خیر سے ٹھیک سے کچھ یاد نہیں کہ دسمبر کا اخیر تھا یا جنوری کا درمیان تھا میرا دل کچھ اُداس تھا کیونکہ سردی کا مہینہ تھا اور یہ وقت اُداس کر ہی دیتا ہے "نیند سے بے حال تھی کہ امں جان کی آواز آئی کہ "ثنا نکمی اٹھ جا ، اپنا شنا خٹی کارڈ لا تیرے ابا کہہ رہے ہیں حج پر چلیں " (کچھ وقت سے سوچ تو رکھا تھا مگر عملی جامہ 2025 میں پہنایا) پہلے تو ذہن میں مشقت کا سوچ کر نا شکر ی کا ثبوت دیتے ہوئے کہا اتنا مشکل سفر میں کیسے کروں گی۔ اماں نے کہا آدھے گھر والے ساتھ جا رہے ہیں پہلے سوچ کر مزہ آیا کہ چیزیں خریدوں گی مزے مزے کی چیزیں کھائوں گی پھر خیال آیا کہ حج تو انسان اللہ کی رضا ،اللہ سے قریب ہونے ،ایک فریضہ ادا کرنے ،اللہ سے گناہ بخشوانے ،خود کو پاک کرنے اور رب کا پیارا بننے کے لئے کرتا ہے اور میں کیا کیا سوچے جا رہی ہوں ۔ سو جلدی سے توبہ و استغفار کی رب سے دعا کی بات بن جائے۔ ہم اخیر اخیر میں اپلائی کرنے والے تھے اور میں وہ انسان تھی جسکے پاس زاد راہ بھی نہ تھا نہ پاسپورٹ expired شنا ختی کارڈ پہلے انکو بنوانا تھا خود کو شہری ثابت کرنا تھا ختم شد شناختی کارڈ کی بنیاد پر بہن بھائی ڈراتے تو تھے کہ افغانستان کی سمجھ کر ڈی پورٹ کر دیں گے سو پہلے پہنچے egerton road passport office وہاں پر بوتھ نمبر سن سن کر سر درد ہوگیا ۔ باری آنے پر کوائف بتائے آخر میں مجھ سے بھی کم عمر صاحب جو ڈیٹا اینٹر کر رہے تھے کہنے لگے اپنا نام لکھ لیں گی
وہ تو ابا جی پاس کھڑے تھے تو تمیز و تہذیب کا دامن تھام کر رکھنا مجبوری تھی ورنہ جواب تیار تھا اگر آپ ڈیٹا اینٹر کر سکتے ہیں تو میں بھی نام لکھ ہی لوں گی ۔ پھر گئے گارڈن ٹاون پا سپورٹ بنوانے کا کام کیا ۔ کمپیوٹر والی خاتون نے ڈیٹا اینٹر کیا۔ دعا کے آسرے پر پاسپورٹ اور شنا ختی کارڈ کے جلدی بننے کی امید جاری رکھی اور جب دونوں چیزیں بن کر ہاتھ میں آئیں تو بہن بھائی بولے تم واحد پاکستانی ہوگی جو دونوں تصویروں میں کم ڈراونی لگ رہی ہے
|