کراچی میں سترہ مئی دوہزار آٹھ
کی سہہ پہر انسانی سوز واقعہ رونما ہوا۔۔سرے بازار قانون کی دھجیاں بکھیر
دی گئیں۔۔رنچھوڑ لین کی ٹمبر مارکیٹ میں مشتعل ہجوم نے تین افراد کو
بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناکر نذرآتش کردیا۔۔انسانوں کے حیوانیت سے بھی بدتر
عمل پرپوری قوم پر لرزہ طاری ہوگیا تھا۔۔اس سانحہ کے تیسرے روز ناظم آباد
میں ایساہی واقعہ رونما ہوا مشتعل ہجوم نے چوری کے شبے میں دوافراد کو
نذرآتش کیا۔۔پھر یہ ریت چل نکلی چوری یا ڈکیٹی کے شبے میں جو مشتعل ہجوم کے
ہتھے چڑھتا تو ادھ مرا ہوجاتا۔۔قانون نافد کرنے والے ادارے انہیں گرفتار
کرنے اور عدالتیں انہیں سزائیں دینے میں ناکام نظرآتی۔۔پاکستان کا ہرشہر
دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ۔۔مساجد اور امام بارگاہیں خودکش بمباروں کی زرد
میں ہیں ۔۔سینکڑوں مسلمان ان حملوں میں جام شہادت نوش کرتے ہیں ۔۔۔ان
لواحقین پرامن طور پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں ۔۔ سانحہ یوحنا آباد قابل
مذمت ہے ۔۔چند لاکھ نفوس پر مشتمل اقلیتی برادری میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی
کہ محض شک کی بنیاد پر دوافراد کو نذر آتش کردے۔۔۔یہ پاکستان میں شیعہ اور
سنی کمیونٹی کے درمیان خون ریز تصادم کرانے کی منظم سازش ہے۔۔پاکستان میں
اگر ہردس قدم پر مسجد ہے تو پندرویں قدم پر امام بارگاہ قائم ہے۔۔۔عیسائی
انتہاء پسندوں کا دو معصوم افراد کو نذرآتش کرنے مقصد مسلم کمیونٹی کو
احتجاج کا نیارخ دکھا نا تھا۔۔خداناخواستہ مسقتبل میں اگردہشت گرد امام
بارگاہ کو نشانہ بنائے گے تو وہاں کسی داڑھی والے کو مشکوک سمجھ کرجلادیا
جائے گا۔۔اگر مسجد کو نشانہ بنایا گیا تو کلین شیو والے کو مشکوک سمجھا
جائے گا۔۔۔اگرپولیس معصوم افراد کو نذرآتش کرنے ملزمان کو گرفتار کرکے
تفتیش کرے تو تمام ترحقائق سامنے آجائیں گے۔۔۔ |