بین الاقوامی شہری دفاع
(خواجہ الطاف ڈپٹی ڈویژنل وارڈن تنظیم شہری دفاع راولپنڈی, Rawalpindi)
انسان جس کو اللہ تعالیٰ نے بے
شمار نعمتوں سے نوازا ہے اس کی زندگی ان گنت خطروں سے دوچار ہے۔لہٰذااسے
ایک مسلسل جدوجہد کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ زندگی کو مختلف سہولتوں سے
آراستہ کرنے کیلئے اس کو بے پناہ مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
جہاں پرامن، محبت، رحم، میل جول اور آسائش کاخواہاں رہا ہے۔ وہیں ڈر، خوف،
تحفظات ، پریشانی کا بھی شکار رہا ہے ۔ پھر ڈر خوف سے بچنے کی مختلف تدابیر
بھی اختیار کرتا رہا۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان دفاع کا
جذبہ بھی پیدائشی طور پر ساتھ لے کر آیا ہے۔ یوں شروع ہی سے مختلف دفاعی
تدابیر دیکھنے کو ملتی ہیں جو غیر منظم اور صرف فرد یا چند افراد تک محدود
نظر آتی ہیں لیکن جوں جوں انسان مہذب ہوتا گیا اس کی یہ کوشش بھی منظم
ہوتی گئی۔ دستیاب تاریخ میں شہری دفاع کی ابتدائی منظم کاوشیں نبی کریم
حضرت محمد ﷺ کی حیات طیبہ میں نظر آتی ہے۔ جیسے ہجرت، خندق کا کھودنا،
دوران حرب بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر ہاتھ نہ اٹھانا بلواسطہ شہری دفاع ہی
کی صورت ہے۔
1931ء بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں ایک فرانسیسی سرجن جنرل جارج سینٹ پال
نے
(NEUX DE GENEVE ASSOCIATION) کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی جس کا
مقصد جنگوں کے دوران ایک ایسی جگہ مہیا کرنا ہے جہاں ان شہریوں کو رکھا
جاسکے جن کا جنگ سے کوئی تعلق نہ ہو۔ فرانسیسی سرجن جنرل جارج سینٹ پال
1937ء میں انتقال کرگئے تو اس تنظیم کا نام بدل دیا گیا اور اس کو پیرس سے
جنیوا منتقل کر دیا گیا۔ اس کا نیا نام ’’ بین الاقوامی تنظیم برائے حفاظت
شہری آبادی و تاریخی عمارت‘‘ رکھا گیا۔ 1958ء میں اس تنظیم کو انٹرنیشنل
سول ڈیفنس آرگنائزیشن کا نام دیا گیا۔ یعنی بین الاقوامی تنظیم شہری دفاع۔
یکم مارچ 1972ء کو اس تنظیم کا آئین و دستور نافذ کیا گیا اور اسی مناسبت
سے ہر سال یہ بین الاقوامی تنظیم یکم مارچ کو بین الاقوامی یوم شہری دفاع
کے طور پر مناتی ہے۔
وطن عزیز پاکستان نہ صرف اس تنظیم کا ایک فعال ممبر ہے بلکہ اس کی صدارت کے
فرائض بھی انجام دے چکا ہے۔ اس وقت اس تنظیم کے50ممبران ہیں۔ شہریوں کے
دفاع کے حوالے سے پاکستان میں اولین طور پر یہ تنظیم ARP(ائیر ریڈ پریکا
شنری میئرز) یعنی ہوائی حملہ سے بچائو کے اقدامات کے نام سے قائم ہوئی اور
باقاعدہ محکمہ بنایا گیا لیکن بڑھتے ہوئے زمینی و آسمانی خطرات کے پیش نظر
1951ء میں اسے باقاعدہ شہری دفاع کے نام سے موسوم کرتے ہوئے اس میں بہتری
کے اقدامات تجویز کئے گئے۔ اس محکمہ کو تین سطحوں پر آرگنائز کیا گیا۔
٭… وفاقی سطح پر
وفاق کی سطح پر اس کا تنظیمی ڈھانچہ کچھ یوں ہے۔ وزارت داخلہ، ڈائریکٹر
جنرل شہری دفاع، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز ، وفاقی سطح پر اس کا کام۔
-1 صوبوں کیلئے پالیسی مرتب کرنا۔
-2 مرکزی حکومت کی جانب سے صوبوں کو فنڈز مہیا کرنا۔
-3 تربیتی اداروں کا قیام۔
-4 نصاب مرتب کرنا۔
-5 مختلف کورسز کا شیڈول مرتب کرنا وغیرہ
٭… صوبائی سطح پر ۔
صوبائی سطح پر اس کی تنظیم کچھ یوں ہے ۔ سیکرٹری داخلہ ، ڈائریکٹر سول
ڈیفنس ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر۔
ذمہ داریاں:
-1 وفاق کے ساتھ رابطہ۔
-2 وفاقی پالیسیوں پرعملدرآمد کیلئے وسائل کا انتظام۔
-3 ضلع کی سطح پر شہری دفاع کے دفاتر کا قیام۔
-4 ضلع کی سطح پر آپریشنل تیاریوں کیلئے سامان کی فراہمی۔
-5 تمام پبلک سکولوں و کالجوںو یونیوسٹیوں میں تربیتی پروگرام کا شیڈول
مرتب کرنا شامل ہے۔
٭… ضلع کی سطح پر۔
ضلع کی سطح پر اس کی تنظیم یہ ہے ۔ ڈی سی او کنٹرولر سول ڈیفنس ۔ ڈسٹرکٹ
آفیسر سول ڈیفنس ، انسٹرکٹر سٹاف ، ایمرجنسی سٹاف ، بم ڈسپوزل ۔
ذمہ داریاں:
اس کی ذمہ داریوں میں ضلع کی سطح پر صوبائی پالیسیوں پر عملدرآمد کو یقینی
بنانا۔
-1 سکولوںو کالجوں، صعنی ادارہ جارت، جنرل پبلک کو ریسکیو ، فسٹ ایڈ، فائر
فائٹنگ کی تربیت سے آراستہ کرنا۔
-2 کسی بھی ایمرجنسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے اقدامات کرنا۔
-3 ضلع کی سطح پر رضا کاران آرگنائزکرنا۔
-4 رضا کاران کی بھرتی اور تربیت کا بندوبست کرنا۔
-5 ضلع میں مختلف ادارہ جات میں فائر فائٹنگ ، سیفٹی و سکیورٹی کے انتظامات
کو یقینی بنانے کے اقدامات کرنا۔
-6 جنگ کے وقت کیلئے پہلے سے سکیمیں تیار کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
شہری دفاع کے ذمہ زمانہ امن اور جنگ ہر دو صورتوں میں شہریوں کی حفاظت جیسا
عظیم کام ہے۔ گویا بم پھٹنے، بلڈنگ گرنے، سیلاب آئے، رروڈ ایکسیڈنٹ ہو،
آگ لگے، زلزلے وغیرہ کے دوران شہریوں کو ریسکیو ، فرسٹ ایڈفائرفائٹنگ، بم
ڈسپوزل، زخمی کو ہسپتال تک پہنچانے کا انتظام، شہریوں کا انخلاء جنگ کے ضمن
میں جملہ حفاظتی اور احتیاتی تدابیر از قسم خندقوں کی کھدائی ، شہریوں کو
بروقت خبردار کرنا، پناہ گاہوں کا اہتمام، تجدید روشنی کے انتظامات جیسے بے
شمار اہم اور یہی محکمہ انجام دیا جاتا ہے۔
وارڈن سروس اس کا ایک انتہائی اہم اور بے پناہ اہمیت کا حامل شعبہ ہے۔ جو
صرف اور صرف اللہ کی رضا کیلئے کام کرنے والے بے لوث رضاکاران پر مشتمل ہے۔
جو شہری دفاع کے زیراہتمام ہر شہر کے ہر محلے میں مصروف عمل ہے ۔ بلاشبہ یہ
رضا کاران ہماری قوم کا سرمایہ افتخار ہیں۔ آج اس موقع پر جب شہری دفاع
مارچ 2015ء منایا جا رہا ہے میں ان رضا کاران کی خدمت کو سلام پیش کرتے
ہوئے حکومت وقت سے توقع کرتا ہوں کہ شہری دفاع جیسے بنیادی اہمیت کے حامل
اس محکمہ کو جو روز اول سے یکسر نظر انداز کیا جا تا رہا ہے اور جس کے پاس
افرادی قوت (ہنرمند) کی بھی کوئی کمی نہیں۔ جدید تقاضوں کے پیش نظر جدید
خطوط پر استوار کیا جائے اور اسے جدید سہولتوں اور سامان سے آراستہ کیا
جائے تاکہ کسی بھی نہ ناگہانی صورتحال میں ہم دوسروں کے دست نگر نہ ہوں
بلکہ ایسے وقت میں اسی محکمہ کے نوجوان تمام امدادی سروسز سے پہلے ہر قسم
کے حالات کو کنٹرول کرنے کے قابل ہوسکیں اس کے ساتھ ساتھ عام شہریوں سے یہ
اپیل ہے کہ وہ شہری دفاع کی تربیت لازمی حاصل کرکے اپنے آپ کو اور اپنے
گلی محلے کے باسیوں کو محفوظ بناتے ہوئے ملک کے اندرونی محاذ کو مضبوط اور
محفوظ بنائیں۔ آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے وطن عزیز
پاکستان کی بے لوث خدمت کی توفیق فرمائے، آمین۔ |
|