بارہ سا لہ معصوم ام رباب پر تشدد
(Sajid Hussain Shah, Riyadh)
بچے قوم کا قیمتی اثا ثہ اور رو
شن مستقبل کی ضما نت ہیں یہ ایسی نا دان اور معصوم عمر ہے جس میں انسان
دنیا کی ہرغر ض سے پا ک ہو تا ہے نہ رشتے نبہا نے کی الجھن اور نہ ہی دنیا
کی کو ئی اور لا لچ زندگی کا حصہ ہو تی ہے ،یہ ہنستا کھیلتا وجود سب کی
نظریں اپنے او پر مر کوز کیے ہوتا ہے بچے اپنے ہوں یا کسی اور کے ان کے لیے
دل محبت سے ہمیشہ سر شا ر رہتا ہے محبت کا یہ جذ بہ ان معصوم چہروں پر نظر
پڑتے ہی دل میں اپنا مقا م بنا لیتا ہے۔ مگر اس دنیا میں کچھ ایسے شیطان
صفت انسان مو جو د ہیں جو ان نا زک پھولوں کو مر جھانے کا با عث بنتے ہیں
اور ان پر تشدد کر نے سے با ز نہیں آ تے، ان لو گوں کے سینوں میں دل دھڑکتے
تو ضرور ہیں مگر اسمیں محبت رتی بھر بھی لا مو جو د ہے مگر درد کا ایک پہلو
یہ بھی ہے کہ وہ ما ئیں بھی کتنی مجبو ر ہوں گی جو اپنی لا ڈلی دلا ریوں کو
چند پیسوں کے عوض ان شیطانوں کے ہاں کام کے لیے بھیج دیتی ہیں ہمارے ملک
میں غربت کے ما رے ایسے خا ندانوں کی کمی نہیں جن کا تعلق دور دراز کے دیہا
تی علا قہ جات سے ہو تا ہے اوروہ اپنی بچیوں کو گھروں سے دور کر اچی اور لا
ہور جیسے بڑے بڑے شہروں میں کام کے لیے بھیج دیتے ہیں جہاں انھیں معقول معا
وضہ بھی مل جا تا ہے یا پھر اپنے گا ؤ ں کے ان لو گوں کے گھر جو شہروں میں
رہا ئش پذیر ہو تے ہیں ،بعض او قات ان بچیوں کی محنت کا معا وضہ صرف یہ
مقرر ہو تا ہے کہ شا دی کے لیے جہیز مہیا کیا جا ئے گا شا ید یہ بچیاں اپنے
وا لدین پر بو جھ سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ہما رے معا شرے میں جہیز کی اس لعنت
نے کئی بد گما نیوں کو جنم دیا ہے جب کہ ہمارا دین اسلام نکاح کے فر یضہ کو
انتہا ئی سا دگی کے سا تھ ادا کر نے کا حکم دیتا ہے لیکن ہم کیسے لو گ ہیں
جو خو د کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور جہیز کے لیے منہ پھا ڑ کر مطا لبات بھی
کر تے ہیں اس بات کو بھی مد نظر نہیں رکھتے کہ لڑ کی والے صا حب حیثیت ہیں
بھی یا نہیں ،کتنی ہمار ی بہنیں اسی لعنت کے نذر ہو گئیں اور اس سے معا شرے
میں کتنی ہی بر ائیوں نے جنم لیا ۔بہر حا ل یہ ایک طویل مو ضو ع ہے جس
کوپھر کبھی تفصیلاً بیان کر نے کی کوشش کر وں گا زیر بحث مو ضو ع کی جا نب
واپس آ نا چا ہوں گا۔ گھروں میں کام کر نے والی ایسی بچیوں کے ساتھ ظلم کی
انتہا بر تی جا تی ہے جس کی مثا لیں ہر جگہ مو جو د ہیں صبح سے لے کر رات
تک گھروں کے کاموں میں مصروف رکھے جا نے کے با وجود بھی ایسی غلیظ زبان ان
کے سا تھ استعمال کی جا تی ہے جو روح کو بھی زخمی کر دے ۔گھر کا ہر طر ح کا
کام لیا جا تا ہے اور کھا نے کے لیے گھر کا بچا ہوا کھانا دیا جاتا ہے۔وہ
بچیاں جنکی عمر ابھی تو کھیل کود کی ہو تی ہے انکو ذمہ داریوں کے ایسے بو
جھ تلے دبا دیتے ہیں جو کسی دردنا ک اذیت سے کم نہیں ۔ ایسی صو رتحا ل میں
ان نا ز ک کلیوں سے اگر کو ئی غلطی سرزد ہو جا تی ہے تو انکے لیے ایسی ایسی
سزائیں مقرر کی جا تی ہیں کہ سنو تو رونگٹے کھڑے ہو جائیں ۔یہ واقعا ت میرے
اورآ پ کے ارد گرد کئی گھروں میں رونما ہو رہے ہیں اور ہماری بے حسی
دیکھیئے کہ ہم خاموش تما شا ئی بنے ہو ئے ہیں،میری سمجھ سے با لاتر ہے کہ
یہ کیسے لو گ ہیں جب وہ ان بچوں پر ظلم کر تے ہوں گے تو ان بچوں کے معصوم
چہروں میں انھیں اپنے بچوں کا عکس دکھا ئی نہیں دیتا جو انکے دلوں میں رحم
کا مادہ پیدا کر سکے۔
ایسا ہی ایک واقعہ لا ہور شہر میں جو ہر ٹا ؤن کے علا قے میں سا منے آ یا
جہاں چا ئلڈ پروٹیکشن بیورو نے کسٹم آ ڈٹ آ فیسر کے گھر چھا پہ مار کر با
رہ سا لہ ملا زمہ ام رباب کو با ز یاب کر وایا اس بچی کو انتہا ئی بے دردی
سے تشدد کا نشا نہ بنا یا گیا تھا ابتدائی تحقیقات کے مطا بق گھر کا ما لک
عرفا ن اور اسکی اہلیہ نے اس بچی کو لو ہے کے ہینگرز سے اتنا پیٹا کہ اسکی
آ نکھیں سوج گئیں بچی کے مطا بق اس کی چھو ٹی چھو ٹی خطا ؤں پر یہ میاں
بیوی اسے تشدد کا نشا نہ بناتے رہے اس سے قبل بھی ایسے کئی وا قعات ہماری
نظروں سے گزرے ہیں مگر شا ید ہما رے سوئے ضمیروں کو جگا نے میں نا کام رہے
۔اس لیے ابھی تک ہماری حکومت ایسے وا قعا ت کی روک تھا م کے لیے کو ئی مؤ
ثر اقدام نہیں کر سکی اور کتنی قا بل شرم بات ہے کہ وہ ملک جہا ں چا ئلڈ
لیبر کی کثرت ہے مگر اس کی روک تھا م کے لیے کسی وزارت کا وجو د نہیں تا کہ
ایسے معصوم ملا زموں کو تحفظ مل سکے اور ایسے ظا لم لو گوں کے لیے وہ سزا
ئیں مختص کی جا ئیں جو مقا م عبرت رکھتی ہوں تا کہ کوئی بھی فرد کبھی کسی
مجبور فرد کی ضرورت سے یوں فا ئدہ نہ اٹھا سکے ۔چو نکہ ہمارا ملک میں بد
قسمتی سے معا شی بد حا لی ،سہو لیات سے محرومی اور بڑ ھتی ہو ئی غر بت نے
وہ ما حو ل پیدا کر دیا ہے کہ جن بچوں کے ہا تھوں میں کتا ب اور قلم ہو نی
چا ہیے ان کے نا زک کند ھوں پر گھر کا چو لہا جلے رہنے کی ذمہ داری سپر د
کر دی گئی ہے سکول جا نے کی عمر کے یہ بچے ہمیں فٹ پا تھوں،بسوں کے
اڈے،ورکشاپوں اور دیگر متعدد مقا مات پر نظر آ تے ہیں جو مقا م افسوس ہے۔
پا کستان میں بچوں کی مزدوری کا قا نون بنے تو چو دہ سا ل بیت گئے مگر ابھی
تک اس پر عمل درآ مد کر نے کی جر أت کو ئی حکومت نہ کر سکی ۔ فکر المیہ یہ
ہے کہ کسی سیا سی جما عت کے منشور میں اسکا خا تمہ تک درج نہیں ہے،ایک سروے
کے مطا بق تینتیس لا کھ سے زائد بچے مزدوری کر رہے ہیں ہما رے ہا ں ایسی
بہت سی غیر سر کا ری تنظیمیں مو جو د ہیں جو چا ئلڈ لیبر پر کام کر نے کی
دعویدار ہیں اور اسی بنا پر بہت سی فنڈنگ حا صل کر تی ہیں مگر انکی کا ر کر
دگی کا غذ سے بڑھ کر کچھ نہیں ،حکومتی دعوں کے با وجود بڑھتے ہو ئے تعلیمی
اخرا جا ت سے چا ئلڈ لیبر میں مز ید اضا فہ ہو رہا ہے مگر حکومت کے سا تھ
معا شرے کو بھی اپنی ذمے داریوں کا احسا س کر نا ہو گا تا کہ ایسے بچوں کی
کفا لت کی جا ئے جو محنت مزدوری کر نے پر مجبور ہیں۔
اسلا م کی رو سے اگر ہم با ت کر یں تو ہمار ے سر کار دو عالم نبی کر یم ﷺ
نے بچو ں پر شفقت کر نے اور رحم دلی بر تنے کا حکم دیا ہے اسی طرح آ پ ﷺ کا
فر ما ن ہے کہ اپنے غلا موں کو وہی کھلا ؤ جو خو د کھا تے ہو وہی پہنا ؤ جو
خود پہنتے ہو ۔یہی اسلام کی وہ تعلیمات ہیں جس نے کفا ر مکہ کے دلوں میں وہ
مقا م حا صل کیا کہ بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کیا کیو نکہ جہالت کے اُس
دور میں غلا موں کے سا تھ ایسا بر تا ؤ کیا جا تا تھا جس کی مثا ل ہمیں آج
بھی دکھا ئی دیتی ہیں فرق ہے تو صرف اتنا کہ وہ لوگ جہا لت کے اندھیروں میں
ڈوبے ہو ئے تھے او ر ہم اسلا م کی روشنی سے مستفید ہو نے کے با و جو د بھی
ایسی حرکات سر زد کر جا تے ہیں جو ہما ری اسلا می تعلیمات کے بلکل بر عکس
ہیں۔ |
|