حقیقت میلاد النبی - چھتیسواں حصہ

اَئمہ تفسیر کے نزدیک فضل و رحمت کا مفہوم:-

گزشتہ آرٹیکلز میں سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 کی تفسیر بالقرآن کے تحت سورۃ الجمعۃ کی آیات کی تفسیر و توضیح کے بعد اب ہم ذیل میں سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں مذکور الفاظ۔ فضل اور رحمت۔ کی تفسیر اور توضیح و تشریح چند مستند ائمہ تفاسیر کی آراء کی روشنی میں بیان کریں گے تاکہ نفسِ مضمون زیادہ بہتر طور پر سمجھا جا سکے :

1۔ علامہ ابن جوزی (510۔ 579ھ) سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما کا قول نقل کرتے ہیں :

إن فضل اﷲ : العلم، ورحمته : محمد صلي الله عليه وآله وسلم. رواه الضحاک عن ابن عباس.

’’ضحاک نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے روایت کیا ہے کہ بے شک ’’فضل اﷲ‘‘ سے مراد علم (یعنی قرآن) ہے، اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘

ابن جوزي، زاد المسير في علم التفسير، 4 : 40

2۔ ابوحیان اندلسی (682۔ 749ھ) ضحاک کے حوالے سے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کی روایت نقل کرتے ہیں :

وقال ابن عباس فيما روي الضحاک عنه : الفضل : العلم، والرحمة : محمد صلي الله عليه وآله وسلم.

’’ضحاک نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل سے مراد علم (یعنی قرآن) اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘

ابوحيان، تفسير البحر المحيط، 5 : 171

3۔ امام سیوطی (849۔ 911ھ) نے بھی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مذکورہ بالا قول نقل کیا ہے :

وأخرج أبو الشيخ عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما في الآية، قال : فضل اﷲ : العلم، ورحمته : محمد صلي الله عليه وآله وسلم. قال اﷲ تعالي : (وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ)(1) - (2)

’’ابو شیخ نے اس آیت کے بارے میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل اﷲ سے مراد علم (یعنی قرآن) ہے، اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے : (اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر)۔‘‘

(1) الأنبياء، 21 : 107
(2) سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالمأثور، 4 : 330

4۔ علامہ آلوسی (1217۔ 1270ھ) بیان کرتے ہیں :

و أخرج أبو الشيخ عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما أن الفضل العلم والرحمة محمد صلي الله عليه وآله وسلم، وأخرج الخطيب وابن عساکر عنه تفسير الفضل بالنبي عليه الصلاة والسلام.

’’ابو شیخ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا ہے کہ فضل سے مراد علم ہے اور رحمت سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ خطیب اور ابن عساکر نے ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے نقل کیا ہے کہ فضل سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘

آلوسي، روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 11 : 141

مذکورہ تفاسیر سے واضح ہوتا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما فضل سے مراد العلم لیتے ہیں اور العلم سے مراد قرآن حکیم ہے جس کی تائید درج ذیل آیت سے ہوتی ہے :

وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًاO

’’اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہےo‘‘

النساء، 4 : 113

اگر فضل سے مراد علم یا قرآن حکیم لیں تو پھر بھی اس کا ضمنی مفہوم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جن کے واسطے سے ہمیں قرآن مجید ملا۔ امام المفسرین جلیل القدر صحابی حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کا یہ قول۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی اﷲ کا فضل اور سر تاپا اس کی رحمت ہے۔ سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں مذکورہ اَلفاظ۔ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ۔ کے مفہوم کو جشنِ میلاد کی خوشیاں منانے کے حوالے سے اُجاگر کرتا ہے۔ جشنِ میلاد کو عید مسرت کی حیثیت سے منانے کو اﷲ کے فضل و رحمت پر خوشی و مسرت کے اظہار کا ذریعہ گردانا گیا ہے اور اس کا ذکر اس قرینے اور شدّ و مد سے کیا گیا ہے کہ کوئی صاحبِ فکر مسلمان اس بات سے انکار نہیں کرے گا۔ مذکورہ بالا عباراتِ تفاسیر نے فضل و رحمت کے معانی اس طرح کھول کر بیان کر دیے ہیں کہ اس کے اَسرار و رموز بالکل عیاں ہوگئے ہیں، اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل و رحمت پر مسرتوں اور شادمانیوں کی صورت میں جشنِ عید منانا منشائے خداوندی ہے۔

علامہ طبرسی (م 548 ھ) نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے :

ومعني الآية قل لهؤلاء الفرحين بالدنيا المعتدين بها الجامعين لها إذا فرحتم بشيء فافرحوا بفضل اﷲ عليکم ورحمته لکم بإنزال هذا القرآن وارسال محمد إليکم فإنکم تحصلون بهما نعيمًا دائمًا مقيمًا هو خير لکم من هذه الدنيا الفانية. . . . عن قتادة ومجاهد وغيرهما قال أبو جعفر الباقر عليه السلام : (فَضْلُ اﷲِ) رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.

’’اس آیت کا معنی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ارشاد فرما رہا ہے کہ آپ ان لوگوں سے کہہ دیں جو دنیا کی خوشیوں میں مگن اور اس کے ذریعے (دوسروں پر) ظلم و زیادتی کرنے والے اور ہر وقت اس کو جمع کرنے والے ہیں کہ اگر تم کوئی خوشی منانا ہی چاہتے ہو تو اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت پر جشنِ مسرت مناؤ جو نزولِ قرآن اور ولادت و بعثتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں تمہیں عطا ہوئے ہیں۔ پس بے شک تم ان دونوں (نزولِ قرآن اور ولادت و بعثتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خوشی منانے) کے بدلے میں ہمیشہ قائم رہنے والی نعمت (جنت) حاصل کرو گے جو تمہارے لیے اِس فانی دنیا سے بہت بہتر ہے۔ ۔ ۔ ۔ حضرت قتادہ اور مجاہد کے علاوہ دوسرے علماء سے بھی روایت ہے کہ امام ابو جعفر محمد الباقر علیہ السلام نے فرمایا : اللہ کے فضل سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘

طبرسي، مجمع البيان في تفسير القرآن، 5 : 177، 178

تفاسیر میں بیان کیے گئے تمام معانی، ان کے رموز اور ضمنی تشریحات و تعبیرات سے یہی مفہوم اَخذ ہوتا ہے کہ اﷲ بزرگ و برتر نے جو نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سب سے بڑی نعمت جو اُس کے فضل اور رحمت کی صورت میں نازل ہوئی وہ قرآن اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جشنِ مسرت و شادمانی منانے کے قابل صرف دو چیزیں ہیں : ایک قرآن کا نزول اور دوسرا ولادتِ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس پر فرمان اِلٰہی۔ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ۔ حجت ہے۔ اگر کوئی خوشی منانی ہے تو اس رسولِ محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کے دن سے زیادہ اور کوئی دن اس کا حق دار و سزاوار نہیں۔

مولانا اَشرف علی تھانوی کا نقطہ نظر:-

ہاں ضمنًا ایک مکتبہ فکر کے معروف عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی (1280۔ 1362ھ) کے نقطہ نظر سے بھی آگاہی حاصل کر لینا زیر نظر موضوع کی وضاحت کے لیے ضروری ہے۔ جیسا کہ اس سے قبل بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ رحمت اور فضل سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں چنانچہ اس سلسلہ میں مولانا موصوف نے بجا طور پر اپنی تقاریر سے مرتب شدہ کتاب ’’میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ بلااِختلاف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت اور اس کا کامل ترین فضل ہیں۔ اس لیے اس آیہ کریمہ سے بدلالۃ النص یہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے کہ یہاں رحمت اور فضل سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں جن کی ولادت پر اﷲ تعالیٰ خوشی منانے کا حکم دے رہے ہیں۔ پھر اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں کہ جو نعمت تمام دنیوی اور دینی نعمتوں کی اصل اور ان کا سر چشمہ ہے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہے۔ (1)

(1) مولانا اشرف علی تھانوی متذکرہ بالا آیات قرآنی میں فضل اور رحمت کی اصل مراد قرآن کو قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں :

’’اب قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر دیکھنا چاہئے کہ ان دونوں لفظوں (فضل اور رحمت) سے کیا مراد ہے؟ تو جاننا چاہیے کہ قرآن مجید میں یہ دونوں لفظ بکثرت آتے ہیں۔ کہیں دونوں سے ایک معنی مراد ہیں اور کہیں جدا جدا۔ چنانچہ ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

فَلَوْلاَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُـنْـتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَO

’’پس اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم یقیناً تباہ ہو جاتےo‘‘

البقره، 2 : 64

’’یہاں اکثر مفسرین کے نزدیک فضل اور رحمت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود باجُود مراد ہے۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہے :

وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لاَتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلاَّ قَلِيلاًO

’’اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی تو یقیناً چند ایک کے سوا تم (سب) شیطان کی پیروی کرنے لگتےo‘‘

النساء، 4 : 83

’’اور یہاں بھی بقول اکثر مفسرین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی مراد ہیں۔

’’بعض آیات میں فضل سے مراد ہے : رحمتِ دنیوی اور رحمت سے رحمتِ دینی مراد ہے۔ پس مجموعہ تمام تفاسیر کا دنیوی رحمتیں اور دینی رحمتیں ہوا۔

مولانا اشرف علی تھانوی مزید لکھتے ہیں :

’’اس مقام پر ہر چند کہ آیت کے سباق پر نظر کرنے کے اعتبار سے قرآن مجید مراد ہے لیکن اگر ایسے معنی عام لیے جائیں کہ قرآن مجید بھی اس کا ایک فرد رہے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ وہ یہ کہ فضل اور رحمت سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدوم مبارک لیے جائیں۔ اس تفسیر کے موافق جتنی نعمتیں اور رحمتیں ہیں خواہ وہ دینی ہوں یا دنیوی اور ان میں قرآن بھی ہے سب اس میں داخل ہو جائے گی۔ اس لیے کہ حضور کا وجود باجود اصل ہے تمام نعمتوں کی اور مادہ ہے تمام رحمتوں اور فضل کا۔ پس یہ تفسیر اَجمع التفاسیر ہو جائے گی۔ پس اس تفسیر کی بنا پر اس آیت کا حاصل یہ ہوگا کہ ہم کو حق تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود باجود پر خواہ وجودِ نوری ہو یا ولادتِ ظاہری، اس پر خوش ہونا چاہئے۔ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے تمام نعمتوں کے واسطہ ہیں۔ (دوسری عام نعمتوں کے علاوہ) افضل نعمت اور سب سے بڑی دولت ایمان ہے جس کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم کو پہنچنا بالکل ظاہر ہے۔ غرض اصل الاصول تمام مواد فضل و رحمت کی حضور کی ذات بابرکات ہوئی۔ پس ایسی ذات بابرکات کے وجود پر جس قدر بھی خوشی اور فرح ہو کم ہے۔‘‘

اشرف علي تهانوي، خطبات ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 63 - 65

اگر کسی نے فضل اور رحمت الٰہی کو صورۃً اور تمثیلاً دیکھنا ہو تو وہ حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ لے جن کو اللہ نے اپنا سراپائے فضل اور رحمت بنا دیا ہے۔ اس لیے کہ رحمت اور فضل ایک ہی ذات، ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مرتکز ہوگئے ہیں جو بلاامتیازِ زمان و مکان سب کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ پس اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ فَلْیَفْرَحُوْا کاحکم سب مسلمانوں کے لیے ہے۔ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ورودِ مسعود پر جشنِ مسرت و شادمانی منانا چاہئے اور اس موقع پر شرعی حدود و قیود کی پاس داری کرتے ہوئے جس قدر بھی خوشی کی جائے جائز ہوگی۔

جاری ہے۔۔۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 95642 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.