آہ!قتل توقتل ہوتاہے ‘چاہے معصوم
ایرانی کا ہویاافغانی کا‘پنجابی کا ہویابلوچ کا‘ہندکے شہری کا ہو یاسندھ کے
شہری کا‘عیسائی کاہویاہندوکا‘ناحق قتل ہرصاحبِ ایمان شخص کو تکلیف دیتاہے ۔
عبدالرحمن بن ابی لیلی کی روایت کے مطابق ‘سہیل بن حنیف اور قیس بن سعدجب
قادسیہ کے مقام پر بیٹھے تھے کہ انکے قریب سے ایک جنازہ گزرا تووہ دونوں
اصحاب احتراماکھڑے ہوگئے ‘جنازہ گزرنے کے بعد جب ان کو یہ بتایا گیا کہ یہ
جنازہ ذمیوں میں سے ہے توانہوں نے فرمایاکہ ایک دفعہ سرکار دوجہاں کے قریب
سے ایک جنازہ گزرا تورحمت اللعالمین کھڑے ہوگئے۔جب آپ کو بتایا گیا کہ یہ
جنازہ غیر مسلم یہودی کا تھا تو سرکاردوجہاں نے فرمایا’’الیست نفسا‘‘مفہوم
:کیاوہ انسان نہیں تھا؟۔صیحح بخاری ‘کتاب الجنائزباب من قام لجنازہ یہودی
‘حدیث 1312۔
افسوس کہ آج کچھ لوگ اغیار کی گود میں بیٹھ کر اقلیتوں پرزخم لگاکراپنے
خارجی ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔میڈیاکی اطلاعات کے مطابق آج لاہور کے علاقے
یوحنا آبادمیں جب دعائیہ تقریب جاری تھی ‘اس دوران کیتھڈرل اورکرائسٹ چرچ
میں ایک پولیس اہلکار‘ایک بچہ اوردوخواتین سمیت گیارہ افراداپنے خالق ِ
حقیقی سے جاملے۔دوپولیس اہلکار اورتیس کے قریب افراد کی حالت تشویش ناک
ہے۔واقعہ کے بعد سراج الحق سمیت مختلف سیاسی شخصیات نے اسکی مذمت کی
اوروزیراعظم میاں نوازشریف صاحب نے مذمت کیساتھ ساتھ پنجاب کے وزیراعلی سے
واقعے کی فوری رپورٹ طلب کر لی ہے۔دھماکہ کی جگہ ایک ایسامقام ہے جہاں سے
میاں برادران کی رہائش 5کلومیٹردورہے ‘چرچ کے سامنے لاہورمیٹروکاہیڈکواٹر
ہے اورپندرو کلومیٹر کی دوری پر روزانہ پریڈ کی جاتی ہے ۔یہ مقام چن کر
شاید کمزورہوتے دہشت گرد کوئی خاص پیغام دینا چاہتے ہوں گے مگر پاکستانی
قوم دھماکوں کی آواز کے بعد جائے وقوعہ پر پہنچ گئی‘ زخمیوں کی امدادکرکے
انہیں یہ پیغام دے دیا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں اورتمہارے ناپاک عزائم کو خاک
میں ملا کر دم لیں گے۔سیکورٹی گارڈز کمال دلیری کامظاہرہ کرتے ہوئے انہیں
اندرجانے سے روکا ‘جس کی وجہ سے انہوں نے خود کو دھماکہ سے اُڑالیا ۔
سیکورٹی گارڈز نے ملک کے بہت سے شہریوں کی جانوں کا تحفظ کیا ہے اس پر ان
کو جتنا سراہاجائے کم ہے۔حادثے کے بعد جنرل ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کر کے
اضافی بیڈزلگادیئے گئے جبکہ لاہورکے باقی ہسپتالوں میں بھی ایمرجنسی نافذ
کردی گئی۔مگرجو بات سب سے زیادہ کرب کاباعث ہے وہ ایک میڈیاکی اطلاع ہے۔جس
کے مطابق متعلقہ مقام کوپہلے سے دھمکیاں مل چکی تھیں اور قانون کے محافظوں
کو اطلاع دینے کے باوجود کوئی تحفظ فراہم نہیں کیاگیا۔اگرواقعی ایساہے تو
ذمہ دارافرادکوسزادی جانے چاہیئے اوراگرایساکسی انتظامی نقص کی وجہ سے
کیاگیاہے تو کسی کو معطل کرنے کے بجائے اس بات پر غورکیاجائے کہ جب ہرطرف
دھمکی آمیز پیغام موصول ہورہے ہیں تو ایسے حالات میں پولیس اپنے محدودوسائل
کیساتھ کیسے نبردآزماہو‘یہ ہووہ نکتہ جس پر سوچ بچارکرنی چاہیئے نہ کہ
جذباتی اقدامات اُٹھا کر ہمیں خاموش ہوجاناچاہیئے۔
یوحناآبادایک ایساعلاقہ ہے جہاں کم وبیش دس لاکھ عیسائی آبادہیں۔دھماکے کے
بعد دومشکوک افرادکو مشتعل اہل علاقہ نے زردوکوب کر کے مارڈالا۔اور انکی
میت کو آگ لگادی گئی۔یہ فعل قابل ِ مذمت ہے ‘ماناکہ اسوقت سوگواران اور
انکے رفقاء غم والم میں ڈوب چکے ہیں ‘انکے پیارے یا تو جاچکے ہیں یا زندگی
وموت کی جنگ لڑ رہے ہیں مگرماورائے عدالت ملزم کو سزادینا اخلاقیات
اورریاستی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔اس سب کے باوجود کہیں ایساتونہیں کہ
ریاست کے شہری اب حکومت سے مایوس ہوچکے ہیں اور انکا یہ عمل اس بات کی
عکاسی ہے کہ ملزم عدالت سے بے گناہ قراردیئے جائیں گے ۔میرے خیال میں
اگرایساہے تو یہ انکی غلط فہمی ہے جسے دورکرناحکومتی ذمہ داری میں شامل
ہے۔حکومت کا حق ہے کہ سانحہ کے ملزمان کے ساتھ ساتھ ان دومشکوک افراد کے
قتل کے واقعہ کا بھی نوٹس لے تاکہ معاملے کی گہرائی تک جایا جاسکے ۔
عیسائیوں پریاکسی بھی اقلیت پر حملہ پاکستان پرحملے کے مترادف ہے ۔مگر
عیسائی ہمارے اہل کتاب ہیں اور جب نجران کا وفد سرکار دوجہاں کی خدمت میں
حاضر ہوا تو سرکار دوجہاں نے انہیں مسجد نبوی میں ٹھہرایا اورعیسائیوں کے
وفد نے مسجد نبوی میں اپنے طریق کارکے مطابق عبادت کی ۔اس دوران سرکار نے
ان سے ایک معاہد ہ کیا جس کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں :’’یہ پیغام محمد بن
عبداﷲ کی طرف سے عیسائیت قبول کرنے والوں کے ساتھ چاہے وہ دورہوں یا نزدیک
ایک عہد ہے کہ ہم انکے ساتھ ہیں ۔بے شک میں ‘میرے
خدمتگار‘مددگاراورپیروکارانکاتحفظ کریں گے۔کیونکہ عیسائی بھی میرے شہری ہیں
اور خدا کی قسم میں ہر اس بات سے اجتناب کروں گاجوانہیں ناخوش کرے۔ان پر
کوئی جبر نہیں ہوگا۔نہ انکے منصفوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایاجائے گا اورنہ
ہی انکے راہبوں کو انکی خانقاہوں سے ۔انکی عبادت گاہوں کو کوئی بھی تباہ
نہیں کرے گا‘نقصان نہیں پہنچائے گا۔اورنہ وہاں سے کوئی شہ مسلمانوں کی
عبادت گاہوں میں لے جائی جائے گی۔اگرکسی نے وہاں سے کوئی چیز لی تووہ خدا
کے عہد کوتوڑنے اوراسکے نبی کی نافرمانی کامرتکب ہوگا۔‘‘آخری الفاظ ہیں
’’قوم کاکوئی فرد قیامت تک اس معاہدے سے روگردانی نہیں کرے گا(واﷲ اعلم)۔‘‘
ایک موقع پر سرکار دوجہان نے دورانِ قحط غیرمسلموں کیلئے ابرباراں کی دعاکہ
اورابرمسلسل سات روز برستارہا‘یہاں تک کہ پھر کفارنے سرکار کے پاس عرضی
گزاری اوررحمت اللعالمین نے دعاکی :’اللھم حوالیناولاعلینامفہوم’اے
خداہمارے اردگردبرسااورہم پر نہ برسا۔صیحح بخاری ۔باب الاستسقاء اذااستشفع
المشرکون بالمسلمین حدیث 1020۔
ضرورت اس امرکی ہے کہ حکومت تمام اقلیتوں کے متعلق آقاجی ﷺ کی تعلیمات عام
مسلمانوں میں عام کرے ‘تاکہ معاشرے میں منفی عناصر کاپراپرگینڈہ زورنہ
پکڑسکے ۔ہندو‘عیسائی سکھ سب کی حفاظت حکومت کیساتھ ساتھ ہم عوام کا بھی فرض
ہے ‘ہمیں چاہیں کہ معاشرتی وسماجی سطح پر انکے ساتھ اہل وطن سابرتاؤکریں
تاکہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والے کو معلوم ہوجائے کہ اس کے
شہریوں میں دراڑڈالنا ناممکن ہے۔اقلیتوں کے ساتھ غیراخلاقی رویہ کی شکایات
کم ہیں مگر ان میں بتدریج کمی لاناہرمسلمان کا اخلاقی ودینی فریضہ ہے۔اس
امرمیں کوئی شک نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان بتدرریج بہتری کی جانب گامزن ہے
مگراسکے ساتھ ساتھ وزیراعظم پاکستان کو قوم سے خطاب کرکے ایک بیانیہ دینے
کی اشدضرورت ہے۔اسکے ساتھ ساتھ سرحدپارکے عناصرکولگام دینے کیلئے اقوام
متحدہ میں انکی ہرزہ سرائی کے ثبوت دینے چاہیں تاکہ اقوام عالم جنوبی
ایشیامیں پرامن حالات کیلئے یہاں موجودسخت گیرلوگوں کو ختم کرنے کیلئے انکی
ریاستوں پر دباؤڈال سکے۔
آہ!قتل توقتل ہوتاہے ‘چاہے معصوم ایرانی کا ہویاافغانی کا‘پنجابی کا
ہویابلوچ کا‘ہندکے شہری کا ہو یاسندھ کے شہری کا‘عیسائی کاہویاہندوکا‘ناحق
قتل ہرصاحبِ ایمان شخص کو تکلیف دیتاہے ۔ |