محکمہ تعلیم پنجاب میں نجکاری

پنجاب میں محکمہ تعلیم میں نجکاری کا سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے لیکن 2013ء میں ایک اہم بااثر شخصیات کی سیکرٹری سکول ایجوکیشن پنجا ب کے عہدے پر تعیناتی کے بعد مختلف پالیسیوں کے ذریعے بہت تیزی آئی ہے۔ان تعلیمی پالیسیوں کے ذریعے2020ء تک 95فیصد سرکاری پرائمری تعلیمی اداروں بند ہوجائیں گے۔اورپاکستان میں حکمرانوں خاندانوں کی طرح تعلیم اداروں پر بھی چند خاندانوں کااختیارہوگا۔مختلف رپورٹس کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتاہے کہ محکمہ تعلیم کی نجکاری کس طرح ہورہی ہے۔گزشتہ سال محکمہ تعلیم حکومت پنجاب کی ایک ہی چاردیواری میں کام کرنے والے پرائمری سرکاری سکولوں کوضم کرنے کی پالیسی کے تحت پنجاب میں پانچ ہزارسے زائد پرائمری سکول ختم کو کیا گیاجس کہا گیا تھاکہ جس ضلع کاای ڈی اوسب سے پہلے ریشنلائزیشن عمل مکمل کرے گا اسے 1لاکھ روپے انعام دیاجائے گا۔ 2700سے زائد سکول دیہی علاقوں میں تھے جنہیں دوسرے پرائمری سکول میں ضم کردیاگیا۔سکولوں کوضم کرنے سے پنجاب میں 15ہزاراساتذہ کوسرپلس قراردے دیاگیا تھا۔ نئی پالیسی کے تحت 60طلباء سے کم تعدادوالے سکولوں کودوسرے قریبی سکول میں ضم کیاگیا ہرپرائمری سکول میں 2ٹیچرزہوں گے مڈل اورہائی سکول میں چالیس بچوں پرایک استادہوگا۔ سرپلس کئے گئے اساتذہ کو جبری ریٹائرڈکردیاجائے کیاگیاجبکہ مڈل اورہائی سکولوں میں زائد اساتذہ کوکسی ایسے سکول میں منتقل کردیاکیاگیاجہاں اساتذہ کی کمی ہے بعدمیں جہاں ٹیچرزیادہ تھے وہاں سے پوسٹ بھی ختم کردی جائے گی اس نئی سکیم کے تحت جہاں ہزاروں پرائمری سکولوں کی تعدادکم ہوگی وہاں اساتذہ کوجبری ریٹائرڈکرنے سے ٹیچرزکمیونٹی کوبھی مشکلات کاسامناکرناپڑا۔

پنجاب میں تعلیمی ادارے اہم عہدے داروں سے محروم ہیں۔ تقریبا 14لاکھ طلبا ء کا مستقبل داو پر لگ چکا ہے۔وزیر تعلیم ور سیکرٹری سکول ایجوکیشن پنجاب کے عہدے پر خادم اعلیٰ پنجاب نے ایک ایسے شخص کو تعینات کر رکھا ہے جو بہت بڑے مصروف انسان ہیں۔ ہائیرایجوکیشن کے اہم عہدے 2004ء سے فارغ ہے۔ تعلیمی بورڈز میں چیئرمین اور کنٹرولر امتحانات جیسی اہم پوسٹیں خالی ہونا وزیر تعلیم پنجاب اور وزیر اعلی پنجاب کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ محکمہ تعلیم اور صوبائی وزیرتعلیم کے اخباری بیانات پڑھ کر تو یوں لگتا ہے۔کہ جیسے پنجاب میں تعلیمی انقلاب برپا ہو گیا ہے۔ دعوے اس قدر بلند کہ انسان چکر ا کر رہ جاتا ہے۔لیکن جب ان دعووں کی حقیقت معلوم کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کھودہ پہاڑ اور نکلا چوہا۔مسلم لیگ نواز نے انتخابات میں عوام کو متاثر کرنے والے دعوے کیے لیکن آج مسلم لیگ نواز کو اقتدار میں ہے۔لیکن مسائل وہیں کے وہیں ہیں۔ خادم اعلی پنجاب ڈپٹی وزیر اعظم بھی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے تمام تر کوششوں کے باوجوہ پنجاب میں 18ہزار سکولوں میں سہولیات کا فقدان ہے اور تعلیم بجٹ کہاں ہے؟

یوں تو گزشتہ پانچ برسوں میں خادم اعلیٰ پنجاب کی قیادت میں ہماری حکومت نے فروغ تعلیم کے لئے انقلابی اقدامات کئے ہیں۔ ایک طرف تو دانش سکولوں کے قیام کا منصوبہ حکومت پنجاب کے اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرنے کے وعدے کی طرف ایک اہم قدم ہے تو دوسری طرف ہم نے تمام سرکاری سکولوں میں بہترین تعلیمی ماحول فراہم کرنے کے لئے بھی اہم اقدامات کئے ہیں۔ بد قسمتی سے سیاسی مخالفیں نے دانش سکول جیسے انقلابی منصوبے کو بھی سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی اور اس کی افادیت پر سوال اٹھایا۔ شاید معاشرے کے غریب طبقات کے بچوں کو اعلیٰ تعلیمی سہولتیں مہیا کرنا ہمارے ناقدین کو گوارہ نہیں۔

آپ کو یادہو گاکہ جون 2013ء میں وزیرتعلیم پنجاب کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا عہد ہے کہ پنجاب کا کوئی ذہین اور باصلاحیت طالب علم محض مالی مشکلات کی وجہ سے اعلیٰ اور معیاری تعلیم سے محروم نہیں رہے گا۔ ہماری حکومت نے پانچ سال پہلے طلباء کی تعلیمی معاونت اور ترغیب کے لئے مستقل بنیادوں پر پنجاب ایجوکیشنل انڈوومنٹ فنڈ کا قیام عمل میں لایا ہے۔ یہ فنڈ سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف فروغ تعلیم کے لئے میرٹ کی بنیاد پر صرف کیا جاتا ہے۔ اس فنڈ میں اب تک حکومت پنجاب نے 9ارب روپے کی خطیر رقم مہیا کی ہے جو پورے صوبے مجیں 50ہزار سے زائد طلباء کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپریل 2011ء سے خادم پنجاب کی خصوصی ہدایت پر ایک مربوط پروگرام ’’چیف منسٹر ایجوکیشن سیکٹر ریفارم روڈ میپ‘‘ کے نام سے شروع کیا۔ اس پروگرام میں طلبہ اور اساتذہ کی حاضری کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام جاری ہے۔ میں یہاں یاد دہانی کے لئے اس پروگرام کے چیدہ چیدہ خدوخال اور ان کے لئے اگلے مالی سال کے میزانیہ میں اخراجات کی تفصیل سے اس ایوان کو آگاہ کیاگیا۔

یہ بھی بتایا گیا کہ تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد کے بارے میں اعداد و شمار مختلف ہیں جو سکول جانے کی بجائے گھر پر رہتے ہیں یا محنت مزدوری کر کے اپنے خاندانوں کی مالی امداد کرتے ہیں۔ نیلسن کے گھرانوں کے سروے (دسمبر 2012) کا تخمینہ ہے کہ 24 لاکھ بچے سکول کی تعلیم سے محروم ہیں تاہم پروگرام نگرانی و عمل درآمد یونٹ نے ان کی تعداد 32 لاکھ بتائی گئی تھی۔ لیکن محکمہ تعلیم پنجاب کے افسروں کی نجکاری پالیسی کے مطابق اب ان بچوں تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو چکاہے۔

پنجاب حکومت نے سکول نہ جانے والے پانچ سے 9سال کی عمرکے 44لاکھ بچوں کو سکولوں میں داخل کرنے کیلئے انرولمنٹ ایمرجنسی مہم 2015ء کا اعلان کردیا ہے ، پنجاب بھر میں یہ مہم یکم ایریل ست 31اکتوبر تک چلائی جائے گی،ماہرین انرولمنٹ ایمرجنسی مہم 2015ء کی کامیابی پراتفاق نہیں کرتے ،کیوں کے اس وقت پنجاب میں نجی سطح پر تعلیم کے نام پر اربوں روپے کا کاروبارہورہاہے جس کی سرپرستی خودمحکمہ تعلیم پنجاب کررہاہے۔ سرکاری اساتذہ کو ذلیل کرنے کیلئے مراعات روک رکھی ہیں۔نجی تعلیمی اداروں کے مالکان اپنی مرضی سے تعلیم نظام چلارہے ہیں۔ متعددنجی سکولوں میں مڈل پاس اساتذہ میٹرک کے طلباء کو پڑھ رہے ہیں۔ اگرحکومت نجی تعلیمی اداروں کے خلاف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز پرموشن ریگولیشن رولز آرڈیننس 1984ء کے تحت کارروائی عمل میں لاتو ان کی رجسٹریشن منسوخ کر دے۔ تاہم نجی سکولوں کی جانب سے کسی بھی رولز اینڈ ریگولیشن پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کیخلاف شکایت ہوبھی توان کیخلاف کارروائی نہیں ہوتی کیوں کہ محکمہ تعلیم کے پاس نجی سکولوں کے حوالے سے کوئی تفصیلات یا ڈیٹا موجود نہیں۔

اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ محکمہ تعلیم پنجاب ان تمام اساتذہ کو نوکری سے فارغ کردے گا جو انرولمنٹ ایمرجنسی مہم 2015ء میں کامیابی حاصل نہیں کرسکیں گے۔بلکہ اس علاقے میں سکول بھی بند کردیاجائے گا۔اس پالیسی کو کامیاب بننے کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب کے دوست کے بیٹے سیکرٹری سکول ایجوکیشن پنجاب کو خوش کرنے کیلئے نجی تعلیم اداروں کے مالکان بھی متحرک ہیں۔26مارچ کو ایپکااوراساتذہ اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کریں گے۔اس پر محکمہ تعلیم کاکیا ردعمل ہوگا۔قبل ازوقت ابھی کچھ نہیں کہاجاسکتا۔لکین یہی صورتحال رہی توکوئی غریب تعلیم حاصل نہیں کرسکے گا۔
 
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 201516 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.