رات چار بج کر تیس منٹ پرجعفرآباد شہر کے لئے روانہ ہونے
والی بس میں سوار ہونے کی غرض سے رشید جلدی جلدی تیاری کرکے نکلا۔مہینے میں
ایک بار اپنے آبائی وطن جانے کی خوشی میں وہ کچھ جلدی ہی اٹھ بیٹھا
تھا۔گذشتہ چار برسوں سے ہر ماہ کے اخیر ہفتہ میں اس کا یہ معمول بن چکا
تھا۔چونکہ شب کا اخیر پہر تھا اس لئے پورا شہر نیند میں تھا،سڑکیں سنسان
تھیں۔دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آرہی تھیں۔اتنی رات گئے کوئی آٹو
رکشہ بھی نظر نہیں آرہا تھااور چونکہ اس کے پاس کافی وقت تھااسلئے رشید
دھرے دھیرے بس اڈے کی طرف قدم بڑھانے لگا۔دو تین گلیاں عبور کرنے کے بعد
ایک سنسان سی گلی میں ایک دس بارہ سال کا لڑکا پھٹے پرانے کپڑے پہنے کونے
میں بیٹھا تھا اُس کے سامنے ہی سڑک پر مٹی کے تیل کے بیشمار ڈبوں کی لمبی
قطار تھی۔رشیدٹھٹھک کر رک گیااپنی گھڑی پر نظر ڈالی ابھی کافی وقت تھا اسکے
پاس،اس نے ایک ہی سانس میں اس بچے سے کئی سارے سوالات کرڈالے۔
بیٹا!اتنی رات کو یہاں کیا کررہے ہو؟ گھر کہاں ہے تمہارا؟ تمہارا نام کیا
ہے؟
بچہ پہلے تو رشید کو دیکھ کر سہم سا گیا،پھر ہمت کرکے آخر اس نے کہنا شروع
کیا۔’’مٹی کے تیل کیلئے نمبر لگاہے،کوئی ہمارا ڈبہ نہ چرا لے اس لئے یہاں
بیٹھا ہوں،وہ سات نمبر پر ٹوٹا ہوا ڈبہ ہمارا ہے۔
یہیں پیچھے گلی میں رہتے ہیں ہم۔میرا نام سلطان ہے۔
بیٹا،یہاں تو بیسیوں ڈبے ہیں،باقی تو کوئی نظر نہیں آرہا۔ تم بھی گھر جاکر
سو جاؤ۔
صبح اسکول بھی جانا ہوگا نا؟ ۔۔۔۔۔اسکول جاتے ہونا؟
اسکول میں نام تو ہے، ہفتے میں دو تین دن چلا جاتا ہوں۔سلطان نے معصومیت سے
کہا۔
پچھلے ماہ ہمارا ڈبہ کسی نے چرا لیا تھا،ویسے اتنا قیمتی نہیں تھا وہ بھی
ٹوٹا ہوا ہی تھالیکن۔۔۔لیکن ڈبہ چوری ہونے کے بعد میری ماں نے تین دنوں تک
ٹھیک سے کھانا نہیں کھایا تھا،حالانکہ دوسرے ڈبے کا انتظام ہو بھی گیا
تھا۔میں نہیں چاہتا میری ماں پھر سے کھانا چھوڑ دے،اسلئے رات سے یہاں بیٹھا
ہوں۔مہینے میں ایک رات ماں کے لئے۔۔۔۔۔
رشید نے مزیدکچھ پوچھنا مناسب نہیں سمجھا،گھڑی پر نظر ڈالی،اسکے سر پر شفقت
سے ہاتھ پھیرا،جیتے رہو کہتا ہوا وہاں سے روانہ ہو گیا۔
بس میں سوار ہونے سے اپنے شہر پہنچنے تک اس کے ذہن میں صرف یہی باتیں گردش
کرتی رہیں کہ وہ بچہ اپنی ماں کے تین دنوں تک ٹھیک سے کھانا نہ کھانے پر
اتنا فکر مند تھا اور اپنی ماں کے تئیں اس کے دل میں جو جذبہ تھا وہ واقعی
قابل ستائش تھا، ضرور وہ بچہ آگے چل کر کوئی سلطان ہی بن جائے۔اور ساتھ ہی
وہ اپنے گذشتہ چار سالوں کے بارے میں سوچنے لگا۔ہر ماہ میں بھی ایک بار
اپنے گھر جاتا ہوں۔جہاں میرے بابا اور ماں ہیں۔ان کے موڈ کے بارے میں جاننے
کی مجھے فرصت ہی نہیں۔گھر پہنچ کر صرف ان کے ہاتھوں میں چند روپے رکھ دینے
سے کیا میرا فرض ادا ہو جاتا ہے۔یہ سوچ کر اس کی آنکھ بھر آئی۔ تبھی بس کے
موصل نے آواز لگائی،’’چلو جعفرآباد،آخری اسٹاپ‘‘۔اور رشید تیزی سے اتر کر
اپنے گھر کی طرف بڑھنے لگا۔ایسا لگ رہا تھا وہ جاتے ہی اپنی ماں کے قدموں
پہ گر پڑے گا۔کیونکہ اس کے اندر سلطان نہیں تو کیا ایک انسان زندہ ہوچکا
تھا۔ |