تم اتنی اداس اور خاموش کیوں رہتی ہو کیا زندگی میں تمیں
بہت سے غم ہیں کپٹن زبیر کو حیرانی سے دیکھتے ہوئے ماہین نے جواب دیا کچھ
رشتوں کو کھونے سے بہت ڈر لگتا ہے تم اس طرح مت ڈرا کرو ماہین کا ہاتھ
پکڑتے ہوئے زبیر نے جواب دیا تمہارے جانے کے بعد کتنا کچھ بدل جائے گا
تمہیں اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہے ۔یہاں میری طرف دیکھو ماہین میں جلدی
واپس آجاؤں گا کونسا پہلی دفعہ جا رہا ہوں .................... تم تو
بالکل ہی میری ہمت کم کر رہی ہو زارو قطار آنسوں ماہین سسکیاں بھرتے ہوئے
تم مت جاؤ نہ مجھے بہت یاد آؤ گے ماہین تم تو میری چھوٹی سی گڑیا ہو یاد تو
تم بھی آتی ہو کیا کروں جانا تو پڑے گا نہ ....
سڑھیوں میں بیٹھتے ہوئے یہاں کچھ دیر میرے پاس بیٹھ جاؤ ماہین اور اب مجھے
یہ مت کہنا کہ مت جاؤ تم مجھے ہر لمحہ یاد آتی ہو مسکراتے ہوئے ماہین نے
جواب دیا جھوٹے تمہیں میں یاد نہیں آتی ہوں اچھا جی پھر کون یاد آئے گا
مجھے ماہین پہاڑوں میں خوف کہ خطرناک لمحوں میں بھی مجھے سب سے پہلے صرف
صرف تمہارا خیال آتا ہے ۔ اچھا اب میں جاؤں-
ہاں کافی ٹائم ہو گیا ہے مجھے سوات پہنچنے میں بھی پورا دن لگ جائے گا اور
تم رونا بند کرو خداحافظ کہہ وہ آخری لمحات ماہین کے لئے قیامت سے کم نہ
تھے زبیر نے واپس مڑ کر نہ دیکھا اور اپنے آنسوں صاف کرتے ہوئے اپنی منزل
کی جانب چل پڑا-
دن گزرتے گئے آخر زبیر کو سوات گئے ہوئے ایک مہینہ گزر گیا ماہین لاہور میں
پریشان نہ کوئی فون نہ اطلاع اک پریشانی کا عالم تھا ۔اچانک سے فون کی
گھنٹی بجتی ہے ماہین ہیلو.......
میری گڑیا کیسی ہے؟
ماہین نے غصے سے کہا مر گئی گڑیا تم اتنے عرصے سے کہاں تھے؟
ارے ایسے مت کہو اس میں تو میری جان ہے
اچھا بتاؤ کیسی ہو ؟
کسی کام سے گیا ہوا تھا آج ہی واپس آیا ہوں .....سب سے پہلے تمہیں فون کیا
اور گھر میں سب کیسے ہیں؟ سب ٹھیک ہیں تمہیں چچی بہت یاد کرتی ہیں بات
کرواؤں ہاں امی سے بات کرو دو اچھا میں بلاتی ہوں تم ہولڈ کرو.............................
اسلام علیکم امی وعلیکم اسلام کیسا ہے میرا بیٹا ؟ امی ٹھیک ہوں آپ سب لوگ
بہت یاد آتے ہو
ہم سب بھی تمہیں بہت یاد کرتے ہیں
امی ماہین کا بہت خیال رکھا کریں آپ تو جانتی ہیں کہ وہ میری وجہ سے بہت
پریشان رہتی ہے
نہیں بیٹا تم فکر مند مت ہو ہم سب ہیں نہ یہاں بس اس دفع تم آؤ گے نے جلد
شادی کر دیں گی تم دونوں کی
لو ماہین سے بات کرو تم
بس میں تو آرہا ہوں ہا ہا ہا تم آؤ تو میں بہت جھگڑا کروں گی سب کچھ کر
لینا بس اداس مت ہوا کرو۔
زبیر اور ماہین کنزز تھے اور ایک ہی گھر میں رہتے تھے ماہین کہ ماں باپ کہ
مرنے کہ بعد زبیر کہ والدین نے ماہین کو اپنی بیٹیوں کی طرح پالا تھا ۔
ماہین فون رکھتے ہوئے تم نہ جلدی آجاؤ بس ....
آجاؤ ں گا نہ گڑیا اداس مت ہوا کرو تم
فون بند ہونے کے بعد بھی ماہین اسی سوچ میں اداس بیٹھی رہی کہ زبیر کب آئے
گا ۔وہ خود کو بہت اکیلا محسوس کرتی تھی اس کہ بغیر شائید ماہین سے زیادہ
محبت کوئی نہیں کر سکتا تھا وہ اس کی زندگی میں لال رنگ کی طرح خوبصورت تھا
۔ وہاں زبیر کو اچانک سے جانا پڑ گیا نہ جانے وہ کونسے لمحے تھے جب وہ
ماہین کے لئے کچھ بھی نہ دے سکا اور جانے سے پہلے اپنی ایک گھڑی ایک ساتھی
کے ہاتھ میں سونپ دی کہ اگر میں واپس آیا تو یہ ماہین تک پہنچا دینا-
ماہین کو بے چینی سی محسوس ہوئی رات کے تین بج رہے تھے فون کیا تو زبیر کا
نمبر بند تھا ماہین کی تو جان نکل گئی کہ بغیر بتائے دوبارہ سے کہاں چلا
گیا
اتنے میں گھر کے نمبر پر فون کی بل بجی ماہین نے گھبراہٹ سے فون اٹھایا تو
دوسری طرف ایک آفیسر تھا جس نے زبیر کی شہادت کی خبر دی
فون زمین پر گرگیا اور بے ساختہ روتے ہوئے ماہین نے چچی کو آواز دی -
وقت گزرنے کے ساتھ زخم تو کم ہوگئے لیکن ماہین کی محبت میں کمی نہ آئی 5سال
گزرنے کے بعد بھی وہ زبیر کی یادوں کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے تم آج بھی
میری سانسوں میں سمائے ہوئے اور صرف میرے ہو ہر دن اس کہ نام سے شروع کرتی
ہے اور ختم کر دیتی ہے۔ |