ع، غ
(Prof Niamat Ali Murtazai, Kasur)
یہ زندگی عین غین ہے۔یا
یوں کہہ لیں کسی کی زندگی عین ہے اور کسی کی غین ہے۔یا یوں کہہ لیں کہ کبھی
یہ زندگی عین ہے اور کبھی یہ غین ہے۔ یا یوں کہہ لیں کبھی یہ زندگی عین عین
ہے اور کبھی یہ عین غین ہے۔ الغرض :
کبھی ہنسا دیا ، رلا دیا کبھی
عجب ہے داستاں تری اے زندگی
زندگی کے نام اور روپ بے شمار ہے۔ہمارے آس پاس جو کچھ ہے، جو کچھ تھا اور
جو کچھ ہو گا، سب زندگی کے پہلو ہیں۔ زندگی کو بیان کرتے کرتے ادب کی بے
شمار زندگیاں گذر گئیں۔ زندگی کو سنوارتے سنوارتے مذاہب کی صدیاں بیت گئیں۔
زندگی کی عکاسی کرتے کرتے آرٹسٹوں کی کئی نسلیں پردۂ خاک اوڑھ کر دنیا کے
کینوس کے روپوش ہو گئیں۔ زندگی کو بیان کرتے کرتے سائنس دانوں کو اپنی
زندگیاں محنت مشقت کے گروی رکھنی پڑیں۔ زندگی کی سانسیں جاری رکھنے کے
واسطے مزدوروں نے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ بیچ ڈالا۔ زندگی کی رمزیت پاتے
پاتے شاعروں نے ایک ایک خیال کو اتنے مہنگے مہنگے پوشاک پہنائے کہ ان کی
اپنی قبائیں دھجیوں میں بدل گئیں۔ زندگی کو عیاشیوں کا سامان فراہم کرتے
کرتے بادشاہوں نے اچھے بڑے کے امتیازات بالائے طاق رکھتے ہوئے جو ہو سکا
کیا لیکن زندگی ان سے بھی خوش نہ ہوئی اور آخر ان سے منہ موڑ کر اوروں کے
درِ دولت پے تشریف لے گئی۔ کھلاڑیوں نے زندگی کو اپنی جوانیاں ہدیہ کر دیں
لیکن زندگی نے ان کے ماتھوں پر سلوٹیں ظاہر ہونے سے پہلے ہی اپنے انتخاب
بدل لئے اور ان جوانوں کو جبری ریٹائر کر دیا۔ الغرض زندگی ایسی حسینہ ہے
جو کسی کی نہیں بنتی لیکن ہر کوئی اس کا بننا چاہتا ہے۔
ہم اس دل فریب زندگی کو اردو حروفِ تہجی کے دو حروف کا نذرانہ پیش کرنا
چاہتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے اسے پسند آجائیں۔ اور وہ حروف ہیں ’ عین اور غین‘۔
ہماری ’ عین‘ چار الفاظ : عقل، علم، عجز ، عروج کی نمائندہ ہو گی۔ اسی طرح
ہماری ’ غین‘ بھی چار الفاظ : غرور، غفلت، غم ،غبار کی عکاس ہو گی۔
ہم اپنی پہلی ’عین‘ یعنی ’عقل‘ سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ عقل انسان کی
بصیرت اور اس کی آنکھ کا نور ہے۔یہ ایسی بیش قیمت متاع ہے کہ اس کی بدولت
ہی انسان اشرف المخلوقات کے بلند مقام پر فائز ہوا اور اسی کے طفیل آج بھی
اس مقام کی حفاظت کر سکتا ہے ورنہ وہ حیوانوں سے بھی بد تر شمار ہوتا ہے۔
انسانی زندگی کی سب سے بڑی سرچ لائٹ یہی عقل ہے۔ عقل سے انسان کی شعور جنم
لیتا ہے اور شعور سے انسان بلندی کی طرف پرواز کر تا ہے۔ اس بلندی کی پرواز
میں تمام تخلیقات کا ظہور ہوتا ہے۔ تمام نظریات کے دائرے اسی بلندی کی
پرواز سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی بلندی کی ایک منزل کا نام عرفان اور معرفت ہے۔
یہی بلندی انسان کو وہ مقام دلواتی ہے جس کا اشارہ اقبال ؔ ان الفاظ میں
کرتے ہیں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہی بلندی پھر فنا کی انتہا کو پہنچنے کا عزم کر کے اپنے خالق و مالک کے
دربارِ وحدانیت سے ہمیشہ کے لئے خلعتِ عبودیت حاصل کر کے تمام مخلوقات سے
سرفراز ہو جاتی ہے۔قرآنِ پاک بار بار عقل کے استعمال پر زور دیتا ہے۔ اس
میں ایک بھی جگہ پر عقل کو طنز کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ اور نہ ہی عقل کے
استعمال کو حقیر سمجھا گیا ہے جیسا کہ بعض شعرا نے اپنی مرضی یا فہم کی
بنیاد پر ایسا کیا ہے لیکن عقل اپنی پختگی میں عشق کا درجہ یا روپ اختیار
کر لیتی ہے۔کچھ ذہن عقل کو کوستے ہیں اور عشق کو سراہتے ہیں لیکن قرآن و
حدیث کی روشنی میں ایسا نہیں ہے یہ دونوں اس خدا کے انعامات ہیں جو کہ اس
نے خاص بشریت کے لئے مختص کئے ہیں۔ باقی رہی بات اچھی یا بری عقل کی ۔یہ
ایک الگ بحث ہے انسان کو انتہائی اعلیٰ صلاحیتوں کا مالک جسم ملا ہے اگر
جسم کوئی غلطی کرے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا وہ حصہ کاٹ کے پرے کر
دیا جائے اور جو حصہ غلطی نہ کرے وہ رہنے دیا جائے۔ ایسا تو ہرگز نہیں ہے۔
یہی بات عقل پر بھی صادق آتی ہے۔ عقل کے بغیر انسان کس کام کا۔ اگر عقل
مثبت ہے تو بہت ہی اچھی بات ہے اور اگر عقل منفی ہے تو اس کو ترک کرنا کسی
طرح بھی مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس کی اصلاح مطلوب ہوتی ہے۔عقل کو گھٹیا
قرار دینا خدا کی نعمتوں کی نا شکری ہے۔ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ عقل کی پختہ
شکل کا نام عشق ہے۔ عقل جب حق الیقین کی صفت پا لیتی ہے تو اس کے بعد عشق
کے مراحل شروع ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ عقل کو برا اور عشق کو اچھا کہتے ہیں۔
یہ بات ان کی اپنی ہے۔ اگر عقل اپنی کسی نا پختگی کی بنیاد پر قابلِ اعتراض
ہے تو عشق بھی کئی ایک باتوں میں سزاوار ٹھہرتا ہے۔تو پھر عشق بھی ترک کر
دیا جائے۔ جبکہ بات یہ بھی درست نہیں یا دوسرے الفاظ میں مکمل نہیں۔ بات
پھر ویسے ہی مکمل ہو گی کہ غلط کی اصلاح کی جائے اور بہتری کو اختیار کیا
جائے۔جب عقل اور عشق دونوں کا ساتھ ہو جائے تو یارِ غار جیسے کردار تخلیق
پاتے ہیں اور صرف ایک چیز کے ساتھ سے ایسے کردار نہیں بن سکتے۔اس لئے اچھی
زندگی کے ظہور کے لئے دونوں کا ساتھ ضروری ہے ۔ جیسے عقل ایک گلاب ہے اور
عشق اس کی خوشبو ۔ دونوں کا ساتھ شخصیت کو بھی گلاب بنا دیاتا ہے۔ ورنہ یا
تو خوشبو کسی شیشی میں بند ہو گی اور پھول بے وقعت ہو گا۔عقل کی عینک سے
دین اور دنیا دونوں کی لطافت کا مزا چکھا جا سکتا ہے۔
عقل ، علم کے بغیر ناقص بلکہ بے نور ہے اگرچہ وہ خود بھی نور ہے۔ایسے ہی
جسے آنکھیں دوربین یا خوردبین کے بغیر مطلوبہ مقام کی سیر سے بے بہرہ رہیں
گی۔ ایسے ہی عقل، علم کے بغیر مکمل اندھی تو نہیں لیکن ناقص اور محدود ہے۔
اس کی وسعت کا دارومدار اس کے علم پر ہے۔ ایک علم رکھنے والی عقل ، علم نہ
رکھنے والی عقل سے کہیں بہتر ہے۔ خود قرآنِ پاک کا ارشاد ہے کہ جاننے والے
اور نا جاننے والے برابر نہیں ہیں۔ عقل ایک ظرف ہے جو انسان کو ملا ہے اور
علم اس ظرف میں رکھی جانے والی ایک سوغات ہے جس سے اس برتن کا وقعت میں بھی
اضافہ ہوتا ہے اور علم کا فائدہ بھی ہوتا ہے۔ ورنہ علم اتنا مفید نہیں رہ
سکتا۔ہمیں اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ ماں کی گود سے لے کر گور تک علم حاصل
کرو۔علم وہ شمع ہے جس پر عقل کا پروانہ فدا ہوتا ہے اور اسے پانے کے لئے
تمام جتن کرتا ہے۔ سمندر چیرتا اور اپنوں کی جدائی برداشت کرتا ہے۔اپنا
تمام سکون برباد کر کے بھی وہ اس شمع کو پانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔علم
وہ تاج ہے جو عقل کے سر پر سجایا جاتا ہے۔ اور عشق اس تاج کی حفاظت کرتا
ہے۔
عقل اور علم کی عین کے بعد جو عین آتی ہے وہ عجز کی عین ہے۔ یہ عجز خدا کو
جتنا پسند ہے اتنی کوئی شے پسند نہیں۔ اور اس کا الٹ یعنی تکبر جتنا نا
پسند ہے اتنی کوئی شے نا پسند نہیں۔ اس عجز کو ہم یوں سمجھ سکتے ہیں جیسے
کوئی نرم زمیں ہو اور تکبر جیسے پتھریلی زمین ہو ۔ نرم زمین میں تو پودا یا
درخت پھلے پھولے گا جب کہ پتھریلی زمین میں سے کچھ پیدا نہیں ہو گا۔ جب ذہن
کی زمیں نرم ہو جائے یعنی عجز اختیار کر لے تو اس میں باغ و بہار جلوہ گر
ہو جاتے ہیں اور اگر سخت ہو جائے تو باغ و بہار غائب ہو جاتے ہیں۔جیسا کہ
کہا جاتا ہے با ادب با مراد، بے ادب بے مراد۔ با ادب کی ذہنی سر زمین میں
نرمی ہوتی ہے وہ نصیحت قبول کرتا ہے جبکہ بے ادب کی ذہنی سرزمیں پتھریلی ہو
جاتی ہے اور وہ نصیحت کو جانتے ہوئے بھی ماننے سے گریز کرتا ہے۔ یا اس سے
نصیحت مانی ہی نہیں جاتی کیوں کہ اس کی زمیں ایسی نہیں جہاں وہ پودا پروان
چڑھ سکے۔تمام انبیاء عاجزی کے پیکر ہوئے۔تمام اولیاء عاجزی کے سایے میں
اپنی ولایت کو فروغ دیتے اور اس کی حفاظت کرتے چلے آئے ہیں۔ جہاں عاجزی
نہیں وہاں یہ نعمتیں نہیں آتیں۔ بلکہ ہوں بھی تو بھاگ جاتی ہیں۔اس لئے
انسان کو اول و آخر عاجزی اختیار کرنے بھی ہدایت ہوتی رہی ہے۔ گناہ کرے تب
بھی ڈرے اور اگر نہ کرے تو اور بھی ڈرے۔ اتنا بڑا کردار عزازیل اس عاجزی کے
نہ ہونے پر اتنی بڑی لعنت میں گرفتار ہو گیا اور حضرتِ انسان غلطی کی معافی
مانگ کر، عاجزی اختیار کر کے پھر سے مقربِ خدا کی نشست پر براجمان ہو گیا
اور ابلیس عاجزی ترک کر کے بے مراد ہی رہ گیا۔استاد کا ادب بھی عاجزی سے
آتا ہے جس کے اندر علم و حکمت کے تمام خزینے چھپے ہوتے ہیں۔خدا اپنے دل میں
ذرہ برابر بھی تکبر رکھنے والے کو جنت کی دہلیز تک نہیں پہنچنے دے گا۔عاجزی
اس کو وہاں بھی کام آئے گی جہاں وہ نیکیوں کی بازی ہار بھی جائے گا۔ ہر
گناہ کو مٹا دینے والی صافی اگر ہے تو عاجزی ہے۔ عبادت سراپا عاجزی ہے۔
نماز میں سر زمیں پر رکھ دینا اور پھر خدا کی رضا پانا عاجزی کی قدر و
منزلت کا اظہار کرتا ہے۔ حج میں اپنے آپ کو احرام کی چادروں میں لپیٹ لینا
اور صفا مروہ کی سعی کرنا انسان کی عاجزی کا اظہار ہے۔ روزوں میں اپنی بھوک
پیاس اپنے مالک کے حکم کے تابع کر دینا اس کی عاجزی کی انتہا ہے۔غرض ہر
عبادت کا بنیادی فلسفہ عاجزی ہے اگر عبادت گذار بندہ عاجزی سے محروم ہے تو
اس کی عبادت کی قبولیت مشکوک ہے۔عقل، علم اور عبادت سب عاجزی سکھاتے ہیں
اور اگر نہیں سکھاتے تو ان کا اپنا وجود خطرے میں ہے۔ عاجزی انسان کی زرہ
جس کے ہوتے ہوئے وہ بہت حد تک محفوظ ہے۔غلطی انسان کا شیوہ ہے۔ اگر عاجزی
کا صابن اس غلطی یا گناہ کے داغ کو نہ دھوئے تو وہ بد بو دار ہو جاتا ہے
اور وہ بد بو اس کا دماغ خراب کر دیتی ہے اور اس خراب دماغ میں تکبر جیسی
مہلک بلائیں اپنے گھروندے بنا کے مستقل طور پر رہنا شروع کر دیتی ہیں اور
پھر اتنی آسانی سے یہ گھر خالی نہیں کرتیں۔
عقل، علم، عاجزی جہاں بسیرا کریں ، وہاں عروج کیوں نہ آئے۔یہ بات ایسے ہی
ہے جیسے نرم زمین میں جڑیں نیچے کو جاتی ہیں اور تنا اوپر کو چلا جاتا ہے۔
جتنا بڑا درخت ہو گا اس کی جڑیں اتنی ہی زیادہ گہری ہوں گی۔ دوسرے الفاظ
میں جتنی کسی انسان میں عاجزی اور انکساری ہو گی اسے اتنا ہی زیادہ عروج
ملے گا۔عروج در اصل قدرت کی طرف سے عاجزی کرنے کا ثمر ہے۔ قدرت عاجزی پسند
ہے۔ جو بیج انکساری اختیار کر کے زمیں میں پناہ گزیں ہو جاتا ہے قدرت اسے
نئی حیات بخش دیتی ہے اور جو تکبر اختیار کرتا ہے وہ نئی زندگی سے محروم
رہتا ہے۔یہ نئی زندگی عروج کا دوسرا نام ہے۔جنہوں نے نیک ہستیوں کے آگے
عاجزی اختیار کی ان کے نام ستاروں کی مانند آسمانِ علم و فکر پر تاباں ہیں۔
اور جنہوں نے ان سنہری اصولوں سے منہ پھیرا ان کے نام یا تو باقی ہی نہ رہے
یا اگر باقی رہے تو نا رہنے سے بھی زیادہ برے باقی رہے۔
اب ہم کچھ بات غین کی بھی کر لیں تا کہ توازن پورا ہو جائے۔ ہماری پہلی غین
ہے غرور۔ غرور انسانی مزاج کی ایسی بیماری ہے جو بڑی حد تک ہر کسی کو ہوتی
ہے۔ کوئی اس کے اثرات سے جلدی نکل آتے ہیں اور کوئی اسی میں مارے جاتے
ہیں۔بچوں کو دیکھیں تو ہمیں ان میں بھی یہ خرابی نظر آتی ہے۔ وہ ایک دوسرے
کے خلاف اتنا لڑتے ہیں کہ انسان کی جبلت بہت خوفناک محسوس ہوتی ہے۔ بچوں کو
لڑتا دیکھیں تو عالمی جنگوں کی سمجھ بھی آسانی سے آ سکتی ہے۔ انسان اپنی
فطری جبلت کا اظہار بچپن میں ہی کرتا ہے بعد میں تو وہ نقاب پوش ہو جاتا
ہے۔ اخلاق کا میک اپ کرلیتا ہے اور کسی کو اس کے اصل چہرے تک رسائی نہیں
ہوتی۔ انسان غرور اور تکبر کی زد میں آکر فرعون، نمرود جیسے کردار ادا کرتا
ہے۔ وہ ایسے کرتوت کرتا ہے کہ شیطان بھی انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔ غرور نے
انسانی معاشرے میں جتنی تباہی کروائی اتنی کسی اور برائی نے نہیں
کروائی۔غرور نے اپنے آپ کو باقیوں سے منفرد قرار دلوا کر تمام امتیازات کی
بنیاد رکھی جن پر نفرت نے اپنے محلات تعمیر کئے۔تعصبات نے جنم لیا اور
دوسروں کو گھٹیا سمجھنے کی روایت انسانی معاشروں میں زہر کی طرح سرایت کرتی
گئی۔آج بھی تمام برائیوں کے پیچھے غرور کی بنیاد تلاش کی جاسکتی ہے۔غرور نے
جہالت کے باپ پیدا کئے اور جنگ و جدل کے میدان انسانی خون سے سیراب
ہوئے۔عظیم جنگوں میں کروڑوں انسانی جانوں کا ضیاع اسی غرور کی بھینٹ چڑھ
گیا۔غرور انسان کی تخلیقی صلاحیت کو ختم کر دیتا ہے۔ جو انسان تخلیقی ہو
اسے غرور کو اپنے پاس نہیں آنے دینا چاہئے۔روحانی لوگو ں میں تو غرور ہوتا
ہی نہیں کیوں کہ غرور شیطانوں کی سرشت میں زیادہ ہے۔
ہماری دوسری غین غفلت ہے۔ غفلت انسان کی ہلاکت کو جنم دیتی ہے۔ انسان غفلت
میں رہ کر ہی غرور کی طرف جاتا ہے۔ غفلت سے آزاد انسان کسی طور بھی غرور کو
پاس نہیں آنے دیتا۔ غفلت انسان کو خوابِ خرگوش میں مبتلا کئے رکھتی ہے۔موت
کی غفلت انسان کو موت کی گھاٹ اتار دیتی ہے اور وہ صحیح معنوں میں مر ہی
جاتا ہے۔لیکن جن کے ضمیر روشن ہوں موت ان کے لئے دوست کی ملاقات کا پیغام
لے کے آتی ہے۔بلہے شاہؒ فرماتے ہیں:
بلہے شاہؒ اساں مرناں ناہیں تے گور پیا کوئی ہور
یہ کیفیت روشن ضمیروں کی ہوتی ہے۔ موت اپنے معنی بدل لیتی ہے۔ہر چیز ہر کسی
کے لئے ایک جیسی نہیں ہوتی۔اسی طرح موت بھی ہر کسی کے لئے ایک کیفیت نہیں
رکھتی۔ شہیدوں سے متعلق واضح فرمایا گیا ہے کہ ان کو مردہ کہو بھی نہ بلکہ
وہ زندہ ہیں اور اپنے مالک سے رزق بھی پاتے ہیں۔ جہادِ اصغر اگر زندہ رکھ
سکتا ہے تو جہادِ اکبر کیوں زندہ نہیں رکھ سکتا۔لیکن شرط معرفت کی ہے یا
غفلت سے کوسوں دور ہونے کی۔ جو غفلت کا لباس ہی اوڑھے رکھے وہ تو مرنے سے
پہلے بھی موت کے منہ میں ہے۔سلطان باہوؒ فرماتے ہیں:
علموں بہج کرے فقیری تے کافر مرے دیوانہ ہو
غفلت کی پٹی جتنی جلدی نظر سے اتر جائے اتنا ہی بہتر ہے ورنہ وقت کے پاس ہر
کسی کے لئے مہلت نہیں ہے۔انسانی زندگی لاشعور سے شعور میں آنے کا نام ہے۔
یا تاریکی سے روشنی کی طرف آنا زندگی کا مقصد ہے۔غفلت انسانی شعور کی سب سے
بڑی اور سب سے بری رکاوٹ ہے۔اس سے پیچھا چھڑالینا ہی بہتر ہے۔ غفلت کی پٹی
کسی آنکھوں والے سے اتروانی چاہئے کیوں کہ جس کی اپنی آنکھوں پر پٹی ہو گی
وہ کسی کی پٹی کیوں کر اتارے گا۔ اندھے کو اندھا راہ دکھائے گا تو دونوں
کنویں میں ہی گریں گے۔ آج کل چوں کہ کنوں کا زمانہ نہیں رہا تو محاورہ بدل
لینا چاہئے کہ وہ دونوں کسی گاڑی کے نیچے آئیں گے یا اس سے ٹکرا جائیں گے۔
ہماری تیسری غین ہے غم۔ غم انسان کے ساتھ ایسے جڑا ہے جیسے ریڑھ کی
ہڈی۔انسان کو غم کے حصار سے باہر نکالنا قریباً نا ممکن ہے۔ آخر مر جانا
انسان کو حتمی غم میں ڈال دیتا ہے۔ پھر اس ناگہانی بلا کے آنے سے پہلے بھی
تو کتنی ناگہانی ہونیوں نے ہونا ہوتا ہے۔ انسان تو قدرت کے ہاتھوں میں ایک
کھلونا بن کے رہ جاتا ہے۔غالبؔ جیسا اسد بھی غم کے آگے رو پڑا اور ایک سے
زیادہ دلوں کا مطالبہ کر دیا:
مری قسمت میں غم گر اتنے تھے
دل بھی یارب کئی اور دیئے ہوتے
کہا جاتا ہے کہ غم دل کا زنگار اتارنے آتا ہے لیکن بعض اور اتنا غم آتا ہے
کہ زنگار کے ساتھ پورا دل ہی اتر جاتا ہے۔پھر نہ دل رہتا ہے اور نہ دل کا
نشاں۔غم وہ طوفان ہے جو دل کا نشیمن اجاڑ دیتا ہے۔یہ دل کو آنکھوں کے رستے
فرار ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔اور بعض اوقات دل کو وہ ’گجی‘ مار مارتا ہے
کہ دل آہ کئے بغیر ہی مر جاتا ہے۔غم وہ سلگتی آگ ہے جو نہ تو بھانبڑ بنتی
ہے اور نہ ہی بجھتی ہے۔غم کا جنم جذبات کی مرگ پر ہوتا ہے اور پھر یہ اس
مرگ کا ماتم تمام عمر جاری رکھواتا ہے۔ غم کے آشیانے میں صفِ ماتم ہر آن
بچھی رہتی ہے۔سب سے بڑا غم مالک سے دور ہو جانا ہے۔ اس ذات سے بچھڑ جانا
جسے پانے کے لئے روح کو ازل سے ابد کا سفر طے کرنا پرا ہے۔ یہ غم روح کا
ہے۔ اگر دل اس غم کو محسوس کرے تو بہت اچھا ہے اور اگر نہ کرے تو بہت برا
ہے۔مادیت کا غم روح کو متاثر نہیں کرتا۔ مادیت کا نقصان دل کو زیادہ متاثر
کرتا ہے۔ حواسِ خمسہ مادیت کے غم کو دل میں اتارنے کا سبب بنتے ہیں۔جب
انسان غرور اور غفلت کی زندگی میں ہو گا تو اس کی روح کو غم کی کیفیت کا
سامنا کرنا پرے گا۔اور اگر دل مردہ ہو جائے تو پھر خیر ہے،یہ غم اتنا
پریشان نہیں کرے گا۔یہ غم غرور اور غفلت میں رہنے والوں کو لا شعوری طور پر
متاثر کرتا ہے۔ چوں کہ ا ن کے دل مر چکے ہوتے ہیں تو وہ یہ غم اچھے طریقے
سے محسوس نہیں کر پاتے۔ بلکہ یہ غم ان کی بری فطرت کو اور تاریکی کی طرف لے
جاتا ہے۔ وہ لاشعوری طور پر تاریکی اور پستی کی طرف چلے جاتے ہیں۔جیسے کوئی
نشئی آہستہ آہستہ زیادہ نشہ کرتا چلا جاتا ہے اور اسے اس گراوٹ کا احساس
بھی نہیں ہوتا۔ ایسے ہی غرور اور غفلت میں رہنے ولوں کو غم لازمی ملتا ہے
لیکن وہ اس کو محسوس نہیں کر پاتے۔
ہماری چوتھی غین ہے غبار۔ غبار کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ ایک جھونکے کا
محتاج ہوتا ہے جدھر کو آیا ادھر کو ہو لیا۔ اس کی کوئی پہچان نہیں ہوتی۔ اس
کا کوئی نشان نہیں ہو تا۔ الغرض اس کا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ غرور، غفلت اور
غم کے بعد انسان کی حیثیت صرف اور صرف غبار جیسی رہ جاتی ہے۔جسے کوئی بھی
پسند نہیں کرتا اور جس کی اپنی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ وہ انسان جو ان کیفیتوں
میں مبتلا رہے اس کا باقی رہ بھی کیا جانا ہے۔ وہ تو غبار سے بھی کم تر ہو
چکا ہوتا ہے۔ ان کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ان کے نظریات کو کوئی ماننے
والا نہیں ملتا۔ ان گلی کوچوں سے انسان دور بھاگتے ہیں جن میں وہ بد نصیب
رہا کرتے تھے۔ ان پر عذاب کی کیفیت کا نزول ہر رہا ہوتا ہے۔ مرنے سے پہلے
بھی وہ عذاب میں ہوتے ہیں لیکن مرنے کے بعد تو ان کی حالت بالکل ہی نا گفتہ
بہ ہو جاتی ہے۔ ان پر پڑنے والی لعنتوں کا انسان اندازا نہیں کر سکتا۔
ان کو اب وہ سب کچھ نظر آرہا ہوتا ہے جس کا وہ انکار پر انکار کرتے آئے
ہوتے ہیں۔ لیکن اب وہ اپنے کئے پر سوائے پچھتانے کے اور کچھ کر بھی نہیں
سکتے۔ان کی بدبختی ان کے سیاہی مائل چہروں سے عیاں ہو رہی ہوتی ہے۔ زندگی
میں بھی ان کے چہرے ذہنی اور روحانی سکون سے محروم رہے ہوتے ہیں لیکن موت
تو ان کو خوب خوفزدہ کر دیتی ہے اور وہ اپنے انجام سے خائف ہو کر پریشان ہو
جاتے ہیں کہ ان کے چہروں پر ہوئیاں اڑ رہی ہوتی ہیں اور وہ کسی ماتم میں
شریک ہونے جا رہے ہوتے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان کا ’عین‘ کو اپنانا اور ’ غین‘ سے بچنا بہت مشکل
ہے ۔ بات کر لینا یا بنا لینا اگرچہ اتنا آسان نہیں لیکن باتوں پر عمل پیرا
ہونا باتیں کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ ہمارا قومی المیہ ہی یہی ہے کہ ہم
سب باتوں میں مصروف ہو گئے ہیں اور عملی جامہ پہننے کے لئے ہم بالکل تیار
نہیں ہیں۔ ہم اس پالیسی کو اپنا چکے ہیں کہ ہم تو ہیں عقلِ دور رس ہمارا
کام تو بس بات کرناہے۔ اس پر عمل کرنا کسی اور کا کام ہے چاہے وہ کرے چاہے
وہ نہ کرے۔ ویسے بھی سارے کام ہم نے ہی تھوڑے کرنے ہیں۔ ہم نے کہنے والا
ایک کام کر لیا ہے تو اس ہر عمل کرنے والا دوسرا کام کوئی دوسرا کر لے یہی
بہتر ہے ورنہ دوسرے کہیں گے کہ خود ہی بات کرتے ہو خود یہ اس پر عمل کر
لیتے ہو ہمیں کسی چیز کا موقع ہی نہیں دیتے۔ تو کیوں نہ عمل کرنے کا معاملہ
ہم آپ پر چھوڑ دیں تا کہ آپ کو بھی کچھ کرنے کا موقع مل جائے۔
ہمارا اپنا ایک عدد شعر یاد آگیا ہے ۔اگر آپ برا نہ مانیں تو ہم بیان کر
دیں:
مسئلہ زبان کا ہے مذہب ہو یا سیاست
کرنے کو کہنا کافی کرنے کی کیا ضرورت
چلیں یہ تو ہلکی پھلکی بات تھی۔ ہم خدا کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ وہ
ہمیں ان باتوں پر پہلے عمل کرنے کی توفیق دے جو ہم دوسروں کو کرنے کا کہتے
ہیں۔ ہم اپنی زندگی میں ان عینوں کو اپنائیں اور ان غینوں سے بچنے کی
بھرپور کوشش کریں۔ آپ بھی ہمارے لئے دعا فرمائے گا۔ ایک دوسرے کے لئے دعا
کرنا بہت بڑی نیکی ہے اس لئے ہم بھی آپ کے لئے دعا گو ہیں کہ اﷲ آپ کو بھی
بہت اچھا انسان بنائے اور ہمیں بھی اچھے انسانوں کی فہرست میں اپنا نام
لکھوانے کی توفیق عطا فرمائے! آمین ! |
|