والدین اولاد کے لیے جنت بھی دوزخ بھی-1

ایک مشہور قول ہے کہ ایک باپ سات بیٹوں کو پال سکتا ہے لیکن سات بیٹے مل کر بھی ایک باپ کو نہیں پال سکتے۔ ایک مرتبہ ایک باپ نے اپنے بیٹے سے دیوار پر بیٹھی ہوئی چیز کے بارے میں پوچھا کہ بیٹا یہ کیا ہے۔ بیٹے نے یہ جواب دیا کہ ابا یہ کوا ہے۔ باپ نے پھر پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ بیٹے نے جواب دیا کہ ابا جان یہ کوا ہے۔ باپ نے تیسری بار پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ بیٹے نے کہا کہ نظر نہیں آتا کہ کوا ہے۔ اسی طرح باپ نے کوے کہ بارے میں پھر پوچھا تو بیٹے نے غصے سے جواب دیا کہ سمجھ نہیں آتا یہ کوا ہے۔ باپ یہ سن کر مسکرایا اور بولا کہ بیٹا جب تو چھوٹا تھا تو اسی طرح دیوار پر آکر کوا بیٹھا اور تم نے اسی طرح مجھ سے چالیس بار پوچھا کہ ابا جان یہ کیا ہے اور میں نے ہر بار تیرا ماتھا چوم کر کہا تھا کہ میری جان یہ کوا ہے۔ انسان جب اپنے بچپن کا زمانہ گزار کر جوانی میں قدم رکھتا ہے تو وہ بھول جاتا ہے کہ اس کے والدین نے کس قدر مشقت سے اسے پالا تھا۔ جب وہ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتا ہے تو وہ اپنی زندگی کا پہلا قدم بھول جاتا ہے جب اس نے اپنے والد کا ہاتھ پکڑ کر چلنا سیکھا تھا۔ وہ بھول جاتا ہے کہ اسکے والدین نے کس قدر تکلیفیں اٹھا کر ساسے پالا ہے۔ اب اس کے والدین بڑھاپے کی حد کو پہنچ کر اسقدر ضعیف ہو جاتے ہیں کہ جب وہ کھاتے ہوئے گندگی کریں تو اسے یہ برا لگتا ہے اور وہ اپنا وقت بھول جاتا ہے جب اسکی ماں اسکی پھیلائی ہوئی گندگی صاف کرتی تھی۔ جب والدین کوئی بات بھول جاتے ہیں تو ان پر طنز کرتا ہے اور اپنا بچپن بھول جاتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں ہے کہ، اور جھکا دے ان کے آگے کندھے عاجزی کر کے نیاز مندی سے اور کہو اے میرے پروردگار ان پر رحم فرما جیسا پالا انہوں نے مجھ کو چھوٹا سا، والدین کے بڑھاپے کا زمانہ جب وہ اولاد کی خدمت کے محتاج ہو جائیں ان کی زندگی اولاد کے رحم و کرم پر ہو جائے اس وقت اولاد کی طرف سے اگر زرا سی بھی بے رخی ہو تو ان کے دل کا زخم بن جاتی ہے دوسری طرف بڑھاپے کے عوارض طبعی کے طور پر انسان میں چڑچڑا پن آجاتا ہے اور بڑھاپے کے دور میں عقل وفہم بھی جواب دینے لگتی ہے تو بعض خواہشات اور مطالبات ایسے ہونے لگتے ہیں کہ جن کا پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے قرآن کریم ان حالات میں والدین کی دلجوئی کے ساتھ ساتھ انسان کو اس کا زمانہ بھی یاد دلاتا ہے کہ کبھی تم بھی والدین کے اس سے زیادہ محتاج تھے جس قدر آج وہ تمہارے محتاج ہیں جس طرح انہوں نے اسوقت اپنی راحت و خواہشات کو تم پر قربان کیا اور تمہاری بے عقلی کی باتوں کو پیار سے برداشت کیا تو اب جب ان پر محتاجی کا وقت آیا تو عقل و شرافت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کے سابق احسان کا بدلہ عطا کرے۔ قرآن مجید میں والدین کے بارے میں چند احکامات بیان کیے ہیں ۔ جب بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک بھی نہ کہنا۔ ان کے سامنے اپنے آپ کو عاجز و ذلیل پیش کروان کو نہ جھڑکو اور ان کے ساتھ محبت و شفقت اور نرم لہجے میں گفتگو کرو ۔ انکی راحت رسائی کا خیال کرو حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اور سب گناہوں کی سزا تو الله تعالیٰ مؤخر کردے گا بجز والدین کی حق تلفی کے اس کی سزا آخرت سے پہلے دنیا میں بھی دی جاتی ہے۔ حقوق جمع ہے حق کی۔
Noor
About the Author: Noor Read More Articles by Noor: 14 Articles with 25485 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.