زریعہ

جب خدا نے دنیا بنائی تھی تو اُس وقت سب کے کھانے کے لئے مَن وسلویٰ بھیجا کرتے تھے۔ سب اس کھانے کو کھایا کرتے تھے۔لیکن شیطان نے بھی اللہ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کے بندوں کو بہکائے گاپھراس نے انسانوں کو بہکانا شروع کردیااور انسان شیطان کے بہکاوے میں آکے انہوں نے اس میں سے ہیرہ پھیری شروع کردی تھی جس کی وجہ سے اللہ نے مَن و سلویٰ بھیجنا بند کردیا اور کہا کے لوگ اب خود محنت کریں اور خود کھائیں ۔پھرجو جتنی محنت کرتا اُسے اتنا ہی اسکی محنت کا پھل ملتاتھا۔ وہ اس طرح سے ہی چلتا رہا اور آج ہمیں جو جتنی محنت کرتاہے اللہ اُسے اُتنا اُس کی محنت کا پھل دیتا ہے۔

پر کچھ لوگ اس بات پہ ا عتراض کرتے ہیں کہ ہم خرچ تو کرتے ہیں لیکن ہماری کمائی میں برکت نہیں ہوتی ہے۔لیکن ہم نے یہ سنا صرف کہ اپنے مال میں سے جتنا خرچ کروگے اُتنی ہی برکت ہوگی اس میں۔پر ہم نے مال تو خرچ کیا لیکن برکت نہیں ہوئی۔تو وجہ اِس کی یہ ہے کہ ہم نے یہ نہیں سوچا کہ اُس مال کو کیسے اور کہا ں پہ خرچ کرینگے تو برکت ہوگی۔ اِس دنیا میں اللہ نے ہم سب کو ایک دوسرے کے رزق کا زریعہ بنا یا ہے۔اور ہمیں حکم دیا ہے اپنے مال کو حاصل کرنے کے بعد پہلے اس مال کا صدقہ نکالیں اورپہلے جو اس کا مستحق ہے اس کو دیں۔ہم اگر اپنے اُوپرہی خرچ کرتے رہیں تو برکت نہیں ہوگی بلکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے برکت ہوتی ہے۔ اس میں بھی درجہ بنایا ہے کہ پہلے رشتہ داروں کا پھرپڑوسیوں کا حق ہوتا ہے اس مال پہ۔اور جب ہم اپنے مال کا صدقہ نکال دینگے، اپنے مال میں سے بھوکوں کو کھاناکھلائینگے ، یتیموں اور مسکینوں کی مدد کرینگے ، جب ہم ان کا حق ہم ان کو دینگے تو اللہ ہمارے بھی رزق میں برکت دینگے۔اور جو ہمارا ڈر ہوتا ہے چوری ،ڈکیتی ، چھنتائی کا وہ سب بھی کبھی نہیں ہوگا۔ کیوں کے جب تک ہم مستحق کو ان کا حق نہیں دینگے تب تک ہمارے مال میں سے چوی کے زریعہ، ڈیکتی کے زریعے ، ناجائز طریقوں سے پیسے نکلتے جائینگے۔

اور ہمارے معاشر میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے لئے توبہت اچھا خریدتے جو کچھ بھی خریدتے ہیں لیکن کسی مستحق کے لئے جب کچھ خریدتے ہیں تو اُسے دینے کے لئے یہ سوچتے ہیں کہ وہ تو ایسا ہی ہے اس کی حیثیت کیا ہے اس کے مطابق یعنی کوئی معمولی سے چیز اس کے لئے خرید لیتے ہیں۔لیکن جب تک اِن چھوٹی چھوٹی باتوں کو،اُس کے بندے کو نظر انداز کرتے رہینگے تب تک خدا بھی ہمیں نظرانداز کرتے رہینگے ۔ہم آج بھی اتنی مہنگائی کے دور میں بھی وہی ایک روپے یا دو روپے کسی غریب کو دینے کے لئے نکالتے ہیں،لیکن ایسا ہر گزنہیں ہوناچاہئے آپ جب کسی غریب کی مددکریں تو اسے فائدہ بھی پہنچنابھی چاہئے۔

اور بلکہ ہمیں تو اپنے خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہمیں اس قابل سمجھا کہ ہم اُس کے بند وں کو زرق پہنچانے کا زریعہ بنے۔ورنہ اس کے فرشتے کافی ہیں اس کی عبادت اس کے کام کرنے کو لیکن ہمیں بھی ان کاموں کا سر انجام دینے کے قابل سمجھا۔اور جتنا ہم اُس رازق ، اُس خالق، اُس مالک کا شکر ادا کریں کم ہے، جس نے ہمیں یہ توفیق بخشا۔
’’پڑھنے کا شکریہ‘‘
Kunwar Daniyal Moin
About the Author: Kunwar Daniyal Moin Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.