تعلیم کی اہمیت کو ہم سب جانتے
ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا راز تعلیمی نظام
میں پوشیدہ ہے ۔ تعلیمی نظام جس قدر عمدہ اور پختہ ہوگا ،قوم اس قدرمضبوط
اور پختہ ہوگی۔ تعلیم کے بغیر نہ تو کسی قوم نے تر قی کی اور نہ ہی وہ مہذب
کہلائی۔ جس قوم کو بھی ترقی کے بلند مدارج پر دیکھا گیا اور اْس کی وجوہات
پر غور کیا گیا تو اْس ترقی کا سب تعلیم ہی نظر آیا۔ اسی طرح اگر نظام
تعلیم کمزور ہو تو اْس قوم کے مقد ر میں صرف تاریک راہوں کا ہی سفر لکھا ہے
۔
ویسے تو تعلیمی نظام سارے پاکستان کا ہی تباہ ہو چکا ہے لیکن بلوچستان اور
اندرون سندھ میں تعلیمی نظام اس قدر تباہ حال ہے کہ کو ئی جہاں دیدہ انسان
خون کے آنسو روئے۔ بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کی وجوہات پر میں ایک پورا
کالم لکھ چکا ہو ں ۔ لیکن موجودہ حکومت اور خصوصی طور پر وزیرء اعلیٰ صاحب
کی تعلیم کے حوالے سے دلچسپی اور کاوشوں کو دیکھ کر اُمید بن جا تی ہے کہ
شاید بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک مڈل کلاس فیملی سے آنے والا تعلیم
یافتہ وزیراعلیٰ بلوچستان سے تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ کر سکے ۔
بلوچستان میں تعلیمی نظام اس قدر فرسودہ ہو چکا ہے کہ اس تعلیمی نظام سے
اچھے ڈاکٹرز،اور انجنئیرز پیدا کر نا تو درکنار ہم اس نظام تعلیم سے اچھے
کلرک بھی پید ا نہیں کر سکتے ۔ہمارے آس پاس لاتعداد گریجویٹس موجود ہیں ،
جن کے پاس اعلیٰ تعلیم کی ڈگریز موجود ہیں ،لیکن ان کی اکثریت مفلوج اور
ناکارہ ہیں ۔ یہ وہ کام نہیں کر سکتے جن کی اُن کے پاس ڈگری موجود ہیں ۔بلکہ
وہ تو جانتے بھی نہیں کہ یہ ڈگری کیوں کر کسی کو ملتی ہیں ۔ یہ ڈگری دراصل
تعلیمی اخراجات کی سند ہوتی ہے کہ مذکورہ شخص نے اپنی تعلیم پر کتنا پیسہ
خرچ کیا ہے۔ ایسے ڈگری ہولڈرز جب معاشرے میں اپنا صحیح مقام اور نوکری نہیں
پاتے تو یہ دوسرے نئے آنیوالے طلباء کے لیے باعث مایوسی بن جاتے ہیں اور
اگر یہی لوگ سفارش اور رشوت سے نوکری حاصل کر لیں تو بھی دوسروں کا حق چھین
کر دوسروں کو مایوس کرتے ہیں ۔
ہمارے تعلیمی نظام کو کھوکھلا کر نے میں نقل نے بنیادی کردار ادا کیا ہے
۔ہمارے طلباء کو یقین ہوتا ہے کہ امتحانات شفاف نہیں ہونگی اور نقل ضرور
ہوگی۔لہذاء وہ سالہا سال فضول مشاغل میں گزارتے ہیں اور آخر میں نقل کے
سہارے پاس ہوجاتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے سکول کے بعد گھر میں بیٹھ کر پڑھنے
اور self Study کا رحجان آہستہ آہستہ ختم ہو تا چلاجاتاجارہا ہے ۔ بلکہ کو
چنگ کلاسزلنیے والے طلباء اپنے کوچنگ سنیٹرز منتخب کرنے سے پہلے یہ ضرور
دیکھتے ہیں کہ سینٹر کے اساتذہ کی رسائی امتحانی بورڈ تک کتنی ہے ۔ سکول کے
اساتذہ کو امتحانی سینٹرز کی ڈیوٹی کو ایک لاٹری سمجھتے ہیں ۔ جس دوران وہ
بے شمار پیسے کماسکتے ہیں ۔ لیکن نقل کا سب سے بڑا تقصان اُن ذھین اور
محنتی بچوں کو ہوتا ہے جو کہ سالہاسال محنت سے پڑھتے ہیں اور امتحان میں
اُن کے نمبرز دوسرے نقل کر نے والوں سے کم آجاتے ہیں ۔اس طرح سے اُن میں
محنت کرنے کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے اور وہ بھی نقل کے سہارے امتحان پاس کرنے
لگ جاتے ہیں۔
تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے نقل کا خاتمہ ازحدضروری ہے ۔اور نقل کے خاتمہ
کے لیے موجودہ طرز امتحانات کو بدلنا ہوگا۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا
ہوگا کہ امتحانات میں نقل نہیں ہوگی۔ اس لیے صرف وہی طلباء امتحان پاس
کرسکتے ہیں جو کہ محنت کر نے والے ہیں ۔ نقل کے خاتمے کے لیے موجودہ حکومت
امتحانی سنیٹرز میں کیمرے لگارہی ہیں جو کہ خوش آئند اقدام ہے لیکن اسطرح
سے نقل صرف 30%ختم ہو سکتی ہے نقل کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے پوری
منصوبہ بندی اور مختلف تجاویز پر غور کرنے کی ضرورت ہے جن میں سے ایک تجویز
درج ذیل ہوسکتی ہے۔
نقل کے خاتمے کے لیے سب سے پہلے امتحانی سینٹر کے انتظامیہ کو تبدیل کیا
جائے مثلاً سکول کے اساتذہ کے بجائے یہ کام ہم بے روزگار گریجویٹس سے ڈیلی
ویجز کی بنیاد پر لے سکتے ہیں ۔ ہم اُن کو بطور سپرٹنیڈنٹ اور invigilator
صرف ایک امتحان کے لیے کنٹریکٹ یا ڈیلی ویجزکی بنیاد پر hire کر لیں ۔ ایک
امتحانی سینٹر میں ہر تیس(30) طلباء کی نگرانی کے لیے ایک invigilator مقرر
کیا جائے اور ہر پانچ(5) invigilator کی ٹیم کو لیڈ کرنے کے لیے ایک
سپرنٹنڈنٹ کا انتخاب کیا جائے ۔ صرف ایک دن کی ٹریننگ ان کے لئے کافی ہوگی
کیونکہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہیں ۔ان سے حلف لیا جائے کہ وہ امتحانی
حال میں 1%نقل بھی نہیں کرنے دینگے اور آئندہ کے امتحانات کے لئے کنٹریکٹ
پانے کے لیے اُن کو نقل کے روک تھام کو حوالے سے اچھی کارکردگی دکھانی ہوگی
۔ اُن کی کار گردگی اُن کے ٹیم کا ہیڈ یعنی سپرٹنڈنٹ جانچے گا اور اُن کی
کارکردگی کی رپورٹ صوبائی تعلیم بورڈ کے انتظامیہ کو پیش کرئے گا ۔اس طرح
سپرٹنڈنٹس کی کارکردگی کا جائزہ صوبائی انتظامیہ خود کرے جو بھی
invigilator یا سپر ٹنڈنٹ اچھی کارکردگی دکھائے اُاس کو آئندہ کے امتحانات
کے لیے بھی hireکیا جائے اور جو invigilator اچھی کارکردگی نہ دکھاسکیں اُن
کی جگہ آئندہ دوسرے بے زورگار گریجویٹس کو یہ یہ موقع دیا جائے۔
جناب وزیراعلیٰ !بے روزگار گریجویٹس یہ کام سکول اساتذہ سے بہتر اس لیے کر
سکتے ہیں کہ ان کو اپنی آئندہ کے لیے کنٹریکٹ بچانے کی فکر ہوگی۔ جبکہ سکول
کے اساتذہ تو امتحانی ڈیوٹیز کو ایک لاٹری سمجھتے ہیں کہ اس سے وہ کافی
پیسہ کما سکتے ہیں ۔اس طریقے سے نہ صرف نقل کو لگام دی جاسکے گی بلکہ بے
روزگار گریجویٹس کو بھی عملی طور پر کام کرنے کا موقع بھی ملے گا اور اُن
کو عارضی روزگار بھی مل سکے گا اور اگر اس طریقہ امتحان کو بطور نمونہ
چاہیے توآپ مجھے صرف ایک امتحانی سینٹر حوالے کر دیں ۔ جہاں میں بے روزگار
گریجویٹس کی ایک ٹیم سے امتحانات لینے کا تجربہ کر کے دکھاو ۔ وزیراعلیٰ
صاحب میں آپ کو گارنٹی دیتاہوں کہ میں اس تجربے کے دوارن ہی 95%نقل ختم
کرکے دکھاوگا۔ بس آپ مجھے ایک موقع دیں ۔بنا کسی اُجرت کے اپنی قوم کی
بہتری کے لیے۔ بس ایک موقع! |