسب پر فخر کرنا.
2. دوسرے کے حسب پر طعنہ زنی کرنا. 3. تاروں سے بارش طلب کرنا. 4. (مرنے
والوں پر) بین کر کے رونا. " نیز فرمایا بین کرنے والی عورت اگر توبہ سے
قبل مرگئ تو اسے قیامت کے روز کھڑا کر گندھگ کا پائجامہ اور کھجلی (خارش)
کا کرتا پہنایا جاۓ گا.
(حوالہ: صحیح مسلم، رقم الحدیث: 934
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ ـ رضى الله عنها ـ قَالَتْ أَخَذَ عَلَيْنَا
النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم عِنْدَ الْبَيْعَةِ أَنْ لاَ نَنُوحَ.."
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ہم سے بیعت لیتے وقت یہ عہد بھی لیا تھا کہ"ہم (میت پر) نوحہ نہیں کریں
گے.."
صحیح بخاری،رقم الحدیث: 1306
اہل میت کے گھر کھانے کا اہتمام کرنا
عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيِّ، قَالَ كُنَّا نَرَى
الاِجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنْعَةَ الطَّعَامِ مِنَ
النِّيَاحَةِ.
سیدنا عبداللہ بجلی کی ایک روایت ہے کہ اہل میت کے گھر جمع ہونا اور انکے
ہاں کھانا کھانا ھم نوحہ میں شمار کرتے تھے
حوالہ:ابن ماجہ جلد:2 صفحہ:76 رقم الحدیث: 1612 مترجم مکتبہ اسلامیہ)
اگرچہ اس روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے احکام الجنائز وبدعہا کے صفحہ
167 میں صحیح لکھا مگر شیخ زبیر رحمہ اللہ نے اسکے راوی اسماعیل بن ابی
خالد کی تدلیس کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف کہا، واللہ اعلم.
تعزیت کے متعلق وہ امور جو سنت سے ثابت نہیں بلکہ بدعات ہیں:
میت کے گھر کھانا نہ کھانے کی جس روایت کو محدث کبیر شیخ البانی رحمہ اللہ
نے صحیح کہا مگر محدث العصر شیخ زبیر رحمہ اللہ نے اسکے راوی اسماعیل بن
ابی خالد کی تدلیس کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف کہا، اسکو صحیح سمجھا جاۓ یا
ضعیف مگر یہ مسئلہ بالکل ٹھیک ہے اور اس عمل سے بچنا چاہیے، اور میت والے
گھر کچھ کھانا یا پینا نہیں چاہیے. اسی طرح ہاتھ اٹھا اٹھا کر بار بار دعا
کرنا، یا ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھنا، اسی طرح تعزیت کے لیے آنے والے آدمی کا
پہلے سے موجود افراد کو بار بار اجتماعی دعا کے لیے درخواست کرنا بھی سنت
سے ثابت نہیں. تین دن سے زیادہ اہل میت کے گھر یا کسی دوسری جگہ بیٹھنے کا
اہتمام کرنا بھی سنت سے ثابت نہیں. وفات کے بعد پہلی شب براءت یا چالیسواں
یا جمعراتیں یا پہلی عید یا سال کے موقع پر نۓ سرے سے تعزیت وسوگ کا اہتمام
کرنا سب بدعات ہیں اور سنت سے ثابت نہیں. اور ان سب سے بچنے میں فلاح ہے،
اور ان معاملات میں لوگوں کی حکمت سے اصلاح کرنا چاہیے. |
|