کثیر ا لاولادی (زیادہ بچوں ) کے فوائد او ر نقصانات

ایک زمانہ تھا کہ جب ہر گھر میں دس سے بارہ بچوں کے پیدا کرنے کا رواج عام تھا اور پھر بھی ہر طرف خوشحالی تھی۔ اس زمانے میں کوئی کسی سے حال چال نہیں پوچھتا تھا، بلکہ یہ پوچھتا تھا کہ سناؤ کتنے بالک یعنی بچے ہو چکے؟ اگر کسی کی گنتی دس سے کم ہوتی تو بڑا افسوس کا اظہار کیا جاتا اور میاں بیوی کی طبیعت ، صحت کے بارے میں مختلف خدشات اور شکوک و شبہات کا اظہا ر کیا جاتا ۔ بہرحال! اب یہ زمانہ آگیا ہے دو سے چار بچوں پر آ کر پاکستانی قوم یوں ہمت ہار بیٹھتی ہے جیسے کہ آجکل ہماری کرکٹ ٹیم آسٹریلیا میں یا خان صاحب دھرنے میں، یا پھر میرا صاحبہ۔۔؟ ۔ ہمارے ایک مرحوم انکل کے تو اس زمانے میں بھی اٹھارہ بچے تھے اور بیچارے موصوف پھر بھی نئیوں کی تلاش میں رہتے تھے۔ اگر زندگی وفا کرتی تو اس میں لازمی اضافے کی توقع تھی۔ اب دیکھتے ہیں کہ زیادہ بچوں کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں۔

فوائد:اگر آپ کے دس یا زائد بچے ہیں تو ان کے بڑے ہونے کے بعد آپ کو کمانے اور گھر چلانے کی کوئی فکر نہیں۔ کسی کو ویلڈنگ کی دکان پر چھوڑ دیں، کسی کو سائیکل کی دکان پر، کسی کو بجلی والے کی دکان پر، کسی کو ہوٹل پر، کسی کو کہیں اور کسی کو کہیں اور پھر گھر بیٹھے انکی کمائی کھائیں اور دونوں میاں بیوی مزے اڑائیں۔ زیادہ بچے ہوں تو جب دل کرے آپس میں میچ کھیلیں کسی کے انتظار کی زحمت نہ کرنا پڑے۔ہمت ہے تو کچھ بچے باہرکے ملک بھیج دیں اور خود بابر کی طرح عیش کوش کریں۔ کوئی لڑنے بھڑنے آئے تو اپنے پہلوان ایک ایک کر کے آگے کر دیں، کوئی پاس بھی نہ پھٹکے گا۔ہے نہ فائدہ۔ ہندوستان میں کٹر ہندو تنظیم شیو سینا نے زیادہ بچے پیدا کرنے پر انعام کا اعلان کر دیا ہے۔۔۔۔ کوئی فائدہ ہوگا تو تبھی نہ!۔۔۔ کسی باپ کے دس بارہ بچے دیکھ کر ویسے ہی کوئی پاس نہیں پھٹکتا کہ ایک ایک ڈانگ بھی ایک نے ماری تو اگلوں کا کچومر نکل جائیگا۔اسکے علاوہ یہ کہ ہر ٹریڈ یعنی ہر ہنر میں ایک ایک بندہ د ے دیں گھر کے تمام افراد اسی میں کھپ جاتے ہیں۔ہمارے ایک جاننے والے کے خیر سے دس ہٹے کٹے بچے ہیں اور وہ خود بھی بیٹوں میں بیٹھے بیٹوں کی طرح ہی لگتے ہیں۔ کہتے ہیں مجھے کچھ فکر نہیں کہ ہر بچے کے ذمے پانچ ہزار ماہانہ لگا رکھے ہیں تو ماہانہ پچاس ہزار تو ایویں ہی جمع ہو جاتے ہیں انہیں کچھ کرنے کی کیا ضرورت؟۔کچھ عرصہ پہلے ایک پاکستانی نژاد عرب شیخ کا انٹرویو اخبار میں پڑھا تھا کہ خیر سے موصوف کے سو کے قریب بچے اور دسیوں بیگمات تھیں اور سب سے چھوٹی بیوی کی عمر مبارک صرف بائیس سال تھی اور خود موصوف پچاس سے بھی اوپر کے تھے ۔ کہتے ہیں کہ بچے جوں جوں بڑے ہوتے ہیں تو چھوٹے بچوں کا خرچہ بڑے بچوں پر ڈال دیتا ہوں، کچھ سرکار مدد کر دیتی ہے ۔ یو ں انکا کام چلتا رہتا ہے۔ کیوں بھائی لوگو۔۔آپکی رال کیوں ٹپک پڑی پڑھ کر ؟ با ؤ جی یہ ہر کسی دا کم نئیں کہ دس بیگمات اکھٹی رکھے ۔ ویسے اگر آپنے بچوں کے مزید فائدے پوچھنے ہیں تو ان سے پوچھیں کی جن کے شادی کے بعد بھی برسوں تک اولاد نہیں ہوتی اور وہ ایک بچہ لینے کے لیے ہر در پر جاتے ہیں، پر انکی مراد پوری نہیں ہوتی۔ ہمارے ایک جاننے والے کے ہاں بچے نہیں ہوتے تھے تو بیچارے ٹیسٹ ٹیوب بے بی جو کہ اسوقت نئی نئی ایجاد ہوئی تھے، امریکہ گئے ،وہاں سے چھ ماہ بعد بچہ لیکر ملک آئے تو انہیں سکون آیا۔ پر مریں وہ ظا لم ، اﷲ پاک انہیں غارت کرے کہ کراچی میں ظالموں نے اس نوجوان کو اغوا برائے تاوان میں مار ڈالا اور وہ لاکھوں میں پڑا بچہ اب اﷲ کے پاس ہے۔اﷲ کی مرضی۔ ایک اور فائدہ زیادہ بچوں کا یہ ہے کہ اگر ایک کماؤ پوت نہ رہے تو اﷲ پاک کسی نہ کسی ایک کو کماؤ بنا کر گھر کا خرچ چلاتے رہتے ہیں۔ اسکے علاوہ بچوں کا کچھ تو فائدہ ہوگا تبھی تو انجلینا جولی اپنی کوکھ سے بچے نہیں جنتی دنیا بھر سے بچے خرید کر پالتی ہے۔ کوئی تو فائدہ ہوگا ۔ کچھ نہ سہی مصنوعی ممتا کو ہی قرار آجاتا ہوگا۔ اسکے علاوہ دیکھیں کہ آجکل کوکھ کرایہ پر دینے کا بھی چکر چلا ہوا ہے ، خاص طور سے پڑوسی ملک میں۔ یعنی نطفہ کسی اور مرد کا اور پیٹ یعنی کوکھ کسی کرایہ کی عورت کی، بچہ پیدا ہو تو مرد کا کوئی مسئلہ ہو ا تو کرایہ کی عورت کا نقصان ۔ اپنی بیوی کو سمارٹ رکھنے کے چکر میں پرائی عورتوں سے بچے جنواتے ہیں شیم آن دیم۔ کرایہ کی عورت پورے سال بچے کو پیٹ میں رکھنے کا خرچہ لیتی ہے اور بچہ دیتی ہے۔ کیسی بے شرمی ہے نہ۔ ویسے انہیں بھی کچھ تو فائدہ ہوگا نہ اتنا پیسا لگا کر بچے لینے کا؟اسکے علاوہ بھی انٹر نیٹ پر بچے فور سیل تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ ایک مشہور انڈین اداکار نے بھی سنا ہے کہ کچھ ایسا ہی کام کیا ہے اپنی بیوی کو سمارٹ رکھنے کے چکر میں۔ آپکے خیال میں کیا یہ سراسر بے حیائی اور ظلم نہیں؟

اسکے علاوہ بات بچوں کی چلی تو ہمارے عربی شیخ لوگوں کے تو اتنے بچے ہوتے ہیں کہ انہیں خود بھی پتہ نہیں ہوتاکہ کتنے بچے اور کس حال میں ہیں۔سینکڑوں کے حساب سے بچے آیاؤں کے بل پر جی رہے ہوتے ہیں۔ بوجوہِ روزگار شیخوں کے ملک میں رہتے اکثر دیکھا کہ ہر شیخ کے پیچھے درجن بھر بچوں کا ریوڑ اور آیائیں ساتھ ہوتی تھیں۔ کوئی تو فائدہ ہوگا نہ یار جو اتنے بچے پیدا کرتے ہیں۔؟

اگر ہم کثیر الاولادی کے نقصان کی بات کریں تو یہ بھی بہت ہیں: مثلا یہ کہ انکے کھانے پینے کے اخراجات اٹھانا مشکل۔ کپڑے لتے بنانا مشکل، پڑھانا لکھانا مشکل ، شادی بیاہ، دیگر اخراجات مشکل۔ غرضیکہ ہر جگہ مشکل ہی مشکل۔پھر جب بچوں کے پاس کھانے اور پہننے کو نہ ہو تو وہ چوریاں کریں گے ، ڈاکے ماریں گے تو ظاہر ہے کہ نقصان۔ باپ بھی جیل جا سکتا ہے ، لہذا خطرہ ۴۴۰ وولٹ ۔ ہمارے پرانے محلے میں ایک بہت ہی غریب آدمی تھا، کام اسکا فروٹ بیچنا تھا، پر ہر سال اسکے گھر سے ڈبل ماڈل بر آمد ہوتا تھا۔ ایک روز میں نے اپنی گھر والی سے کہا کہ کسی روز اس مظلوم کا دیدار تو کر کے آؤ کہ کیسی ہوتی ہیں وہ خواتین جو درجنوں بچے جنتی ہیں ، اورپھر بھی فٹ رہتی ہیں ۔ بعد از وزٹ جو رپورٹ ملی وہ لیکھت کے قابل نہیں۔ she was in very miserable condition.۔ اور مرنے کے قریب تھی، ہے نہ نقصان۔ چین اور جاپان کم اولادی کی وجہ سے پریشان ہیں اور جاپان مین پاور امپورٹ کرنے کے چکر میں رہتا ہے۔ ہے نہ نقصان ۔ اسکے علاوہ زیادہ بچوں کے اور بھی بہت سے نقصان ہیں مثلا: نام یاد نہ رہنا، کام یاد نہ رہنا۔ باپ کا کما کام کر ستیا ناس ۔ بیوی کا پکا پکا اور کھلا کر ستیا ناس۔ بعض دفعہ تو میاں بیوی صرف اسی چکر میں اوپر کو ہوا ہو جاتے ہیں اور اولاد پیچھے رل رہی ہوتے ہے۔ نہ کوئی پوچھنے والا، نہ کوئی کھلانے پلانے والا۔ مزید یہ کہ ایک کے لیے کوئی چیز لاؤ تو ساروں کے لیے لاؤ۔ اگر ایک کے لیے نہیں تو کسی کے لیے بھی نہیں، وغیرہ وغیرہ۔نقصان تو اسکے اور بھی بہت سے ہیں پر سارے لکھ دیے تو ایسا نہ ہو کہ لوگ بچے بالکل ہی پیدا کرنا چھوڑ دیں۔اکثر آپ لوگوں نے اخباروں میں پڑھا ہوگا کہ کوئی ماں باپ بچوں کو ایدھی سنٹر چھوڑ گئے کہ خرچہ نہیں اٹھا سکتے۔ کو ئی بچے فار سیل کے بورڈ لیکر کھڑا ہو جاتا ہے کہ مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے بچوں کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہے وغیرہ وغیرہ۔ لہذا نقصانا ت بھی بہت ہیں۔اسکے علاوہ زیادہ بچوں کے باپ کو راہ چلتے لوگ مختلف آوازیں بھی کستے ہیں مثلا: ابے دیکھیو یار اسکے بارہ بچے ہیں پھر بھی بس نہیں کرتا۔ ابے یار دیکھ اسکی بیوی تو بہت مظلوم عورت ہو گی دنیا کی۔ ابے یار دیکھ ہر سال ایک سیمپل آتا ہے اسکے ہاں، جیسے بیچارہ خود یہ بچے جنتا ہو؟ پھر ایک اور آواز آئیگی کہ ابے یار یہ میاں بیوی تو دنیا میں ہی بخشے گئے اولاد کے دکھ سہہ سہہ کے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور اس شخص بیچارے کی بیوی بچے پیدا کر کر کے چڑیل سے بھی بد تر ہو چکی ہوتی ہے۔ اسکا بس چلے تو گھر سے بھاگ کر قبر میں جا لیٹے۔

کچھ لوگ ہوتے ہیں جو شادی اور اور بعد از شادی کے بچوں کے اس جھنجٹ میں ہی نہیں پڑتے۔ جس میں ہمارے کچھ مشہور سیاستدان، اداکار اور کھلاڑی بھی شامل ہیں۔ کہتے ہیں کہ بغیر بچوں کے بھی اچھی گزر رہی ہے۔ پتہ نہیں کیسے یہ بے وقوف لوگ ہیں جو بغیر بچوں کے رہ لیتے ہیں؟؟ہمیں تو گھر میں داخل ہوتے ہی بچے نظر نہ آ ئیں تو پریشانی سی لاحق ہو جاتی ہے۔ آپ لوگوں کا پتہ نہیں کیا ہوتا ہوگا؟

ایک کہاوت سب لوگ یاد رکھیں کہ باپ کی موجودگی سورج کی طرح ہوتی ہے۔ سورج گرم ضرور ہوتا ہے، مگر نہ ہو تواندھیرا چھا جاتا ہے۔ اس کہاوت کی لکھنے میں بہت بڑی بات پوشیدہ ہے، بوجھو تو جانیں؟ اسکے علاوہ ایک اور اچھی بات جو کہ انگلش میں ہی اچھی لگے گی کہ:
IF YOU WANT TO RISE IN THE LIFE, YOU HAVE TO RISE BEFORE THE SUN RISE.

تو جناب !بچے کتنے ہونے چاہئیں ؟یہ فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے۔ مذہبی لحاظ سے تو کہا جاتا ہے کہ ہر آنے والا دنیا میں اپنا رزق ساتھ لیکر آتا ہے۔ پر آجکل کی دنیا میں دو ٹائم کی دو بچوں کی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی۔دوسری طرف کئی ملک کم آبادی کی وجہ سے پریشان ہیں اور زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیبیں دے رہے ہیں۔ تو پھر آپ کے خیال میں کیا بہتر ہے ، کم بچے یا زیادہ ؟؟ نیچے لیکھیے گا ضرور پلیز!۔
Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247442 views self motivated, self made persons.. View More