تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے۔
ہمارے ملک نے اگر معاشی ، معاشرتی اور سماجی میدانوں میں ایک طاقتور قوم کی
حیثیت سے اپنا آپ منوانا ہے تو پھرتعلیمی شعبہ کو ہر حالت میں ترقی دینا
ہوگی ،اور اس کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ایک ہی
ایمرجنسی کی ضرورت ہے اوروہ ہے تعلیمی ایمرجنسی۔ یقیناًپاکستان کا مستقبل
نوجوان نسل کے تعمیری کردار کا مرہون منت ہے۔ یہ نوجوان پاکستان کی ضرورت
ہیں۔ بلاشبہ اگر ہم اپنے نوجوانوں کو مناسب تعلیم وتربیت فراہم کرنے میں
کامیاب ہوگئے تو کل کا پاکستان آج کے پاکستان سے بالکل مختلف ہوگا۔ ہم پہلے
بھی اپنے ایک کالم میں یہ لکھ چکے ہیں کہ نوجوان نسل کی بہتری کیلئے
وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی انقلابی اقدامات کو نظرانداز نہیں کیا
جاسکتا۔اور خاص طورپرحکومت پنجاب ان کی قیادت میں فروغ تعلیم میں مصروف عمل
ہے۔ موجودہ دور علم کی حکمرانی کا دور ہے۔ ٹیکنالوجی کی حیر انیوں کا دور
ہے۔ سائنسی علوم کی ترقی نے آج تعلیم کی فلاسفی کو قلم سے کمپیوٹر میں
منتقل کر دیا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ جب تک ہم اپنی نئی نسل کے اذہان کو جدید
علوم اور عصری تقاضوں کے مطابق آراستہ نہیں کریں گے ترقی و خوشحالی کے خواب
محض خواب ہی رہیں گے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے علمی دنیا تک رسائی ملنے سے
پاکستان قوموں کی برادری میں ایک قابل رشک اور با عزت مقام حاصل کرنے میں
کامیاب ہو سکتا ہے۔پنجاب کی موجودہ حکومت نے نوجوان طلباءکو ملکی خوشحالی
اور ترقی میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے قابل بنانے کے لئے اہم اقدامات
اٹھائے ہیں۔
حکومتی اقدامات ، پالیسیوں ،احکامات کے ثمرات اگر نیچے تک نہ پہنچ پائے تو
پھراس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ صوبہ کے دورافتتادہ
اضلاع جو ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں ان کو زیادہ فوکس کیا جائے۔
انہی اضلاع میں ایک ضلع ڈیرہ غازیخان بھی ہے۔ جہاں کے سکولوں کی زبوں حالی
کا تذکرہ کرتے ہیں ہم صرف گورنمنٹ کے گرلزہائی سکولزفوکس کرتے ہیں۔ ڈیرہ
غازیخان کے گورنمنٹ گرلز ہائی سکولوں میں سہولیات کی صورت حال بہت تشویشناک
ہے۔ ان سکولوں میں اساتذہ کی کمی ،عمارتوں کی بد حالی، نامناسب تعلیمی
ماحول اور طالبعلموں کے لئے نصابی اوربنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی ہے
۔ڈیرہ غازیخان میں ٹوٹل 43 گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ہیں۔ اور 33 میں سہولیات
کی کمی ہے۔ اس طرح 75 فیصد کے قریب سکول مختلف مسائل کا شکار ہیں۔ ٹوٹل 43
سکولوں میں 13 سکولوں میں کمپیوٹر لیب نہیں ہے۔ اور 10 سکولوں میں
لائبریریاں نہیں ہیں۔ اسی طرح 13 سکولوں میں پلے گراونڈ نہیں جبکہ ان 43
سکولوں میں سے دو سکول ایسے بھی جہاں بجلی اور پینے کے پانی کی سہولت بھی
نہیں ہے۔ ڈیرہ غازیخان کے 43 ہائی گرلز سکولوں میں مجموعی طورپر 8559
طالبات کے لیے فرنیچرکی کمی ہے۔ ان 43 سکولوں میں داخل طالبات کی 60 فیصد
تعداد کے لیے فرنیچر نہیں ہے -
ماضی میں ڈیرہ غازیخان کے ساتھ سب سے زیادہ عدم توجہی برتی گئی اور شعبہ
تعلیم کو تو باالکل نظرانداز کیا گیا یہاں کے سکولوں کے بنیادی ڈھانچے اس
قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں کہ یہاں تعلیم کا حصول خاصا مشکل ہو گیا
ہے۔ یہ بنیادی ڈھانچے ہیں جو فراہمی تعلیم میں اساس کی حیثیت رکھتے ہیں
اسکول میں بجلی، پانی اور چار دیواری جہاں لازمی ہے وہاں بیت الخلا بھی
انتہاِئی ضروری ہے۔اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی تو سب سے ضروری چیز
ہے۔اب یہ مسئلہ انفرادی اور اجتماعی کے ساتھ ساتھ زیادہ سرکاری سطح پر حل
طلب بھی ہے اس مسئلے کے حل کے لئے ایک بڑا فنڈ اور ایک سنجیدہ کاوش شرط اول
ہے اورحکومت کو اس حقیقت کے ادراک کی ضرورت ہے کہ تعلیم کا حصول اسی صورت
ممکن ہے جب بچے باعزت طریقے سے کمروں کے اندر بیٹھ کر تعلیم حاصل کر سکیں
جہاں انہیں گرمیوں میں بجلی کے پنکھے اور ٹھنڈا پانی میسر ہو اور جہاں بیت
الخلاءجیسی بنیادی سہولت موجود ہو ان سہولیات کے بغیر تعلیم دینا درکنار
تعلیم حاصل کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اور جدید دور کے تقاضوں کو پورا کئے
بغیر ان سکولوں میں معیار تعلیم کا بہترہونا ممکن نہیں ہے۔ ڈیرہ غازیخان کے
گورنمنٹ گرلز ہائی سکولوں کی حالت زار کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ علاقے
کے منتخب نمائندگان آواز بلند کریں ۔ اور خاص طور پر ڈیرہ غازیخان سے تعلق
رکھنے والی خواتین ممبران جن میں دو ، ایم پی ایز اور ایک ایم این اے شامل
ہیں ۔ انہیں چاہیے کہ وہ ان سکولوں کے وزٹ بھی ضرور کریں۔
اور ارباب اختیار کے سامنے ان مسائل کو بڑی جرات مندی کے ساتھ پیش کریں۔ |