دوستی ٹوٹ جائے گی
اگر!
۱۔اپنی بات سناؤ گے مگر دوست کی نہیں سنو گے ۔
۲۔ہر وقت دوست کے ساتھ ہی چپکے رہو گے ۔
۳۔ضرورت سے زیادہ دوست کی طرف آمد ورفت رکھو گے ۔
۴۔ مطلب اور غرض کی خاطر ہی دوست کے پاس جاؤ گے ۔
۵۔ دوست کے گھر یلو یا ذاتی معاملا ت میں خواہ مخواہ مداخلت کرو گے ۔
۶۔ دوست کے جذبات و احساسات کا خیال نہیں رکھو گے ۔
۷۔ضرورت سے زیادہ بولو گے یا ضرورت سے زیادہ خاموش رہو گے ۔
۸۔اخلاق و کردار پر کھے بغیر دوستی کر و گے ۔
۹۔دوست کے کاموں میں اکثر وبیشتر نقص نکالتے رہو گے ۔
۱۰۔دوست کے سامنے اپنی ہی تعریف میں مگن رہو گے ۔
۱۱۔مذہبی اور سیاسی معاملات میں اپنی رائے ٹھونسنے کی کوشش کرو گے ۔
۱۲۔بہت زیادہ تکلف یا ضرورت سے زیادہ بے تکلّفی سے کام لو گے ۔
۱۳ ۔غلط فہمی کو خود دورکرنے کی بجائے دوسروں کے ذریعے دور کرانے کی کوشش
کرو گے ۔
۱۴۔دوست سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرو گے ۔
۱۵۔دوستی کو اخلاقی حدود کا پابند نہیں رکھو گے ۔
۱۶۔دوست کی ہر جائزو ناجائزبات مانو گے ۔
۱۷۔مشکل وقت میں دوست کے کام نہیں آؤ گے ۔
۱۸ ۔دوست سے کیے گئے وعدوں کا لحاظ نہیں کرو گے ۔
۱۹۔دوست کو صحیح مشورہ نہیں دو گے ۔
۲۰۔دوست کو بلاوجہ امتحان میں ڈالو گے ۔
مسکرانے کی گیارہ وجوہات
۱۔مسکراہٹ قوّت اعتماد میں اضافہ کرتی ہے ۔
۲۔مسکراہٹ صحت مندر ہنے کا سب سے کم قیمت نسخہ ہے ۔
۳۔مسکراہٹ مشکل کاموں کو آسانی سے کرنے کا حوصلہ بخشتی ہے ۔
۴۔مسکراہٹ خوشگوار تعلّقات کے لیے ایک نعمت عظمہ کا درجہ رکھتی ہے ۔
۵۔مسکراہٹ دلوں کا غبارہ اور بوجھ ہلکا کر دیتی ہے ۔
۶۔مسکرانے سے آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی ہے ۔
۷۔مسکراہٹ چہرے کی قدرو قیمت میں اضافہ کرتی ہے ۔
۸۔مسکراہٹ جسم اور روح کو فوری توانائی فراہم کرتی ہے ۔
۹۔مسکراہٹ اچھے اخلاق، ہمت اور حوصلے کی علامت ہے ۔
۱۰۔مسکرانے والے کو دنیا مسکراتی ہوئی اور رونے والے کو روتی ہوئی محسوس
ہوتی ہے۔
۱۱۔ہادی ء دو جہاں صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مسکرا کر بات کرنے کو صدقہ
قرار دیا ہے ۔
کام نہ کرنے کا بوجھ
زندگی میں سب سے بڑا بوجھ کام نہ کرنے کا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ کھڑا آدمی
متحرک آدمی کی نسبت جلدی تھک جاتا ہے کیونکہ کھڑے آدمی کی دونوں ٹانگیں جسم
کا سارا بوجھ بیک وقت اٹھا رہی ہوتی ہیں جبکہ متحرک آدمی کی ایک ٹانگ ایک
وقت میں بوجھ اٹھاتی ہے او ر دوسری آرام کرتی ہے ۔ ہماری اکثریت کام نہ
کرنے کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے ۔گھروں، دفتروں، تعلیمی اداروں ،ہوٹلوں
،چوراہوں الغرض ہر جگہ اکثر لوگ اسی بوجھ کو اٹھائے ہوئے نظر آتے ہیں ۔یہ
لوگ رات کو دو طرح کی تھکاوٹ لے کر سوتے ہیں ۱۔ذہنی ۲۔جسمانی۔ اسکے بر عکس
متحرک اور کام کرنے والے لوگ صرف جسمانی تھکاوٹ ہی لے کر سوتے ہیں جو نیند
پوری کرنے سے دور ہو جاتی ہے ۔مگر اول الذکر لوگ مذکورہ دونوں تھکاوٹوں سے
ہمیشہ چور رہتے ہیں۔
انسان کبھی بوڑھا نہیں ہوتا
انسان اس وقت بوڑھا ہوتا ہے جب وہ سیکھنا بند کر دیتا ہے۔ وہ زندہ شخص ایک
مردہ لاش کی طرح ہوتا ہے جس میں مزید سیکھنے کی جستجو دم توڑ جائے۔ اسی لیے
پیغمبر دو جہاں صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے گود سے گور تک علم حاصل کرنے کا
حکم دیا ہے۔
صرف کام ہی نہ کریں بلکہ سمارٹ کام کریں
سمارٹ (SMART)انگریزی زبان کا لفظ ہے جو مندرجہ ذیل الفاظ کا مخفف ہے
S۔specific،simple(مخصوص ،سادہ (کام کو آسان فہم انداز اور مخصوص ہدف کے
ساتھ کریں ۔
M۔MEASUREABLE(قابل پیمائش(کام کو اسکے معیاراور مقدار کی کسوٹی پر پرکھ کر
کریں۔
A۔ATTAINABLE(قابل حصول)کام او ر کام کا منصوبہ قابل حصول ہو، وقت، سرمایہ،
افرادی قوت اور دیگر وسائل کو مد نظر رکھا گیا ہو۔
۔REALISTIC(مبنی بر حقائق)کام اور کام کا منصوبہ حقیقت پسندی پر مبنی ہو۔
T۔TIME BOUND(تعین اوقات )کام کب تک پایہء تکمیل کو پہنچے گا ؟
علم،مہارت اور رویہ
انسانوں کا رویہ ہی ان کےمقام ومرتبہ کی نشاندہی کرتا ہے ۔دنیا میں انسانوں
کو جتنی بھی اقسام کی تربیت دی جاتی ہے وہ تین چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے
۱۔علم ۲۔مہارت ۳۔رویہ ۔علم اور مہارت دونوں مل کر انسانی شخصیت کی صرف سات
فی صد جبکہ رویہ ۹۳فی صد تعمیر کرتا ہے ۔ذرا اس افسر کو دیکھئے جو صاحب علم
ومرتبہ ہے اور اپنے کام میں مہارت بھی خوب رکھتا ہے مگر لوگوں سے ہاتھ
ملانا تک گوارا نہیں کرتا ایسے شخص کی شخصیت اورمقام و مرتبہ کی عمارت
لوگوں کی نظر میں دھڑام سے زمیں بوس ہو جائے گی۔ یہ رویہ ہی تو ہے جو لوگوں
کے ذہنوں میں تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ بلا شبہ دیگر دو عوامل بھی شخصیت سازی
میں اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر رویہ ہے کہ دل ودماغ کے نہاں خانوں میں اتر
کر بسیرا کر لیتا ہے اور انسان کے دل و دماغ میں انقلاب پیدا کر دیتا ہے ۔
رویہ در اصل اخلاق کا ہی دوسرا نام ہے ۔ اسی لیے پیغمبر دو جہاں صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں ۔
رویہ اور ذمہ داری
کوئی شخص کتنا ذمہ دار ہے ا س کے رویے سے عیاں ہوتا ہے نہ کہ اس کے علم اور
مہارت سے ۔
دکھائیے۔ بتائے نہیں
کہنے کو ہم بہت کچھ کرتے ہیں۔ بڑے بڑے کار نامے سر انجام دیتے ہیں مگر
دکھانے کےلیے کہ ہم نے کیا کیا ہمارے پاس کچھ نہیں ہوتا ۔ہم روبہ زوال اسی
لیے ہیں کہ ہماری زبانیں تھک جاتی ہیں مگر ہاتھ ،پاؤں اور دماغ آرام کرتے
رہتے ہیں ۔ترقی ،خوشحالی اور عزت ووقار فقط اسی وقت ملتے ہیں جب ہاتھ اور
دماغ تھک کر چور ہو جائیں مگر زبانیں آرام کرتی رہیں ۔تقدیر زبان تھکانے سے
نہیں بلکہ سوچنے اور کام کرنے سے بدلتی ہے ۔
فلسفہء کامیابی
دنیا بھر کے فلسفوں سے زیادہ حقائق انسان کو میسر دن کے چوبیس گھنٹوں میں
پوشیدہ ہیں ۔ان چوبیس گھنٹوں کا صحیح استعمال انسان کو عظیم الشان حقائقِ
زندگی سے روشناس کروا سکتا ہے ۔فلسفیوں کا فلسفہ انسانوں کو کامیاب زندگی
گزارنے کے اصول بتایا ہے مگر جو شخص اپنے چوبیس گھنٹے دل ودماغ اور جسم کی
توانائیوں کو حصول مقصد کےلیے لگا رہا ہے وہ خود ایک کامیاب انسان ہے
۔فلسفی بھی اسی کی کامیابی کی طرف دیکھ کر اصول وضع کرتے ہیں ۔
خوبصورت چہرے
اللہ تعالی ٰ نے سب انسانوں کو ہی خوبصورت چہرے عنائت کیے ہیں ۔اب ان پر
تاثرات قائم کرنا انسانوں کا کام ہے ۔چہرے کے تاثرات در اصل انسانوں کے
اندرونی احساسا ت ،خیالات اور جذبات کی نمائندگی کرتے ہیں۔اگر اندرونی
احساسات ،خیالات اور جذبات میں نفرت ،کینہ ،حسد ،بغض اور غصہ شامل ہو تو
یہی خوبصورت چہرے بد صورت بن جاتے ہیں اور اگر ہمارے اندرونی خیالات ،جذبات
اور احساسات میں محبت ،اخوت ،رواداری ، در گزر اور صبرو تحمل ہو تو یہ
خوبصورت چہرے خوبصورت ہی رہیں گے ۔اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ اللہ کے عنائت
کردہ خوبصورت چہرے کو اپنے خوبصورت خیالات سے خوبصورت رہنے دیتے ہیں یا
اپنے بد صورت خیالات سے خوبصورت چہرے کو بد صورت بنا لیتے ہیں۔
بہترین مدد گار ہاتھ
بہترین مدد گار ہاتھ وہ ہیں جو آپ کے بازوؤں کے آخر پر لگے ہوئے ہیں ۔آپ کی
ناکامی میں کن کن لوگوں کا ہاتھ ہے اس کا راگ آپ چاہے دن رات الاپتے رہیں
اس سے کوئی افاقہ نہیں ہو گا ۔ہاں آپ کی تقدیر ضرور بدلے گی اگر آ پ اپنے
دل ودماغ سے کام لیں گے اور ان ہاتھوں پر بھروسہ کریں گے جو آپ کے بازوؤں
کے آخر پر لگے ہوئے ہیں ۔
سائنسی طرز فکر
آپ کاموں کو مختلف انداز سے نہیں کر سکتے جب تک آ پ ان کو مختلف انداز سے
دیکھتے نہیں ۔واقعات اور امورو معالات کو مختلف انداز سے دیکھنا تخلیقی ذہن
کی علامت ہےاور انسانوں کو تحقیق و تخلیق پر آمادہ کرتی ہے ۔اسی کا نام
سائنسی طرز فکر ہے ۔دنیا کی بیشتر ایجادات کے پیچھے یہی طرز فکر کا
رفرمانظر آتی ہے ۔سیب ہزاروں سالوں سے زمین پر گرتا رہا مگرنیوٹن نے جب اسے
دوسروں سے مختلف زاویہ ءنگاہ سے دیکھا تو قانون تجاذب کی شکل میں فطرت کا
ایک بہت بڑا قانون دریافت کر ڈالا ۔
تھوڑا علم ترقی کا پیش خیمہ
انسان کو بہت کچھ جاننا پڑتا ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ وہ بہت کم جانتا ہے
کوئی شخص کسی خاص مضمون میں ماسٹر ڈگری کرتا ہے پھر کسی ایک شاخ پر ایم فل
کرتا ہے پھر کسی ایک عنوان پر پی ایچ ڈٰ ی کرتا ہے پھر کسی مزید چھوٹے
عنوان پر پوسٹ ڈاکٹریٹ کرتا ہے پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ جس عنوان پر اس نے
پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ہے وہ اسکے بارے میں بھی ساری معلومات نہیں جانتا۔ ذرا غور
کریں کہ یہ تھوڑا سا علم جاننے کے لیے اسے کتنا کچھ جاننا پڑتا ہے ۔حقیقت
یہ ہے کہ اس انداز سے تھوڑا علم جاننے کی جدوجہد ہی در اصل قوموں کو زوال
سے عروج کی طرف لے کر جاتی ہے ،ترقی اسی طرح تھوڑا علم جاننے کا نام ہے
۔علم کی گہرائی تک اسی طرح سے پہنچا جا سکتا ہے ۔تحقیق و تخلیق کی صلاحیتیں
اسی طرح تھوڑا علم جاننے سے ہی پیدا ہوتی ہیں ۔کسی مفکر نے کیا خوب بات کہی
کہ مہارت یہ ہے کہ آدمی چھوٹی چیز کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانتا ہو۔
چھوٹی ملازمت بطور بیس کیمپ
ہم چھوٹے گریڈ کی ملازمت کو بہتر طریقے سے انجام دے کر بڑے گریڈ کی ملازمت
کےلیے راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔ جب ہم چھوٹے گریڈ کی ملازمت کو دیانت داری
سے ادا کر کے اپنا اعتماد پیدا کر لیتے ہیں توہم اس سے بڑے گریڈ کی ملازمت
کےلیے ایک جست لگا چکے ہوتے ہیں بس ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم چھوٹے
گریڈ کی ملازمت کو بڑی ملازمت کےلیے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کریں اور
بڑی ملازمت کے حصول کےلیے تمام مطلوبہ صلاحیتیں اور مہارتیں اسی بیس کیمپ
میں ہی سیکھ لیں۔ترقی کے اسی کلیے کو استعمال کر کے چند سال پہلے پی ٹی سی
ٹیچر بھرتی ہونے والے آج صدر معلم ،پر نسپل ۔کالج کے لیکچرار اور دیگر بڑے
عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں ۔فیکٹریوں میں کلرک بھرتی ہونے والے منیجر بنے
بیٹھے ہیں ۔پٹرول پمپوں پر منشی کا کام کرنے والے آج پٹرول پمپوں کے مالک
بنے بیٹھے ہیں ۔اسی لیے کہ انہوں نے پہلے والی چھوٹی ملازمت کو اس سے اگلی
اور بڑی ملازمت کےلیے بطور بیس کیمپ استعمال کیااور پھر سیڑھی کے زینوں کی
طرح مرحلہ بہ مرحلہ اوپر چڑھتے گئے اور بالاآخر با عزت مقام حاصل کر لیا ۔
ہیرو کون ؟
ہیرو ایک عام آدمی ہوتا ہے مگر اسے اپنے مقصد سے وابستگی دوسرے لوگوں سے
زیادہ ہوتی ہے ۔دنیا کے بڑے بڑے ہیرو اس لیے ہیرو بنے کہ انہوں نے اپنی
زندگی کا ایک واضح نصب العین متعین کیا اور اس نصب العین کے حصول کے لیے
اپنی تما م تر صلاحیتیں کھپا دیں ۔کیا آپ ہیرو نہیں بن سکتے ؟کیوں
نہیں؟ضرور بن سکتے ہیں ۔اگر آپ بھی اپنی زندگی کا ایک واضح مقصد بنا لیتے
ہیں اور پھر اسی مقصد پر نظریں جما کر اپنے دل ،دماغ اور جسم کی تمام تر
توانائیوں کو اس مقصد پر مرتکز کر دیتے ہیں ۔
خواہش اور استحقاق
اس دنیا میں ہم وہی کچھ حاصل کرتے ہیں جس کے ہم مستحق ہوتے ہیں نہ کہ وہ جس
کی ہم خواہش کرتےہیں ۔استحقاق کی ہم عمل کے ذریعے ممکن بناتے ہیں جبکہ
خواہش کا عمل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔خواہشات کا معاملہ تو یہ ہے کہ
ہزاروں خواہشیں ایسی پہ دم نکلے خواہش اور عمل میں مطابقت پیدا ہو جانے کا
نام شوق ہے اور جس کو حصول مقصد کا شوق پیدا ہو جائے وہ کامیابی کی منزل تک
ضرور پہنچ جاتا ہے ۔اسکے بر عکس خواہش اور عمل کی عدم مطابقت کام میں بے
یقینی ،عدم اعتماادی ،بوریت ،سستی اور بوجھل پن کو جنم دیتی ہے جس کا نتیجہ
نا کامی کے علاوہ کسی اور صورت میں نہیں نکل سکتا ۔
اچھا اور بہت اچھا انسان
اچھا انسان وہ ہے جو برائی کے چنگل میں سے خیر و عافیت کےساتھ نکل جائے مگر
بہت اچھا انسان وہ ہےجو برائی کے قریب تک نہ پھٹکے ۔
خوش قسمت انسان
خوش قسمت انسان وہ ہے جو ایک بلند مقصد رکھتا ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں
زیادہ تر لوگ بے مقصد ہی گھوم پھر رہے ہیں ۔بلند مقصد رکھنے والے شخص کے
سامنے ایک منزل ہوتی ہے جہاں تک وہ پہنچنے کے لیےمنصوبہ بندی کرتا ہے اور
اپنے دماغ ،دل، جسم ،وقت ،پیسہ اور تعلقات جیسے وسائل کو بروئے کا ر لاتا
ہے مگر بے مقصد انسان کی کوئی منزل نہیں ہوتی اسکی مثال اس مسافر کی سی
ہوتی ہے جسے یہ پتہ نہ ہو کہ اس نے کہاں جانا ہے ؟
چھ سوالات
ایک مقصد رکھنے والا انسان اپنے آپ سے درج ذیل چھ سوالات کرتا ہے اور اپنے
آ پ سے ہی ان کے جوابات طلب کرتا ہے ۔
۱۔وہ زندگی میں کیا بننا چاہتا ہے ؟
۲۔اسے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کےلیے کتنی جدوجہد کی ضرورت ہے ؟
۳۔جدوجہد کا کیا طریقہ ہو گا ؟
۴۔دوران جدو جہد اسے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ؟
۵۔ان مشکلات کو کن کن طریقوں سےحل کیا جا سکتا ہے ؟
۶۔ان طریقوں میں سے بہترین طریقہ کون سا ہے؟
کردار کی فصل
خیالات کے بیج بوئیں اور اعمال کی فصل کاٹیں ۔
اعمال کے بیج بوئیں اور عادات کی فصل کاٹیں ۔
عادات کے بیج بوئیں اور کردار کی فصل کاٹیں ۔
کردار کے بیج بوئیں اور منزل مراد کی فصل کاٹیں۔
معاف کرنا مگر یاد رکھنا
"میں معاف تو کر سکتا ہوںمگر بھول نہیں سکتا "یہ اس بات کا دوسرا انداز ہے
کہ "میں معاف نہیں کر سکتا "معاف کرنے سے انسان کا دل اور دماغ دونوں پر
سکون ہو جاتے ہیں مگر جو شخص معاف کرنے کے باوجود غصے ،حسد ،بغض اور کینے
کو دل میں رکھتا ہے تو گویا وہ معاف ہی نہیں کر تا ۔معافی کا خاصہ ہی یہ
ہےکہ مذکورہ منفی جذبات وخیالات کو دل ودماغ سے نکال کرباہرکیا جائے۔
اچھی گفتگو
اچھی گفتگو ایک سختی اور ایک نرمی پر مشتمل ہوتی ہے ۔سختی دلائل کی اور
نرمی لہجے کی
بہترین گفتگو کرنے والا
وہ جو مستقل مزاجی سے بات کرتا ہے ۔دوران گفتگو مطلب کی بات پوچھتا اور
ٹھنڈے میٹھے انداز سے جواب دیتا ہے ۔اور جب کہنے کےلیے کچھ نہ ہو تو خاموش
رہتا ہے ۔تو ایسا بہترین گفتگو کرنے والا شخص ہے ۔
اچھی گفتگو ایک خوبصورت منظر
اچھی گفتگو اس خوبصورت منظر کی طرح ہوتی ہے جو مسلسل بدل رہا ہو اور اس میں
جدت ،انوکھے پن اور حیرت واستعجاب کی دلکشی بھی ہو ۔
گفتگو کا حسن
اختصار اور جامعیت ہی گفتگو کا اصل حسن ہے ۔
پھول اور پھلواری
زندگی میں کسی کو ایک پھول کا تحفہ پیش کرنا اسکی قبر پر پھلواری اگانے سے
بہتر ہے ۔
انداز تحقیق وتخلیق
تحقیقی ،تخلیقی اور جدت پسندانہ ذہن رکھنے والے افراد کیسے کام کرتے ہیں ؟
۱۔غوروفکر ،مشاہدے اور عمل کے مراحل سے اپنے آپ کو گزارتے ہیں۔
۲۔خوب سے خوب تر کی تلاش میں سر گرداں رہتے ہیں ۔
۳۔امور ومعاملات کا باریک بینی اور تفصیلات کے ساتھ جائزہ لینے کے عادی
ہوتے ہیں ۔
۴۔کام کی نئی نئی جہتیں تلاش کرتے ہیں ۔
۵۔معلوم حقائق سے نا معلوم حقائق کی طرف سفر کرتے ہیں۔
۶۔کاموں کو دوسرے لوگوں سے فرق پیدا کر کے کرتے ہیں ۔
۷۔ناکامی کی وجوہات کا تجزیہ کرتے ہیں اور کامیابی کے لیے منظّم اور مربوط
لائحہ عمل مرتب کرتے ہیں ۔
۸۔پرانے سازو سامان کو نئے سازو سامان میں بدلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
۹۔ذہن میں تصورات کو علیحدہ کرتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کو منتخب کر کے
اس پر عمل کرتے ہیں ۔
۱۰۔سطحی اور غیر ذمہ دارانہ سوچ کو گہری اور ذمہ دارانہ سوچ میں بدلتے ہیں
۔
۱۱۔محنت شاقہ اور سخت جدو جہد کےلیے اپنے آپ کو ہمہ وقت تیار رکھتے ہیں
۔اسکے ساتھ ساتھ اپنی جدوجہد کی سمت کو بھی درست رکھتے ہیں ۔
۱۲۔اپنی ذات میں موجود خامیوں اور خوبیوں کا ایک واضح خاکہ اپنے پاس رکھتے
ہیں
۱۳۔اپنے تخلیق اورجدت پسندانہ تصورات وخیالات کے اظہار میں عار اور شرم
محسوس نہیں کرتے ۔
۱۴۔سات "ک"کیوں ، کب ،کہاں ،کون ،کیسے ،کتنا اور کیا جیسے الفاظ کی تحقیقی
اور تخلیقی قوت سے آشنا ہوتے ہیں ۔
۱۵۔ارتکازِ توجہ کے ساتھ کام کرنے کے فن سے آشنا ہوتے ہیں ۔
۱۶۔اپنے آپ میں تبدیلی پیدا کرنے کےلیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔
۱۷۔اپنے سوچنے سمجھنے اور کام کرنے کی صلاحیتوں کو دوسرے لوگوں سے کم تصور
نہیں کرتے ۔
۱۸۔ کائنات میں پھیلی ہوئی خدا کی نشانیاں تلاش کرتے ہیں ۔
۱۹۔ کام کو چیلنج سمجھ کر کرتے ہیں ۔
۲۰۔ماضی سے سبق سیکھتے ہیں ،حال میں رہ کر کام کرتے ہیں اور مستقبل پر نظر
رکھتے ہیں ۔
۲۱۔ غلطیوں کی وجہ سے پسائی اختیار نہیں کرتے بلکہ ان سے سیکھتے اور آگے
بڑھنے کی سبیل ڈھونڈتے ہیں ۔
۲۲۔ایک ہی راستے پر چلنا مشکل ہو تو دائیں بائیں سے یا پیچھے ہٹ کر آسان
اور متبادل راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
۲۳۔اپنے پاس ہمیشہ ایک نوٹ ضرور رکھتے ہیں، اس پر نئے خیالات تصورات،
مشاہدات اور ان کے نتائج تحریر کر لیتے ہیں اس طرح جمع شدہ حقائق کے ذریعے
اپنی قوّت استدلال میں اضافہ کرتے ہیں ۔
۲۴۔کسی ادارے ،کمپنی یا تنظیم کی تخلیقی سر گرمیوں میں اضافہ کرتے ہیں ۔فقط
چند ہدایات واحکامات جاری یا قبول کر کے نہیں بلکہ تبدیلی کے عمل کا حصہ بن
کر ۔
۲۵۔تخلیقی استفسار (questioning creative)کے طریقوں سے آگاہ ہوتے ہیں
۔اوران کے ذریعے اپنے دل ودماغ میں تخلیقی تحرّک پیداکرتے ہیں ۔
۲۶۔استفسار کے وقت اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتے ہیں ۔پوچھتے ضرور ہیں چاہے
انہیں جاہل ہی کیوں نہ سمجھا جائے ۔
۲۷۔اپنے اندر کی آواز پر لبّیک کہتے ہیں۔ نہ کہ لوگوں کی آواز پر ۔
۲۸۔دوسروں کے کامیاب تصورات کو وسعت دیتے ہیں اور ان کے نئے نئے اطلاقات
تلاش کرتے ہیں ۔
۲۹۔پیچیدہ اور بکھری ہوئی اشیاء پر رنجیدہ خاطر اور مایوس ہونے کی بجائے
خاطر جمع رکھتے ہیں اور انہیں ترتیب دینے کےلیے کوشاں رہتے ہیں ۔
۳۰۔گردو نواح کی فضاء میں نئے تصورات کو تیرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور انہیں
گرفت میں لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
۳۱۔ بنے بنائے راستوں پر چلنے کے عادی نہیں ہوتے بلکہ نئی نئی راہیں تلاش
کرتے ہیں ۔
۳۲۔ پیچیدہ مسائل سے واسطہ پڑنے پر پریشان نہیں ہوتے ۔رکتے ہیں ،سوچتے ہیں
اور پھر اندر سے ایک رہنمائی کرتی ہوئی آواز ان کی سماعتوں سے ٹکرا جاتی
ہے۔
۳۳۔وہ تخیل یا تصور جو موجودہ حالات میں کار آمد ثابت نہ ہو رہا ہو اسے
مستقبل میں مختلف حالات کے تحت آزماتے ہیں ۔
۳۴۔غلطیوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت انہیں تخلیقی حوصلہ عطا کرتی ہے
۳۵۔غیر یقینی کیفیت ،تناؤ اور خوف سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں ۔وہ انہیں
تخلیقی صلاحیتیں مسدود کر دینے والے تصور کرتے ہیں ۔
۳۶۔اس سوچ میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے کہ دوسرے ان کے بارے میں کیا سوچتے
ہیں ؟
۳۷۔اس بات سے پوری طرح باخبر ہوتے ہیں کہ تخلیقی صلاحیتوں کےسوتے شاباش اور
حوصلہ افزائی کے اس ماحول سے پھوٹتے ہیں جہاں ناکامی کو بھی کامیابی کا حصہ
سمجھا جاتا ہے ۔
۳۸۔ کام میں ڈوب کر کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں ۔اور اس دوران ان پر کام کے
نئے نئے گوشے وا ہوتے ہیں ۔
۳۹۔ درست اور مضبوط قوت مشاہدہ کی بدولت اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی افزائش
کرتے ہیں ۔
۴۰۔ اپنے تخیلات وتصورات کا تجزیہ انہیں ممکنات ،متشابہات اور ناممکنات میں
تقسیم کر کے کرتے ہیں ۔
دماغ کب کام کرتا ہے ؟
جب دروازے ،کھڑکیاں اور روشن دان بند ہو جائیں ۔بظاہر نکلنے کی کوئی سبیل
نظر نہ آئے تو ایسی صورت میں کمرے سے باہر نکلنے کی تدبیر کرنا دماغ کو
زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کی حالت میں لانے کے مترادف ہوتا ہے ۔کیونکہ
ایمرجنسی کی حالت میں دماغ کے خوابیدہ خلیے بھی بیدار ہو جاتے ہیں۔امتّ
مسلمہ اگر اب بھی اپنے اوپر ایمر جنسی طاری نہیں کرتی اور اپنے دماغ کے
خلیوں کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی حالت میں نہیں لاتی تو پھر وہ اس سے
بھی بُر ے دن دیکھنے کےلیے تیار رہے ۔
خیالات اور ان کا اظہار
خیالات وتصورات اس وقت نہیں نکھرتے جب تک ان کا اظہار نہ ہو جائے
کام چوری
کام چوری کی جب اچھی خاصی مشق ہو جاتی ہے اور یہ دل ودماغ میں اچھی طرح رچ
بس جاتی ہے تو پھر وہ ایک اسی پختہ عادت کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس
سےپیچھا چھڑانا پھر جوئے شیر لانے کے مترادف ہو جاتا ہے ۔با لکل منشیات کے
عادی اس آدمی کی طرح جس کو نشہ آور چیز کا تقاضاہر وقت مضطرب و بے چین
رکھتاہے ۔قدرت ایسے شخص سے اس طرح انتقام لیتی ہے کہ اس سے عزت اور کامیابی
کے تمام مواقع چھین لیتی ہے ۔
اندر کا اشتہار
اچھی ہے یا بری ۔آپکی گفتگو آپکے اندر کے انسان کا اشتہار ہے۔ جب بھی آپ مد
مقابل کو اپنے دماغ میں جھانک کر دیکھنے کا موقع دیتے ہیں ۔
تخلیقی عمل
تخلیقی عمل ہیروں کی کان سے ہیرے نکالنے کی طرح ہے ۔جس میں مٹی کی تہوں میں
چھپے ہوئے ہیروں کو نکالنے کے لیے گہرے گڑھے کھودے جاتےہیں اور سینکڑوں من
مٹی باہر نکالی جاتی ہے ۔کیا اس قدر کثیر مقدار میں مٹی نکالنے کا یہ مشقت
طلب عمل رائیگاں تصور کیا جاتا ہے ؟نہیں ہرگز نہیں۔دنیا میں گوہر نایاب
حاصل کرنے کا یہی تو راستہ ہے ۔ در اصل مٹی نکالنے کا مذکورہ عمل ایک
آزمائشی خوف ہے ۔جس نے اس خوف پر قابو پالیا اس نے کائنات میں چھپا ہوا
کوئی نہ کوئی سر بستہ راز ضرور پا لیا ۔جارج ایڈیسن بلب کا فلامنٹ ایجاد
کرنے کے لیے ایک ہزار تجربات سے گذرا ۔اسکے ۹۹۹تجربات ناکام ہوئے اور ایک
ہزار واں تجربہ کامیابی سے ہمکنار ہوا ۔لوگوں نے اس سے پوچھا کہ کیا اس کے
۹۹۹تجربات نا کام ہوئے ؟۔ اس نے کہا نہیں ۔اب وہ ایسے ۹۹۹طریقے جانتا ہے جن
سے بلب نہیں بنایا جا سکتا ۔کام کرنے اور سوچنے کا یہی انداز افراد و اقوام
کو ترقی وخوشحالی عطا کرتا ہے ۔
تخلیق اور جمود
تخلیق اور جمود وبالکل متضاد رویوں کا نام ہے ۔ایک کو ہم زندگی اور دوسرے
کو ہم موت کہہ سکتے ہیں ۔جن قوموں نے تحقیق و تخلیق کا کام کیا وہ زندہ ہیں
اور جو جمود کا شکار ہوئیں وہ مردہ ہیں ۔ان کے جسم تو ہیں مگر ان میں روح
باقی نہیں ہے ۔ان کے دماغ تو باقی ہیں مگر ان میں سوچنے سمجھنے صلاحیت نہیں
ہے ۔ان کے دماغوں کے خلیے زنگ آلود اور جامد ہو چکے ہیں۔ان کو متحرک کرنے
کےلیے چھوٹے چھوٹے جھٹکوں کی نہیں بلکہ بڑے بڑے زلزوں کی ضرورت ہے ۔وہ
زلزلے جو خدا کے عذاب کی صورت میں آیا کرتے ہیں ۔یہ سزا ان کو اپنے دماغوں
کو استعمال نہ کرنے کی وجہ سے مل رہی ہے ۔کیا خدا نے اپنی کتا ب میں ہمیں
اپنے دماغوں کے استعمال کی دہائی نہیں دی ہے؟کیا خدا کی حکم عدولی کر کے ہم
اس کی سزا کے سزا وار نہیں ہیں؟
پہلا قدم
انسان اگر اپنے خدا کی طرف ایک قدم بڑھائے تو خدا انسان کی طرف دس قدم
بڑھاتا ہے ۔مگر پہلا قدم انسان ہی کو خدا کی طرف بڑھانا پڑتا ہے ۔امت مسلمہ
میں بہت سے لوگ عملی طورپر اس عقیدے کے قائل ہو چکے ہیں کہ پہلا قدم بھی
انکی طرف خداہی بڑھائے اور پھر دس قدم بھی وہی چل کر انکی طرف آئے ۔جدوجہد
سے تہی دست اور فقط دعاؤں سےتقدیر بدلنے کے خواب دیکھنے والے یہ لوگ امت
میں عضو معطل کی طرح ہیں ۔کامیابیوں ،کا مرانیوں اور عنایات خدا وندی کے
امید وار پہلا قدم بھی اٹھانے کےروادار نہیں ہیں ۔فقط دعاؤں کے سہارے امت
کی ڈوبتی ہوئی ناؤ کو پار لگانا چاہتے ہیں۔عمل سے خوف زدہ لوگوں کو خدا
کیونکر کامیابی سے نوازے گا؟
آپ کا ووٹ کدھر ہے ؟
ہر دن الیکشن کا دن ہے ۔شیطان آپ کے خلاف ووٹ ڈالنا چاہتا ہے اور خدا آپ کے
حق میں ۔فیصلہ کن ووٹ آپ کا ہے ۔آ پ کدھر ووٹ ڈالنا چاہتے ہیں ؟
انداز مہارت
پیرا شوٹ کے ذریعے ہوائی جہاز سے چھلانگ لگانا ایک عام اور غیر تربیت یافتہ
شخص کےلیے ایک خوفناک اورموت کے منہ میں دھکیلنے والا کام لگتا ہے مگر
مسلسل تربیت ،محنت ،مشق اور مرحلہ وار جدوجہد کے ذریعے یہ کام اتنا آسان ہو
جاتا ہےکہ آدمی ہوئی جہاز سے بلا خوف وخطر چھلانگ لگا دیتا ہے اور محفوظ
بھی ہوتا ہے ۔انسانی کامیابی کا بھی یہی راز ہے کہ کسی کام میں اس قدر
مہارت حاصل کر لی جائے کہ کام کا خوف دل ودماغ سےنکل جائے ،کام پر گرفت
مضبوط ہو جائے اور کام کرتے ہوئے اطمینان قلب اور مسرت محسوس ہوتو سمجھ لیں
کہ یہ کام آپکے عقیدے کا حصہ بن گیا ہے ۔آپکے دل ،دماغ اور جسم میں رچ بس
چکا ہے اور آپ کو ضرور کامیابی سے ہمکنار کر دے گا ۔
منزل مقصود پر پہنچنے کا طریقہ
جس طرح خط کے لفافے پر ٹکٹ اس وقت تک چمٹا رہتا ہے جب تک خط منزل مقصود تک
نہ پہنچ جائے اسی طرح انسان کو بھی اپنے مقصد کے ساتھ اس وقت تک چمٹے رہنا
چاہیے جب تک کہ وہ اپنے ہدف کو نہ حاصل کر لے ۔
عقلمندی
دانشمندی اورموقع شناسی یہ ہے کہ جب لوہا گرم ہو تو چوٹ لگا دی جائے اور
اگر لوہا چوٹ لگانے کے لیے گرم نہ ہو رہا ہو تو پھر لوہے کو ہی گرم کر لیا
جائے ۔
کامیابی کی پگڈنڈی
عقل وخرد رکھنے والے کامیابی کی طرف جانے والی پگڈنڈی تلاش کر لیتے ہیں اور
اگر نہ ملے تو بنا لیتے ہیں ۔
صاف اور واضح بات
صاف اور واضح انداز میں کی گئی بات بھی ایک دلیل کے مترادف ہوتی ہے۔
خیالات کی پرورش
ہمیں اپنے خیالات وتصورات کی احتیاط سے پرورش اور حفاظت کرنی چاہیے ۔ان کو
ضبط تحریر میں لے آنا چاہیے ،گفتگوکے ذریعے ان کا اظہار کر دینا چاہیے یا
ان پر عمل پیرا ہونا چاہیے ۔ورنہ یہ بے عملی کے نہاں خانوں میں پڑے پڑے
مردہ ہو جاتے ہیں۔
با وفا شخص
وہ شخص با وفا کیسے ہو سکتا ہے جو اپنے فرائض منصبی کے ساتھ وفاداری نہیں
کرتا ؟
لطف اندوزی
چھوٹی چھوٹی چیزوں سے لطف اندوز ہونا سیکھیں کیونکہ ایک دن جب آپ پیچھے مڑ
کر دیکھیں گے تو یہی چھوٹی چیزیں آپ کو بڑی نظر آئیں گی۔
سستی اور مصروفیت
ایک سست آدمی سب سے زیادہ مصروف ہوتا ہے ۔کس چیز کے ساتھ ؟محض اپنی سستی کے
ساتھ ۔
عظیم کام کا تصور
آپ اپنے کام میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک آ پ یہ نہ سمجھیں کہ
آپ دنیا کا ایک عظیم اور اہم کام سر انجام دےرہے ہیں۔
تبدیلی
دنیا میں ایک آدمی ایسا ہے جسے آپ ضروربدل سکتےہیں۔وہ آدمی آپ خود ہیں۔
دوبارہ غصہ
ایک جذباتی آدمی کو ایک ہی واقعے پر دو دفعہ غصہ آتا ہے ۔پہلی دفعہ دوسرے
آدمی پر اور دوسری دفعہ اپنےآپ پر ۔پہلی دفعہ وہ دوسرے آدمی سے نفرت کرتا
ہے جب غصے کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے اور دوسری دفعہ وہ اپنے آپ سے نفرت
کرتا ہے جب غصے کی آگ ٹھنڈی پڑ چکی ہوتی ہے ۔
غصہ
غصہ خطرے سے چند حروف کے فاصلے پر واقع ہوتا ہے ۔
صبر
صبر بذات خود بہت تلخ ہوتا ہے مگر اس کا پھل بہت میٹھا ہوتا ہے ۔
بڑے کام اور بڑے آدمی
بڑے کام بڑے آدمی کرتے ہیں اور بڑے آدمیوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ جس کام میں
ہاتھ ڈالتے ہیں اسے کرکے چھوڑتے ہیں۔
دو چیزیں
انسان کو دو چیزیں غیر محفوظ بناتی ہیں۔۱۔جذباتی پن ۲۔جلد بازی۔
کمزور اور مضبوط عقیدہ
کمزور عقیدے کا آدمی فقط قسمت پر یقین رکھتا ہےجبکہ مضبوط عقیدے کا آدمی
پہلے محنت پر اور پھر قسمت پر یقین رکھتا ہے ۔
خوشیوں میں اضافہ
اگر آپ اپنی خوشیوں میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی خواہشات کو کم
کرنا ہو گا ۔
محنت او رذہانت
مسلسل اور صحیح سمت میں کی گئی محنت اکثر ذہانت سے آگے نکل جاتی ہے ۔
کام اور آرام
دن کا اچھا کام رات کے اچھے آرام سے شروع ہوتا ہے ۔
خوشیوں کا منبع
خوشیاں کسی بازار سے نہیں ملتیں بلکہ یہ آدمی کے سوچ کے انداز میں پنہاں
ہوتی ہیں۔
منصوبہ بندی میں ناکامی
جب ہم نا کامی سے دو چار ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نا کام ہونے
کی منصوبہ بندی کرتے ہیں
بلکہ در حقیقت اس وقت ہم منصبوبہ بندی کرنے میں ناکام ہو جاتےہیں۔
دن کی بیداری اور رات کا تیل
اگر دن کے وقت آدمی کھلی آنکھوں ،حاضر دماغی اور منصوبہ بندی کے ساتھ جاگتا
رہے تو اسے رات کے قمقمے جلانے کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔
انسانی زندگی کا مستقبل
انسانی زندگی کا جزو مستقل"تبدیلی"ہے ۔
نزول تصورات
تصورات کا انسانی ذہن پر خود بخود نزول نہیں ہوتا بلکہ یہ عمل ایک منظّم
اور مرتکز سوچ اور کام میں ڈوب جانے کا نتیجہ ہوتا ہے ۔
زندگی سے تہی دست زندگی
جس طرح گودام میں پڑے ہوئے بیج میں زندگی تو ہوتی ہے مگر ہم اسے زندہ نہیں
کہہ سکتے ۔زندہ اسی وقت ہو گا جب زمین میں ڈالا جائے گا پانی ،روشنی اور
مناسب ماحول مہیا کیا جائے گا ۔بالکل اسی طرح دماغ میں پڑے ہوئے کسی تصور
(idea)میں زندگی تو ہوتی ہے مگر زندہ اسی وقت ہوتا ہے جب اسے قوت ارادی کی
حرارت ،فکر ونظر کی روشنی اور منصوبہ بندی کے ماحول میں عمل کے سانچے میں
ڈھلتا ہے۔
تخلیقی آپ بیتی
انگریزی کی ایک کتاب سے مجھے ایک تصور ملا کہ بچوں کی بابت والدین کے رویوں
پر ایک ایسی کتاب لکھی جائے جس میں بچہ والدین کو بتائے کہ اسکے ساتھ اسکے
والدین کس طرح سلوک کریں ؟۔چنانچہ مذکورہ تصور کو سامنے رکھ تربیت والدین
کے موضوع پر میں نے سوچنا شروع کر دیا ۔کچھ نکات تو مجھے اسی کتاب میں مل
گئے ۔مزید کی تلاش کےلیے بچوں کے رویوں کی بابت لکھی جانے والی کتب کا بغور
مطالعہ کرنا شروع کر دیا ۔وہاں سے بھی مجھے نکات مل گئے ۔ایک ماہ کے عرصہ
میں فقط چالیس نکات تیار کر پایا ۔اسکے بعد میں اپنے ہی بچوں کے رویوں کا
بغور مشاہدہ کرنا شروع کر دیا ۔اس دوران مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ شائد
میری تمام تر توجہات کا مرکزو محو رہی یہی موضوع ہے۔میرے ادارے کا فاصلہ
میرے گھر سے بذریعہ موٹر سائیکل تقریباً نصف گھنٹے کا ہے۔اس دوران بھی میری
سوچ وفکر پر یہی موضوع چھایا رہتا۔جو نہی کوئی موضوع سے متقل خیال یانکتہ
ذہن میں آتا میں فوراًموٹر سائیکل روک کر اسے اپنی ڈائری میں تحریر کر لیتا
۔رات کو سوتے ہوئے بھی یہی سوچ ذہن پر غالب رہتی ۔اگر کوئی نکتہ ذہن میں
آجاتا تو فوراًروشنی جلا کر اسے ضبط تحریر میں لے آتا ۔کہیں اکیلا ہوتا تو
تب بھی یہی موضوع ذہن کےآس پاس تصورات کی صور ت میں منڈلاتا ہوا نظر آتا
۔کہیں ہماری میاں بیوی کی بچوں کے سامنے نوک جھوک الفاظ کا روپ دھار کر
نکات کی صورت اختیار کر لیتی ۔کبھی بچوں کے ساتھ اپنایا گیا بے جا سخت رویہ
کسی مطلوب اور مفید تصور کی صور ت میں ڈھل جاتا ۔بس اسی عنوان کی گم گشتہ
جہتوں کو تلاش کرتے کرتے میں ایک سو نکات کی حدوں کو چھوڑ گیا ۔یہاں پر
ایسا محسوس ہوا کہ شائد موضوع کی تمام جہتوں کا احاطہ ہو چکا ہے ۔کچھ دن
مزید سوچ وبچار میں گزاردیئے مگر کچھ ہاتھ نہ آیا ۔چند احبا ب سے درخواست
کی کہ وہ مزید کچھ نکات کی تلاش میں میری مدد کریں ۔چنانچہ پانچ نکات کی
صورت میں احباب نے میرے ساتھ تعاون کیا ۔ انکے عطا شدہ پانچ نکات سے میں
چند مزید نکات اخذ کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔میرا ہدف دو سو نکات تک پہنچنے
کا تھاچند دن کےلیے نئے تصورات و نکات کی آمد کا سلسلہ رک سا گیا ۔اتفاقاً
ایک ضروری کام کے سلسلے میں لاہور جانا پڑا تو کتابوں کی ایک دوکان سے بچوں
کے رویوں کی بابت انگریزی میں لکھی ہوئی ایک کتاب مل گئی جس سے چند نکات
اور مل جانے سے سوچ وفکر رکی ہوئی گاڑی پھر سے چل پڑی ۔اب تک مجھے اس پاگل
پن کا شکار ہوئے چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا تھا ۔اب تو کئی دفعہ خواب میں بھی
اپنے آپ کو انہیں نکتوں کی تلاش میں سر گرداں پانے لگا ۔کتاب کے شکم میں اب
تک دو سو کے قریب نکات کے نوالے جا چکے تھے ۔اب میں اس مقام تک پہنچ چکا
تھا جہاں مسافر تھک کر دم توڑ نے والا ہو مگر منزل کے نشان امید کی کرن بن
کر پاؤں کو گھسیٹ کر منزل کے قریب کرنے کے لیے حوصلہ فراہم کر رہے ہوں ۔
چنانچہ کتابوں کی ورق گردانی کرتے ،بچوں اور والدین کے رویوں کا مطالعہ اور
مشاہدہ کرتے اورسوچ و فکر کے گھوڑے دوڑاتے دوڑاتے دو سو بیس نکات تک پہنچ
گیا اور ٹھیک د س ماہ کے عرصے میں میں الحمدُاللہ ایک منٖفرد ،جدت آمیز اور
دلچسپ کتاب لکھنے میں کامیاب ہو گیا ۔
کتاب کے مذکورہ بالا تصنیفی عمل کے دوران تحقیق و تخلیق کے درج ذ یل مدارج
سےمیں نے اپنے آپ کو گذارا۔
۱۔کتاب کو ایک مؤثر اور پر کشش عنوان دینےکےلیے مختلف رسائل و جرائد میں
شائع ہونے والی "سنابل العلم "کی ایک تربیتی تحریر بعنوان "سنیئے کیا آپ سن
سکتے ہیں "؟سے کسی حد تک مماثلت رکھنے والا عنوان سنیئے !آپ کا بچہ آ پ سے
کیا چاہتا ہے ؟رکھا گیا۔تحقیق و تخلیق میں بھی کسی ایک چیز سے لیے گئے تصور
کا اطلاق کسی دوسری چیز پر کر کے ایک نئی چیز تخلیق کی جاتی ہے۔
۲۔جب کسی تحقیقی وتخلیقی کا م کو ارتکاز توجہ ،دیانت داری اور کھُب کر کیا
جاتا ہے تو کام کی اور بہت سی جہتیں نمودار ہوتی ہیں۔مذکورہ عنوان کے تحت
کتاب لکھتے ہوئے میرے ذہن میں اسی قبیل کے اور بہت سے عنوان عود کر آئے
مثلاً سنیئے !آپ کا باس آپ سے کیا چاہتا ہے ؟،سنیئے!آپ کا شوہر آپ سے کیا
چاہتا ہے؟،سنیئے،آپ کی شریک حیات آپ سےکیا چاہتی ہے ؟،سنیئے !آپ کا شاگرد
آپ سے کیا چاہتا ہے؟ اور سنیئے ! آپ کا استاد آپ سے کیا چاہتا ہے ؟ وغیرہ
۔یہ عنوانات نئے ہیں اور ان پر ابھی تک اس انداز سے کسی نے کچھ نہیں لکھا ۔
۳۔اہلِ علم کی طرف سے حوصلہ افزا ردِّعمل ملنے پر میری خود اعتمادی میں بہت
زیادہ اضافہ ہوا اور اس بات کا احساس ابھر ا کہ دیگر مصنّفین کی طرح میں
بھی اچھی کتاب لکھنے کے قابل ہوں۔
۴۔شروع شروع میں لکھتے ہوئے بہت زیادہ غلطیاں ہوتی تھیں اور انہیں درست
کرنے اور جملوں کی نوک پلک سنوارنے میں کافی وقت لگتا تھا مگر اب خدا کے
فضل سے تحریر میں پہلے کی نسبت روانی محسوس ہوتی ہے اور لکھتے ہوئے غلطیاں
بھی کم سر زد ہوتی ہیں ۔
۵۔علمی حلقوں میں میں عزّت وتوقیر میں اضافہ محسوس کر کے ایک طرح کا روحانی
سکون سا محسوس ہوتا ہے مگر ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی دھڑ کا لگا رہتا ہے کہ
کہیں ان احساسات کی وجہ سے میری خدا خوفی کی کیفیت ماند نہ پڑ جائے ۔لوگوں
کی طرف سے میری ان تحریری کاوشوں کو مسترد کئے جانے کا خوف پہلے کی نسبت
کافی کم محسوس ہونے لگا ہے ۔
۶۔اب میں پہلے کی نسبت زیادہ مؤثر انداز میں سوچتا ہوں اور زیادہ ارتکاز
توجہ کے ساتھ اپنے خیالات کو الفاظ کے سانچے میں ڈھالتا ہوں۔اور جب میں
لکھنے بیٹھتا ہوں تو بعض اوقات دائیں بائیں ہونے والی سر گرمیوں کا پتہ ہی
نہیں چلتا ۔لکھنے کے بعد ذہنی تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے مگر ایک طرح کا احساس
طمانیت اس پر غالب رہتا ہے ۔ان کے علاوہ قلب و ذہن کی اور بہت سی وارداتوں
نے میرے تحریر و تحقیق کے جذبے کو مزید اشتیاق کی جلا بخشی ۔یہ کمائی ہے جو
ان مراحل سے گزرتے ہوئے ناچیز نے کی ۔
گاڑیوں کے ماڈل اور زندہ دماغ
کمپنیاں ہر سال گاڑیوں کے ماڈل کیوں بدلتی ہیں؟در اصل وہ ثابت کرنا چاہتی
ہیں کہ ان کی تیار کردہ گاڑیوں کے پیچھے زندہ ،متحرک ،تحقیقی ،تخلیقی اور
جدت پسند دماغوں کی قوّت کا رفرما ہے ۔
باس اور ماتحت
اگر آپ باس نہیں بن سکتے تو اچھے ماتحت بن کر باس بننے کی تربیت حاصل کر
لیں مگر حسد کو قریب نہ پھٹکنے دیں۔
چیونٹی اور کامیابی
اگر آپ کو کامیابی کا راستہ معلوم نہیں ہے تو چیونٹی کے پاس جائیں ۔وہ آپکو
بتا د ے گی۔
دماغوں کے استعمال کا مقابلہ
ذہنی صلاحیتوں کی پیمائش کرنے والے ماہرین کے مطابق ابھی تک انسان نے اپنی
ذہنی صلاحیتوں کا صرف دس فیصد استعمال کیا ہے ۔پانچ فیصد تک اپنی ذہنی
صلاحیتوں کا استعمال کرنے والوں نے دنیا کو ورطہءحیرت میں ڈال دیا ہے ۔دنیا
میں مقابلہ دراصل ذہنی صلاحیتوں کے استعمال کا ہے ۔جن افراد اور قوموں نے
ان کو زیادہ استعمال کیا وہ کامیاب اور ترقی یافتہ بن گئیں اور جنہوں نے کم
استعمال کیا وہ پیچھے رہ گئیں ۔قرآن بار بار لوگوں کو اپنے دماغوں کو
استعمال کرنے کی دہائی دیتا ہے ۔غیر مسلم اقوام نے تو قرآن کی یہ بات مان
کر ترقی کر لی مگر مسلم اقوام ابھی تک قرآن کی اس دہائی پر کان دھرنے
کےلیے آمادہ نظر نہیں آتی ۔ ذرا سوچیں کہ جو قوم مقابلے پر ہی نہیں اترتی
وہ کامیابی کے خواب کیسے دیکھ سکتی ہے ؟
دعا
اے خدائے ذوالجلال ۔مجھے اپنے آپ کو اس طرح سے دیکھنے کی توفیق عطا فرما جس
طرح سے لوگ مجھے دیکھتے ہیں ۔
چیونٹی اور انسان
ماہرین حیاتیات کے مطابق چیونٹی کو اللہ تعالیٰ نے سوچنے والے چند سو خلیے
عطا کیے ہیں جن کو استعمال کر کے وہ خوراک جمع کرتی ہے اور دیگر معاملات
زندگی انجام دیتی ہے۔اگر اسکی زندگی میں کوئی چیلنج در پیش ہو تو انہی
خلیوں کو استعمال کر کے اپنے مقصد کی خاطر ڈٹ جاتی ہے ۔بار بار گرتی ہے اور
بالاآخر دیوار پر چڑھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے ۔مگر ایک انسان کو اللہ نے
ایک سو بیس کھرب غورو فکر کرنے والے خلیے عطا کیے ہیں اتنے بڑے فکری
پوٹینشل اور صلاحیتوں کے پاور ہاؤس کے ہوتے ہوئے بھی یہ بڑے بڑے چیلنجوں کا
مقابلہ کرنے سے گھبراتا ہے ۔کیا یہ فکری پوٹینشل اور صلاحیتوں کے پاور ہاؤس
مسلمانوں کے پاس نہیں ہیں؟کیا انکے دانشوروں کے دماغوں میں خدا نے سوچنے
سمجھنے والے خلیے دیگر اقوام کے دانشوروں سےکم رکھے ہیں ؟اگر اسکا جواب ہاں
ہو تو قصور خدا کا ہے اگر نہیں تو پھر آپ ہی بتا دیجئے کہ قصور کس کا ہے ؟۔
دراصل جو سوچنے سمجھنے والے خلیے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہوںوہ کسی
صورت بھی کام کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔جب جسم غلام ہوں تو یہ خلیے کام کرتے
رہتے ہیں مگر جب ذہن غلام ہوں تو یہ خلیے اپنی موت آپ مر جاتے ہیں ۔جو قوم
خدا کی عطا کردہ اتنی عظیم صلاحیتوں بروئے کار نہیں لاتی فکری طور پر مفلوج
اس قوم پر خدا کا عذاب ضرور آتا ہے۔چیلنجوں کا مقابلہ زندہ لوگ کرتےہیں
مردہ نہیں ۔
عادت کی زنجیریں
عادت کی زنجیریں آغاز کار میں عموماًچھوٹی اور کمزور محسوس ہوتی ہیں مگر
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اتنی طاقتور اور مضبوط ہو جاتی ہیں کہ جنہیں توڑنا
پھر انسانی بس سے باہر معلوم ہوتا ہے ۔کیونکہ عادت کی اگر آغاز کا ر میں
مزاحمت نہ کی جائے تو وہ انسان کے دل ودماغ اور جسم کی ضرورت بن جاتی ہے
جسے چھوڑا تو جا سکتا ہے مگر مذکورہ اعضاء کو قابو میں رکھنے کی قیمت پر ۔
سوچنے اور کام کرنے کا انداز
اگر آپ کے سوچنے اور کام کرنے کا انداز وہی ہے جو پہلے تھاتو نتائج پہلے سے
مختلف کیسے ہو سکتے ہیں؟
سوچ اور انسان
انسان وہی کچھ ہوتا ہےجو کہ وہ اپنے بارے میں سوچتا ہے ۔تو پھر کیوں نہ سوچ
کو اعلیٰ وار فع رکھاجائے؟
عظیم لوگ
عظیم اور کامیاب لوگ ہمیشہ سیکھنے کےلیے آمادہ رہتے ہیں ۔
اختلاف اور اتفاق
ہم ان باتوں پر تو لڑتے جھکڑتے ہیں جن پر ہمار ااختلاف ہےمگر ان باتوں پر
اکٹھے کیوں نہیں ہوتے جن پر ہمار ااتفاق ہے ؟
نئے تصورات
غورو فکر سے نئے تصورات جنم لیتے ہیں اور نئے تصورات ہی نئی دنیا ئیں
دریافت کرتےہیں ۔
عزت اور کامیابی
عزت کے بغیر کامیابی انسان کی بھوک تو مٹا دیتی ہے مگر اس کا ذائقہ اچھا
نہیں ہوتا ۔
باپ اور بیٹا
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باپ کو غلط سمجھنے والے بیٹے کو احساس ہو جاتا ہےکہ
اس کا باپ ٹھیک کہتا تھا ۔
آپ کہیں بھی جا سکتے ہیں
جب آپکے سامنے کوئی مقصد نہ ہو یا بہت سے مقاصد ہوں تو آپ کہیں بھی جا
سکتے ہیں۔ فطرت کے راز ۔فطرت انسان پر اپنے راز ضرور ظاہر کرتی ہے مگر اس
کا انحصار اس بات پر ہے کہ انسان فطرت سے کس انداز میں اظہار راز کےلیے
سوال کرتا ہے ؟
دعا اور اسکا جواب
خدا کی طرف سے دعا کا جواب فقط اس وقت ملتا ہے جب ہم حصول مقصد کےلیے کام
کر رہے ہوتے ہیں ناکہ دعاکے وقت۔
زندگی کو سمجھیے
زندگی کو فقط گزارئیے ہی نہیں ۔سمجھیے بھی ۔
زندگی کا مفہوم
اگر آپ وہ درخت لگا رہے ہیں جس کا پھل کھانے اور چھاؤں میں بیٹھنے کی آپ
کو توقع نہیں ہے تو سمجھ لیجئے کہ آ پ نے زندگی کے مفہوم کو سمجھ لیاہے ۔
وسیع الظرف یا خالی الظرف
انسان کو وسیع الظرف ہونا چاہیے ناکہ خالی الظرف۔
سیکھنے کا اصول
جب میں سنتا ہوں تو بھول جاتا ہوں ۔
جب میں دیکھتا ہوں تو یاد رکھتا ہوں ۔
اور جب میں کرتا ہوں تو سمجھ جاتا ہوں ۔
قوانین فطرت
انسان فطرت کے قوانین کو نہیں توڑ سکتا ۔ہاں جو کوئی ایسا کرنے کی کوشش
کرتا ہے وہ ان سے ٹکرا کر خود پاش پاش ہو جاتا ہے۔مثلاًایڈز۔
کل کا خوف
آنے والے کل سے مت گھبرائیے ۔وہاں بھی وہی خدا ہو گا جو آج ہے ۔
ماضی سے سبق
ماضی سے سبق ضرور سیکھیں مگر اس میں رہیں نہیں ۔
پیچھے کی جانب قدم
زندگی کی جنگ میں بعض اوقات ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے ۔شکست کے لیےنہیں
بلکہ آگے بڑھنے کی خاطر۔ مزید توانائی اور مومینٹم حاصل کرنے کےلیے
قسمت اور صلاحیت
فقط قسمت پر ہی انحصار کرنا اور اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو نظر انداز
کر دینابے وقوفی ہے تو کل نہیں۔
تیاری اور آغاز
کام کے لیے تیار رہنے اور کام کا آغاز کرنے میں بڑا فرق ہے۔ بہت سے لوگ
ساری زندگی کام کی تیاری میں ہی گزار دیتے ہیں۔
نیا تصور
ایک نئے تصور کو بعض اوقات لوگ مضحکہ خیز اور ناقابل عمل سمجھ کر مسترد کر
دیتے ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ وہی تصور کسی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو
جاتا ہے ۔
نئے تصورات اور پرانے حسد
غورو فکر نئے تصورات کی تلاش کا نام ہے ۔نہ کہ پرانے حسدوں کی تنظیم نو کا
کردار اور ساکھ
انسان کو اپنی ساکھ سے زیادہ اپنے کردار کی فکر دامن گیر ہونی چاہیے۔ جو
کچھ آپ حقیقت میں ہیں وہ آپ کا کردار ہے مگر جو کچھ آپ کو لوگ سمجھتے
ہیں وہ آپ کی ساکھ ہے۔ |