یونانی سائنس داں، ارشمیدس نے کہا تھا ’’مجھے آلہ رکھنے
کی موزوں جگہ ڈھونڈ دو، میں زمین ہلا دوں گا‘‘ یہ قول دراصل انسان کا تجسس
اجاگر کرتا ہے، جس کی بنا پر وہ کائنات کی پہنائیاں چھانتا اور کرہ ارض کی
گہرائیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ اور اسی تجسس کی وجہ سے پچھلے تین ہزار برس میں
لاتعداد ایجادات بھی منظر عام پر آچکیں۔ گزشتہ چند برسوں سے سائنس دان اور
ماہرین نت نئی ایجادات کرنے میں مصروف ہیں۔ ان میں بیشتر اس لیے وجود میں
آئیں کہ انسانوں کا کام آسان بنا سکیں اور انھیں فائدہ پہنچائیں۔ ذیل میں
منتخب چند ایسی ایجادات کا حال پیشِ خدمت ہے ،جو کسی نہ کسی طور حضرت ِانسان
کے لیے مفید ثابت ہوئیں اور ہو رہی ہیں۔
|
1۔پانی کے بغیر کھدائی!
شیل ایک قسم کی چٹان ہے ،جو سطح زمین سے لے کر نیچے گہرائی تک پائی جاتی ہے۔
اس میں ملنے والے ایندھن بھی شیل (Shale) تیل یا گیس کہلاتے ہیں۔ پاکستان
میں بھی یہ شیل چٹانیں موجود ہیں اور امریکی ماہرین ارضیات کا دعویٰ ہے کہ
ان میں وسیع تعداد میں شیل گیس و تیل موجود ہے۔ان شیل چٹانوں کے ساتھ ایک
بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کھدائی کے دوران پانی بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
وجہ یہ ہے کہ کھدائی کرتے ہوئے سوراخ میں کئی سو گیلن تازہ پانی ڈالا جاتا
ہے تاکہ پتھریلی زمین نرم ہوجائے اور ان میں پھنسا تیل یا گیس باہر نکل
آئے۔ تازہ پانی کے بہت زیادہ استعمال کی وجہ سے ہی کھدائی کی اس قسم کو
جسے اصطلاحاً ’’فریکنگ‘‘ (Fracking) کہتے ہیں، ناپسند کیا جاتا ہے، لیکن
مسئلہ یہ ہے کہ صرف فریکنگ کے ذریعے ہی شیل تیل و گیس حاصل کرنا ممکن
ہے۔یہی مسئلہ مدِنظر رکھ کر ایک کینڈین کمپنی، گیس فریک( frac Gas) کے
سائنس دانوں نے فریکنگ کا ایسا طریق کار ایجاد کر لیا ہے، جس میں تازہ پانی
کے بجائے ایل پی جی (لیکوئڈ پٹرولیم گیس) استعمال ہوتی ہے۔ یوں اب شیل تیل
و گیس نکالنے کی خاطر تازہ پانی ضائع کرنے سے چھٹکارا مل گیا ہے۔یہ ایل پی
جی جیل کی شکل میں کنویں کے سوراخ میں داخل کی جاتی ہے۔ اس کا دباؤ یا
پریشر پتھر توڑ ڈالتا ہے۔ چونکہ یہ جیل پتھروں اور مٹی ہی میں جذب ہوجاتی
ہے۔ سو تہہ زمین پانی کے ذخائر کو بھی نقصان نہیں پہنچاتی۔ خاص بات یہ ہے
کہ پانی سے مبرا ایجاد کردہ فریکنگ سستی بھی ہے۔ لہٰذا حکومت پاکستان بھی
اس ایجاد سے کماحقہ فائدہ اٹھا کر وطن عزیزمیں موجود شیل چٹانوں سے گیس
نکالنے کے کنویں کھدوا سکتی ہے۔ |
|
2۔وزن سے بنتی بجلی!
یہ پانچ سال پہلے کی بات ہے، برطانوی سائنس دانوں، مارٹن ریڈیفورڈ اور جم
ریویز نے فیصلہ کیا کہ ترقی پذیر ممالک میں استعمال کے لیے ایک ایسی کم
قیمت لالٹین بنائی جائے ،جسے چلانے کے لیے مٹی کا تیل یا لکڑی نہ برتی
جائے۔یہ بڑا نیک خیال تھا کیونکہ دنیا بھر میں لاکھوں، لوگ روشنی کی خاطر
مٹی کا تیل یا لکڑی استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً پاکستان ہی کو لیجیے۔ ہمارے
دیہات و قصبات میں لاکھوں لوگ آج بھی لالٹین کے ذریعے ہی اپنے گھروں میں
روشنی کرتے ہیں۔ سو مارٹن اور جم اپنی تحقیق میں لگ گئے۔ آخر 2013ء میں
انھوں نے گریوٹی لائٹ( light Gravity) نامی لیمپ ایجاد کر لیا۔ اس کی قیمت
صرف 9 ڈالر ہے (اگرچہ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم تقریباً ایک ہزار روپے بن
جاتی ہے)ایک غریب آدمی کے لیے ایک ہزار روپے خاصے زیادہ ہیں، تاہم گریوٹی
لائٹ کی خاصیت یہ ہے کہ اسے چلانے میں کوئی خرچ نہیں آتا۔ یوں مٹی کے تیل
کی بچت محض دو چار ماہ میں خرچ نکال دیتی ہے۔ برطانوی سائنس دانوں کا ایجاد
کردہ گریوٹی لائٹ لیمپ کشش ثقل کی قوت سے کام کرتا ہے۔ اس کے ساتھ 9 کلو
وزنی ایک بیگ لٹکا ہوتا ہے۔ اس بیگ میں کوئی بھی وزنی شے مثلاً پتھر یا مٹی
ڈالی جاتی ہے۔جب یہ بیگ اوپر اٹھا کر نیچے گرایا جائے، تو گریوٹی لائٹ میں
موجود کئی لیور حرکت میں آتے ہیں۔ یہ پرزہ جات اٹھانے کی قوت کو بجلی میں
بدل ڈالتے ہیں اور یہ بجلی پھر لیمپ میں لگا بلب روشن کردیتی ہے۔
|
|
3۔ دھوئیں اور گیس کی شناخت!
ہر سال بہت سے مرد و زن گھر میں آگ لگنے یا ہیٹر سے گیس خارج ہونے کے باعث
چل بستے ہیں۔ انسانی جانیں ضائع ہونے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ گھروں میں
عموماً ایسا کوئی آلہ نصب نہیں ہوتا جو آگ لگنے یا گیس خارج ہونے پر
خبردار کرے۔ اب برطانوی کمپنی، نیسٹ(Nest)نے ’’نیسٹ پروٹیکٹ‘‘ نامی ایک
ایسا الارم ایجاد کیا ہے ،جو آگ لگنے سے دھواں اْٹھنے اور ہیٹر سے کاربن
مونو آکسائیڈ خارج ہونے پر بج اٹھتا ہے۔ مزید برآں یہ موبائل فون پر بھی
پیغام بھجواتا ہے کہ گھر یا دفتر میں ایمرجنسی جنم لے چکی ہے۔فی الوقت یہ
مفید ایجاد 130 ڈالر میں دستیاب ہے۔ یہ ایجاد خصوصاً اسکولوں،اسپتالوں اور
دفاتر میں بہت کام آئے گی، جہاں آگ لگنے کا خطرہ قوی ہوتا ہے۔
|
|
4۔ مصنوعی یادداشت!
امریکی یونیورسٹی، ایم آئی ٹی میں سائنس داں ’’پروجیکٹ انسیپشن‘‘(Project
Inception) نامی ایک منصوبے پر کام کر رہے تھے۔ ان کی منزل یہ تھی کہ وہ
ایک چوہے کی یادداشت مٹا ڈالیں۔ آخر انھیں کامیابی مل ہی گئی۔انھوں نے
چوہے کے دماغ میں یادداشت سے متعلق خلیوں کا ریکارڈ رکھا اور انھیں حسبِ
منشا کام کرنے یا روکنے کی قدرت حاصل کر لی۔ جب خلیوں کو روکا جاتا، تو
چوہا اپنی یادداشت سے محروم ہوجاتا۔ پروجیکٹ انسیپشن اِس لیے شروع کیا گیا
تاکہ سائنس انسانی یادداشت ختم کرنے کی قدرت حاصل کر لے۔ مدعا یہ ہے کہ جن
انسانوں کو صدمات پہنچتے یا وہ تکلیف دہ حادثات سے گزرتے ہیں، تو ان کی
یادداشت مٹا دی جائے۔ یوں وہ بآسانی اپنے دْکھ و کَرب سے نجات پالیں گے۔
|
|
5۔اٹلس روبوٹ!
کئی حادثات اور آفات کے مواقع پر پھنسے ہوئے لوگوں کی جان بچانا مسئلہ بن
جاتا ہے، کیونکہ یوں بچانے والوں کی زندگیاں بھی داؤ پر لگ جاتی ہیں۔ مثال
کے طور پر دو برس قبل لاہور کی ایجرٹن روڈ پر واقع ایل ڈی اے پلازہ میں آگ
لگ گئی۔ چونکہ انسانی جانیں بچانے کے طریقے محدود تھے، لہٰذا بہت سی قیمتی
زندگیاں ضائع ہوگئیں۔ امریکی کمپنی، بوسٹن ڈائنامکس نے اٹلس نامی ایک بڑا
مفید روبوٹ ایجاد کر لیا ہے۔ یہ روبوٹ ایسے مقامات میں پھنسے انسانوں کو
بچائے گا جہاں انسانوں کا پہنچنا محال ہوگا۔ مثلاً آگ میں جلتی عمارت،
پانی میں ڈوبے گھر، سمندر میں پھنسے مسافر وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اٹلس
روبوٹ کی تیاری کے لیے امریکی فوج نے بوسٹن ڈائنامکس کو خطیر رقم دی تھی۔
امریکی فوج اِسے میدان ِ جنگ میں استعمال کرنا چاہتی تھی، لیکن جب عراقی
اور افغان جنگوں نے امریکا کو معاشی طور پر بدحال کردیا، تو فیصلہ ہوا،
اٹلس روبوٹ انسانوں کو مارنے نہیں بچانے میں کام آئے۔ شُکر ہے، امریکیوں
کا قبلہ کچھ تو درست ہوا۔
|
|
6۔نا پید مینڈک کی پیدائش!
پلیٹی پس(Platypus) مینڈک کی ایک قسم آسٹریلوی ریاست، کوئنز لینڈ میں پائی
جاتی تھی۔ اس مینڈک کا سائنسی نام ’’رہیو باترخس سیلوس‘‘ ( Silus
Rheobatrachus) تھا۔ بدقسمتی سے 1985ء میں یہ مینڈک کرۂ ارض سے ناپید
(Extinct) ہوگیا۔پلیٹی پس مینڈکوں کی خاصیت یہ ہے کہ یہ منہ کے ذریعے بچے
دیتے ہیں۔ 2012ء میں آسٹریلوی نیوکاسل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے
پروفیسر مائک آرچر نے فیصلہ کیا کہ معدوم ہوجانے والے پلیٹی پس مینڈک کی
قسم کو دوبارہ معرض وجود میں لایا جائے۔ سو وہ اپنے کام میں جُت گیا۔دراصل
یونیورسٹی میں فریزر کے اندر کچھ ناپید مینڈک منجمد تھے۔ پروفیسر مائک نے
ان مینڈکوں سے خُلیے لیے اور انھیں رشتے دار مینڈک کے انڈوں میں امپلانٹ کر
دیا۔ پچھلے سال کے وسط میں چند انڈوں سے بچے پیدا ہوگئے۔حیرت و تعجب کی بات
ہے کہ ان بچوں میں ناپید مینڈک کا جینیاتی مواد بھی موجود تھا۔ یوں پروفیسر
مائک کا تجربہ کامیاب ہوا۔ اب وہ مزید تحقیق و تجربات کر رہا ہے تاکہ ایک
مکمل رہیو باترخس سیلوس تخلیق ہو سکے۔ بعدازاں وہ معدوم ہونے والے دیگر
حیوانات پر بھی کام کرے گا۔
|
|
7۔سپیس شِپ!
ایک زمانہ تھا، خاص تربیت کے بعد ہی خلا باز خلا میں جاسکتے تھے۔تب ان کی
زندگیاں محفوظ رکھنے کی خاطر بہت اہتمام کرنا پڑتا تھا۔ لیکن عنقریب ہر وہ
انسان خلا میں جا سکے گا جس کے پاس سرمایہ ہوگا۔ امریکی کمپنی، دی سپیس شِپ
ایک ایسا خلائی جہاز تیار کر رہی ہے، جس میں بیٹھے مسافر خلائی سیاحت سے
محظوظ ہوں گے۔ سپیس شِپ 2 نامی یہ خلائی جہاز 2014ء کے وسط تک تیار ہوجائے
گا۔ اپریل 2013ء میں اسے اُڑانے اور خلا تک لے جانے کا تجربہ خیرو خوبی سے
مکمل ہوا۔سپیس شِپ 2 میں سفر کرنے کا کرایہ ڈھائی لاکھ ڈالر ہے۔ گویا
پاکستانی کرنسی میں اس جہاز کا ٹکٹ تقریباً دو کروڑ ساٹھ لاکھ روپے میں پڑا،
تاہم خلائی سفر کا شوق رکھنے والے ارب پَتی یہ بھاری بھرکم رقم بخوشی دینے
کو تیار ہیں-
|
|