شہلا اور یاسر ایک دوسرے کو
دیوانہ وار چاہتے تھے ،ان کی دیوانہ وار اور گہری چاہت کا ایک حقیقی پہلو
یہ بھی تھا کہ دونوں نہ صرف ایک دوسرے کے کزن تھے بلکہ بچپن میں ایک دوجے
سے منسوب بھی ہو چکے تھے ،یہی وجہ تھی کہ دونوں کو اپنی پختہ چاہت اور محبت
جیسے پاکیزہ ناطے پر مکمل اعتبار اور اعتماد تھا،ان کو اس بات کا بھی یقین
تھا کہ وہ زندگی کے کٹھن اور دشوار گزار راستوں میں کبھی جدا نہ ہو سکیں گے
، زمانے کی کوئی طاقت ان کے درمیان ہجر اور فراق کی فصیل کھڑی نہ کر سکے گی
،وہ نہ صرف زبانی محبت کا دم بھرتے تھے بلکہ دل کی عمیق گیرائیوں سے یہ بات
تسلیم بھی کرتے تھے کہ وہ ایک دوسرے کے بغیر نا مکمل ہیں اس لئے اک لمحے کی
جدائی بھی ان کے لئے قیامت سے کم نہ تھی ،بانکپن سے شعور تک کی حیات میں
ہمیشہ سنگ سنگ رہ کر وہ کچھ اس قدر قریب آ چکے تھے کہ جدائی کا تصور بھی ان
کو موت سے زیادہ بھیانک نظر آتا تھا ،....... وہ ہمیشہ پیار اور محبت کی
باتیں کرتے ،ہمیشہ ساتھ رہتے ،جیون بھر ساتھ رہنے کے عہد کرتے ،ایسی ہی
ہزار ہا باتوں کو موضوع گفتگو بنا رکھتے جو پیار اور محبت کا حصہ ہوتی ہیں
،جو حسین خوابوں کا جذبہ ہوا کرتی ہیں اور خوبصورت زندگی کا سرمایہ بھی
................... قدرت جو کہ ہر قدم پر ایک نیا روپ اختیار کرتی ہے ،اک
نیا رنگ لے کر جلوہ گر ہوتی ہے ،قدرت جو کہ تقدیر کا دوسرا نام ہے انسان کی
زندگی کا فیصلہ کرتے وقت جانے کیوں بے درد سی ہو جاتی ہے ،کہ انسان بے بس
اور مجبور ہو کر رہ جاتا ہے اس کے آگے انسان کا کسی قسم کا زور نہیں چلتا ،شاید
قدرت کا نظام ہی عجیب ہے کہ انسان کی تمام سوچیں مفلوج ہو کر رہ جاتی ہیں ،ویسے
بھی اس امر سے کسی کو اختلاف نہیں کہ تقدیر کے آگے کسی کا زور نہیں چلتا
جانے کیوں تقدیر ہنستے بستے گھر کو اجاڑ کر کیوں رکھ دیتی ہے
..............ان دنوں شہلا اور یاسر کی شادی کی تاریخ طے پا چکی تھی اور
دونوں جانب سے شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں ،قابل ذکر بات ہیہ ہے کہ شہلہ
اور یاسر کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا دونوں اک اک لمحہ گن گن کر گزار
رہے تھے ......لہ انہیں دنوں شہلہ ایک رات سو رہی تھی کہ ایک دلدوز چیخ کے
ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی گھر کے سب افراد پریشانی کے عالم میں اس کے چاروں طرف
جمع تھے وہ سب کو یہی بتا رہی تھی کہ اس کے پیٹ مین کچھ ہو رہا ہے اس کو
فورا ہاسپٹل لے جایا گیا اور ڈاکٹروں کی ماہر ٹیم اس کی نگرانی کرنے لگی
یوں اسے ہسپتال داخل ہوئے پندرہ دن بیت چکے تھے ان پندرہ دنوں میں یاسر ایک
پل بھی چین سے نہ بیٹھ سکا تھا وہ ڈاکٹروں کی آپس میں کھسر پھسر ضرور سنتا
مگر یہ اندازہ نہ لگا سکا کہ آخر بات کیا ہے ...............ایک روز وہ
شہلا سے ملنے ہسپتال جا رہا تھا کہ راستے میں ہی ممی سے سامنا ہو گیا پھر
جو کچھ ممی نے اسے بتایا وہ اس کے سننے کے لئے کافی تھا کہ شہلا کی جنس بدل
گئی ہے ،وہ لڑکی سے لڑکا بن گئی ہے ،یاسر کی ساری سوچیں مفلوج ہو کر رہ
گئیں اس کا سر زور زور سے چکرا رہا تھا اس کی سمجھ میں اب آیا تھا کہ ڈاکٹر
اس سے راز کیوں چھپا رہے تھے دوسرے دن ملک بھر کے اخبارات میں یہ خبر
نمایاں طور پر شائع ہوئی کہ جوجوان لڑکی مس شہلا سے مسٹر شاہد بن گئی ،،تب
وہ ہونٹوں پہ اک خفیف سی مسکراہٹ بکھیر کر رہ گیا کہ کبھی کبھی قدرت یوں
بھی مذاق کرتی ہے اسے یقین نہ تھا - |