گلگت:اہل سنت والجماعت پر مشکل اوقات اور خدا کی مدد
(Qazi Nisar Ahmad, Gilgit)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
گلگت بلتستان کے مخدوش حالات کے حوالے سے گزشتہ شمارے میں کافی تفصیل سے
جائزہ لیا گیا تھا۔راقم الحروف ہوم اریسٹ(Home Arest) تھا۔ اہلسنت کے مشکل
حالات میں ہمارے زخموں پر مرہم رکھنے اور ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچانے
کے بجائے صوبائی حکومت ایک مسجد بورڈ بنانے لگی۔ راقم الحروف نے ذمہ دار
حضرات سے رابطہ کیا اور ان پوچھا کہ آپ کیا کررہے اور کیا کرنے جارہے ہیں؟۔
انہوں نے بتایا کہ ہم صرف اورصرف امن معاہدے پر عمل درآمد کروانے کی کوشش
کررہے ہیں اور مسجد بورڈ بھی امن معاہدے کا حصہ ہے۔ بعض ذمہ دار حضرات غیر
رسمی طور پر ملاقات کے لئے تشریف لائے' انہوں نے بتا یا کہ اہل تشیع صحابہ
کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین' امہات المؤمنین' اور خلفائے راشدین رضوان
اللہ علیھم اجمعین کی شان میں ہر قسم کی گستاخی سے اجتناب کریں گے اورایسی
تقاریر سے بھی اجتناب کریں گے جس سے قرآن مجید میں تحریف کا اشارہ ہو' راقم
الحروف نے پوچھا کہ پھر ہم نے کیا کرنا ہے تو انہوں نے بتایا کہ آپ اہل
تشیع کی تکفیر نہیں کریں گے' راقم نے کہا کہ مذکورہ امو ر پر مشتمل کتب'
رسائل' ویڈیو آڈیو کیسٹوں پر بھی پابندی عائد ہو۔ اورہم کسی نئی تحریر پر
دستخط کے بجائے امن معاہدہ 2005 ء کو کافی سمجھتے ہیں۔ جب تک اس پر عمل
درآمد نہیں ہوگا تو نئے کسی بھی معاہدے پر کوئی بھروسہ نہیں کہ عمل درآمد
ہوجائے۔حکومتی احباب نے اپنی مرضی سے تیار کردہ ایک ضابطہ محررہ پیش کیا '(جو
چندان پڑھ اور دینی علوم سے بے بہرہ لوگوں نے مرتب کیا تھا) ساتھ ہی یہ
وضاحت بھی مسجد بورڈ کے نمائندوں اور کابینہ کے اراکین نے کی آپ یعنی راقم
الحروف کے دستخط کی ضرورت نہیں۔ راقم نے اس حوالے سے بھی عرض کیا کہ اس میں
کچھ اصطلاحات کی جائیں اور کچھ عبارات درست کیے جائیں۔ چنانچہ دوسرا ضابطہ
لایا گیا اور اس پر میرے دستخط کو لازمی قرار دیا گیا۔ دینی علوم سے بے
بہرہ اور اپنی من پسندی سے تیار کردہ کسی بھی ضابطہ پر دستخط کرنا راقم
الحروف کے لئے بے حد مشکل تھا' شہر کے علماء کرام سے مشاورت کی تو انہوں نے
بھی سختی سے منع کیا۔منع کرنے کی وجہ واضح تھی کہ یہ ضابطہ بنیادی عقائد و
نظریات اور انسانی حقوق کے بھی خلاف تھا۔ دستخط نہ کرنے کی وجہ سے حکومت
وقت نے مقامی اخبارات کے ذریعے راقم کو بدنام کرنے کی بھرپور کوشش کی'
مقامی اخبارات نے بھی میرامؤقف جانے بغیر یک طرفہ ٹریفک چلانی شروع کردیے
اور اخبارات میں ایسی ایسی خبریں شائع کرنے لگے کہ ان کا حقیقت سے دور کا
بھی تعلق نہیں تھا۔ اس حوالے سے کچھ اخباری نمائندوں کو وزیراعلی سیکریٹریٹ
میں لے جا کر ہمارے خلاف خوب ورغلا کر ان کو مالی معاونت کی پیش کش بھی کی
گئی' اس وجہ سے اخبارات نے ہماری وضاحت کو شائع کرنے سے انکار کردیا۔ سرکا
ر کے اہم نمائندوں کے ذریعے راقم کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع کیا گیا'
اپنوں نے دبے الفاظ میں برے نتائج کا مژدہ سنایا' ماضی کے چند حوالے دیکر
خوفناک مناظر کا نقشہ کھینچا'غیروں نے کھلے عام اپنی نجی اور سرکاری محفلوں
میں مجھ سے آہنی ہاتھوں نمٹنے کی باتیں کیں اور اس میں چند اپنے سرکاری
کارندے بھی پیش پیش رہے' غرض ہر حربہ اپنایا گیا' مختلف ہتھکنڈے اختیار کئے
گئے۔ 16 MPO کے تحت گرفتار شدہ احباب کو ٹارچر کرنا شروع کیا گیا، راقم کو
مچھ اور اڈیالہ جیل کا راستہ بھی دکھایا گیا۔ اخبارات کے ذریعے راقم کو ٤٨
گھنٹوں کا الٹی میٹم بھی دیا گیا۔ تاہم اللہ رب العزت کا بے حد فضل و کرم
ہوا کہ اللہ تعالی ٰ نے استقامت عطا فرمائی۔اپنے اساتذہ اور اکابر کا دیا
ہوا سبق یاد آنے لگا کہ قل ربی اللہ ، ثم استقم ' الحمد للہ اس پر عمل بھی
ہوا اور معاونت خداوندی شامل بھی رہی۔ خیر ! مشکل کے ان حالات میں راقم نے
کابینہ کے اراکین کی خدمت میں ایک عریضہ پیش کیا جوکہ درج ذیل ہے۔
محترم اراکین پارلیمانی امن کمیٹی گلگت بلتستان
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
بعداز تسلیمات مسنونہ!
آپ حضرات نے حالیہ کشید گی کی بہتری کے لئے جو ضابطہ تحریر فرمایا ہے،مسجد
بورڈ کے محترم اراکین کے ذریعے موصول ہوا۔ اس حوالے سے گزارش ہے کہ اس قسم
کا ضابطہ مرتب کرنے سے پہلے فریقین کو اعتماد میں لانا چاہیے تھا۔ نیز
مسودہ کو شائع کرنے سے پہلے اتفاق رائے کرنا از بس ضروری تھا۔ مگرآپ حضرات
نے نہ صرف شائع کیا بلکہ اس کی بار ہا اخبارات میں تشہیر کرکے عوام الناس
کو آگاہ کرتے رہے۔ اس کے اثرات ان کشیدہ حالات میں نہایت خطرناک اور نقصان
دہ ہوسکتے ہیں۔
محترم اراکین!
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ٢٠٠٥ ء میں بھی، ہر دو مساجد سیل کردی گئی تھیں،
اُس وقت ایک ضابطہ بعنوان '' قواعد و شرائط وضوابط برائے کشادگی مقفل
مساجد''طے ہوا ہے جوکہ لف ہذا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی ضابطے کو مرتب کرنا
اور اسے قانونی شکل دینا اس خطے کو مزید کشیدگی کی طرف لے جانے کے مترادف
ہوگا۔ اس طرح سے بغیر عمل در آمد کے ضابطوں کا تسلسل کسی بھی طرح مناسب
نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح گرینڈ امن جرگے کا متفقہ مسلمہ '' امن
معاہدہ '' جسکو دو محترم ایوانوں میں قانونی حیثیت دی گئی ہے بری طرح متاثر
ہوگا ۔ یہ صورت حال مزید ناامیدی پیدا کرے گی جسے ہر دو فریق کے علمائ،
زعمائ، دانشوروں اور P.T.O اور صحافیوں اور ہر طبقے کے تسلیم کئے جانے کے
باوجود اس سے کمزور کرنا بہت ہی افسوس ناک ہوگا۔ ہم کریڈیٹ اور ٹاسک کے نام
کسی ایسی کوشش کا حصہ بننا نہیں چاہتے ہیں۔
محترم اراکین!
نہایت افسوس سے عرض کرنا پڑتا ہے کہ ضابطے کے مرتب کرنے میں کتنی بے
ضابطگیاں پیدا کی جارہی ہیں، ذکر کرنا مناسب نہیں ہے۔ آپ حضرات نے امور
اورمعاملات کے بجائے اس ضمن میں عقائد اور فتوؤں کے حوالے سے علمی ، تحقیقی
اور نازک معاملات کو چھیڑا ہے جوکہ آپ حضرات کے فہم و تدبر،فرائض منصبی اور
دسترس سے باہر ہے۔یہ کام خالص دینی علمی درسگاہوں اور معروف دارالافتاؤں کا
ہے۔مگر بدقسمتی سے آپ نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ جو کسی بھی طرح نیک
شگون نہیں۔
مجھے امید ہے کہ آپ حضرات رنجیدہ خاطر ہوئے بغیر فی الوقت گرینڈ امن جرگہ
کے '' امن معاہدہ'' اور اس کا حصہ اور عنوان ''شرائط ، قواعد و ضوبط برائے
واگزاری مقفل مساجد'' کے مندرجات پر عمل پیرا ہونگے ، جوکہ لف ہذا ہیں۔ اور
''امن معاہدہ'' پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔
اراکین محترم !
''امن معاہدے '' پر عمل درآمد کے مستدعی ہونے کے حوالے سے اہل سنت نے نہایت
صبر و برداشت، وسعت ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بارہا حکومت اور فریق ثانی پر
حجت قائم کی ہے۔ اب حکومت عدل و انصاف، میرٹ اور رِٹ کا مظاہرہ کرکے ظالم
اور مظلوم و جارح و مجروح میں فرق کرکے اپنی ذمہ داریاں بجا لائے۔آج بھی
راقم الحروف نظر بند ہے اور ١٣ بے گناہ علماء اور مرکزی ساتھی M-P-O 16کے
تحت گرفتارہیں۔ ہم ہمیشہ سے قیام امن کے لئے تعاون کرتے رہے ہیں۔
اراکین محترم !
اخباروں کے ذریعے ایسا تاثر ابھارنا بالکل نامناسب ہے کہ راقم الحروف(قاضی
نثار احمد) کا دستخط ہی امن کے لئے رکاوٹ ہے اور نہ ہی اخباروں کے ذریعے
ہمیں شدت پسند کا طعنہ دیں۔ہم نہ شدت کے قائل ہیں نہ مداہنت کے۔
اراکین محترم!
پھر بھی آپ حضرات بایں ہمہ اپنے ضابطے کو لازمی سمجھتے ہیں تو پہلی مرتبہ
مرتب کردہ ضابطے سے شق نمبر ٣ اور نمبر٤ کو حذف فرمائیں جو کہ غیر ضروری
ہیں۔ بصورت دیگر پہلی شق کے بالکل آخر میں ایک جملے کا اضافہ کیا جائے، وہ
جملہ یہ ہے۔ '' مذکورہ نفوس مقدسہ(صحابہ کرام' خلفائے راشدین و امہات
المومنین) کو جو کوئی بھی غاصب و کافر یا فاسق و مرتد کہے یا لکھے ، اسی
طرح جو قرآن مجیدکو محرف کہے یالکھے دائرہ اسلام سے خارج ہے''
تب اہل سنت والجماعت کو ضابطہ کے شق نمبر ٣ کے فتوئے پر دستخط کرنے کی
گنجائش ہوگی۔باوجود اس کے کہ ضابطے میں بعض شقیں انسانی بنیادی حقوق کے
خلاف بھی موجود ہیں۔و اضح رہے کہ اس طرح کا جملہ ملی یکجہتی کونسل کے
معاہدے میں موجودہے، استفادہ کیا جاسکتاہے۔
اراکین محترم!
آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ مزید ضابطوں کے ذریعے اُلجھاؤ، کشیدگیاں اور
دوریاں پیدا کرنے سے ہمیں بچائیں۔ گرینڈ امن معاہدے پر بے خوف و خطر عمل
درآمد کو یقینی بنا کر ممنون وماجور ہوں۔ شکریہ
والسلام مع الکرام
خادم اہل سنت والجماعت' قاضی نثاراحمد عفی عنہ
نوٹ: یہ عریضہ /خط روزنامہ ہمالیہ میں مِن و عن شائع ہوا' باقی اخبارات نے
شائع کرنے سے معذرت کی ' کیونکہ ان کو لالچ دیا گیا تھا تاکہ وہ ہماری
خبریں اورمؤقف عوام الناس تک نہ پہنچائے۔
بالآخر ہمارے مذاکرات ناکام ہوئے اور رابطے ختم ہوئے' راقم کے گھر پر
سرکاری اہل کاروں نے سختیاں مزید بڑھا دیں اور اور گھر پر مامور ایک سب
انسپکٹر صاحب کو سزا کے طور پر ٹرانسفر کیا گیا کہ انہوں نے ملاقاتیوں کو
گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی' غرض ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنا
شروع کر دیے گئے۔ جامعہ نصرة الاسلام کے استاد مولانا کفایت اللہ جو جامعہ
کے کاغذات لے کر آئے تاکہ کچھ اہم امور کے بارے مشاورت کی جاسکے کو روک کر
ملاقات کی اجازت نہیں اور انہیں کہا گیا کہ قاضی صاحب ضابطہ پر دستخط نہیں
کرتے اس لیے کسی بھی قسم کا اہم مسئلہ ہو ہم کسی کو ملاقات کی اجازت نہیں
دیں گے۔
حکومت نے اس متنازعہ ضابطہ کو قانونی شکل دینے کے لئے اسمبلی میں پیش کیا'
اس معاہدے پر طرفین کے اعتراضات تھے کے باوجود حکومت نے اس کو اپنی
آناکامسئلہ بنایا' اس کے لیے کابینہ کی الگ کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں ذیل
حضرات مقرر ہوئے۔ ١۔مولاناسرور شاہ صاحب ' ٢۔رحمت خالق ' ٣۔ دیدار علی۔ ان
حضرات نے دوبارہ رابطہ کیا او ر ترمیم پیش کرنے کی اجازت دی ' اس پر راقم
نے ضلع دیامر کے جید علماء کرام سے رابطہ کیا اور انہیں گلگت آنے کی گزار ش
کی تاکہ اس معاملے کو سلجھایا جاسکے۔ ضلع دیا مرسے تشریف لائے ہوئے علماء
کرام کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
١۔ جناب حضر ت مولانا عبدالقدوس صاحب( شیخ الحدیث جامعہ عروة الوثقیٰ چلاس)
٢۔ جناب حضرت مولانا شہزادہ خان صاحب(شیخ القرآن و التفسیر'تانگیر دیامر)
٣۔ جناب حضرت مولانا عبدالحلیم صاحب(داریل دیامر)
٤۔ جناب حضرت مولانا عبدالوکیل صاحب(داریل دیامر)
٥۔ جناب مولاناوجاہت اللہ صاحب(بونجی 'ضلع استور)
٦۔ جناب حضر ت مولانامعاذ المعروف خان بہادر صاحب( رئیس دارالعلوم تعلیم
القرآن جگلوٹ)
٧۔ جناب حضرت مولانامحمد صادق صاحب(چلاس)
٨۔ جناب حضرت مولاناقاری عبدالحکیم صاحب(استور' سابق ممبر لیجسلیٹیو اسمبلی
گلگت)
مندرجہ بالا علماء کرام نے پارلیمانی کمیٹی کے اراکین سے مذاکرات کئے' کچھ
نکات پر اتفاق ہوا۔ بعدازیں ان اکابر علماء کرام نے محمدی مسجد کشروٹ میں
دو سو علماء کرام کو جمع کرکے ان سے اس حوالے سے مشاورت کی گئی' طویل غور و
خوض اور علماء کرام کے دستخطوں کے بعد راقم الحروف نے بھی علماء کرام کے
متفقہ طور پر تیارکردہ اس ضابطے پر دستخط کردیے۔ اس موقع پر دیگر طے ہوا کہ
امن معاہدہ 2005 ء پر عمل درآمد ہر حال میں یقینی ہوگا۔
بعدازیں ٢٧ مئی کو مساجد کی تالہ بندی ختم کر دی گئی اور یکم جون کو راقم
الحروف کی نظر بندی ختم کر دی گئی، راقم الحروف نے نماز جمعہ پڑھائی۔آٹھ
جون کو M-P-O 16کے تحت گرفتار علما ء کرام اور دیگر رہا کردیا گیا ۔ جس میں
جناب مولانا سیدمحمد ولی شاہ خطیب جامع مسجد شوٹی' جناب شرافت خان صاحب'
جناب اعظم طارق صاحب' جناب میجر ابرار صاحب اور امپھری کے ایک نوجوان شامل
ہیں جبکہ مولانامنیر صاحب'جناب مولانا فرمان صاحب' جناب مولانا جعفر صادق
صاحب' جناب ارسلان صاحب کو ٩ جون کو رہا کردیا گیا۔' جناب میرباز صاحب اور
مولانا عبداللہ حیدری صاحب کو انوسٹگیشن ونگ منتقل کیا گیا ' ان سے کافی
سخت پوچھ گچھ کرنے کے بعد بالآخر ٢١ جون کو انہیں بھی رہا کردیا گیا۔
مولانا عطاء اللہ ثاقب کو ١٠ جون کو عدالت نے ضمانت منظور کی' مگر دوبارہ
M-P-O 16کے تحت گرفتار کیا گیا اور بعد میں مولانا کو بھی رہا کردیا گیا۔
انتہائی افسوس کے ساتھ رقم کرنا پڑتا ہے کہ٤ مئی کو ١٣ رجب کے موقع پر
حکومتی انتظامات اور فل سیکورٹی میں شہر کے مختلف مقامات پر چراغاں کیا گیا
جو امن معاہدے کے خلاف ورزی تھی اور حالات بھی اس کی متقاضی نہیں تھے'
مساجد بورڈ والے بھی خاموش رہے اور حکومتی احباب بھی اس بے قاعدگی پر مہر
بلب رہے' ساتھ گلگت شہر اور اس کے ارگرد اہل سنت کے کئی بے گناہ لوگوں کو
شہید کردیا گیا جن میں شروٹ میں چلاس کا ایک نوجوان' ایک سبزی فروش اور
جگلوٹ کے مقام پر ایک آدمی شہید کر دیا گیا' انتظامیہ حرکت میں نہیں آئی '
اب تک ان بے گناہ لوگوں کے قاتل گرفتار نہیں ہوئے۔ ہم گلگت بلتستان کی
انتظامیہ اور سیاسی حکومت سے گزارش کرتے ہیں کہ شہر میں امن و امان کو قائم
رکھنے کے لیے امن معاہدے پر سختی سے عمل درآمد کروائے' بے گناہ لوگوں کے
قاتلوں کو گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچائے' یاد رہے کہ امن وآمان کے
حوالے سے جو بھی تعاون ہوگا اہل سنت کی جانب سے کیا جائے گا مگر اہل سنت
اپنے اوپر ناجائز ظلم ہر گز ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔امن قائم کرنے کے لئے
حکومتی رٹ کا قائم و بحال ہونا ضروری ہے ' لہذا امن معاہدے اورمساجد کے لئے
بنایا گیا ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرواکر بحالی امن کو یقینی
بنایاجائے۔خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
نوٹ: یہ مضمون ماہنامہ نصرة الاسلام کے شمارہ نمبر ٣، 2012 کے لیے بطور
اداریہ لکھا گیا ہے۔ قاضی |
|