ناصح کی جابجا نصیحتیں تو اپنی جگہ مگر.. .. . ؟؟
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
ناصح کی جابجانصیحتیں تو اپنی
جگہہ مگر ...اِن کی اہمیت اور قدرسے کسی کو اِنکاری نہیں ہوناچاہئے مگراَب
یہ اور بات ہے...؟؟ کہ ہم ناصح کی نصیحتوں اور اِس کی اچھی باتوں کی بے
قدری کرتے ہوئے اپنی مرضی سے ہر وہ کام اور اُمورانجام دے ڈالتے ہیں جس کے
بارے میں ہم نے پہلے ہی سے منصوبہ بندی کررکھی ہوتی ہے مگر ناصح کی نصیحتوں
کو ٹھکراکر ہمیں جتنانقصان اُٹھاناپڑتاہے اِس کاخمیازہ بھی ہمیں خود ہی
بھگتناپڑتاہے اور ندامت و افسوس کے آنسوبھی ہمیں ہی بہانے پڑتے ہیں جبکہ
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ ہماراناصح خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہووہ
ہمارابُراکبھی نہیں چاہتاہے جبکہ دوسری طرف ہم ہی ہوتے ہیں جو اپنے مخلص
ناصح کی ایک نہ سُن کر اُس کی بے قدری کررہے ہوتے ہیں اور اپناہی نقصان
کربیٹھتے ہیں اور افسوس وندامت اور پچھتاوے کے دلدل میں بھی خود ہی جاگرتے
ہیں۔
آج بھی دنیا کی کسی بھی تہذیب و تمدن میں رہنے اور کوئی بھی زبان بولنے
والا کونساایساشخص ہوگاجس کا اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی شکل
میں ناصح سے واسطہ نہ پڑاہواور جس نے اِسے جابجانصیحتیں نہ کیں ہوں اوراِس
کی نصیحتوں سے اِسے بیزاری اور اُکتاہٹ کی کیفیات سے دوچارنہ
ہوناپڑتاہواوراُسے ناصح کی نصیحتوں کو ایک طرف پھینک کرپھر اُسی ڈگرپر نہ
چلناپڑاہوجس پر چلنے کا اِس نے پہلے سے اِرادہ کررکھاہوتویقیناایسے میں
ناصح کوبھی خودپر ندامت کے پہاڑ ٹوٹتے ہوئے نہ محسوس ہوئے ہوں گے پھرکیوں
نہ ...؟؟ ایسے میں ناصح پر یہ مثل صادق آئے کہ ’’ نیکی کردریامیں ڈال‘‘۔
ہمارے یہاں ناصح توبہت مل جاتے ہیں مگر افسوس ہے کہ یہ ہماری ہی بدقسمتی ہے
کہ ہم اپنے ناصح کی نصیحتوں کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں اور ناصح کی نصیحتوں
کو ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکل دیتے ہیں اگر آج ہم یہ تہیہ کرلیں
کہ ناصح کی نصیحتوں پر عمل کریں گے تو ممکن ہے کہ ہم برائیوں اور گمراہیوں
کے شکار بھی نہ ہوں اور ہماراہر عمل بھی صالح ہوجائے اور یوں ہم اور
ہمارامعاشرہ کئی ایسی برائیوں سے بچ جائے جس کے دلدل میں ہم دھنس چکے ہیں
اور ا َب ہم دوسروں کی طرف ہاتھ بڑھاکر اپنی مدداوراپنے بچاؤ کے لئے چیخ
رہے ہیں۔
اگرچہ آج بھی ناصح اپنی نصیحتوں سے ہمیں بدی کی راہوں سے نکالنے کے لئے
اپنی کوششوں میں لگاپڑاہے مگر یہ ہماری ہی بدبختی ہے کہ ہم ناصح کی ایک
نہیں سُن رہے ہیں اور نہ ہی اِس کے سمجھانے اور رہنمائی کو اہمیت دے رہے
ہیں اِسے میں ہمارے ناصح کو مایوسی ہورہی ہے اور وہ سوچ رہاہے کہ کیا اِس
کی ساری محنت اور محبت رائیگاں گئی... ؟؟کیااِس نے سامنے والے پر اپناوقت
ضائع کیا ...؟؟اِسے اپنے اِن سوالات کا جواب جب مثبت نہیں ملتاہے تو تب
اِسے یہ احساس کھائے جاتاہے کہ ہاں اِسے سوائے افسوس کے کچھ بھی حاصل نہیں
ہوا ہے پھریہ سوچتا ہے کہ کیا واقعی اِس نے نیکی کرکے دریامیں ڈال دی ہے‘‘...؟؟۔
آج اِس جیسی بہت سی ایسی مثالوں اور محاوروں سے ہر روز ناصح اور بھلے
اِنسانوں کا واسطہ پڑتاہے جس سے یہ تاثر اُبھرتاہے کہ دورِ جدیدمیں نیکی
کرنے والے کا عمل دریامیں ڈالنے جتنا ہی رہ گیاہے ..ایسے میں آخرکارنیکی
کرنے والااپنے سر پر ہاتھ رکھ کر یہ سوچتارہ جاتاہے کہ اِس نے نیکی کیوں کی
ہے...؟؟ اور کس کے لئے کی ہے ...؟؟آج جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نیکی کرنے
والے کے ہاتھ سوائے پچھتاوے اور کفِ افسوس کے کچھ نہیں آیا ہے ...
اَب ایسے میں کچھ بھی ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ا کثرناصح کی جابجاکی
نصیحتیں بھی بے مقصداور بے اثرثابت ہوجایاکرتی ہیں ایساتب ہی ہوتاہے جب
ناصح اپنے تئیں سامنے والے کو جابجانصیحتیں کرنے لگتاہے اور جس کے لئے ناصح
نصیحتیں کرتاہے وہ سُنی اَن سُنی کردیتاہے اور پھر سامنے والاوہی کرتا ہے
اِسے جو کرناہوتاہے تب یہ نظرآتاہے کہ ناصح کی نصیحتیں بے مقصداور بے معنی
ہوکررہ گئیں ہیں تو ناصح کو بھی یہ چاہئے کہ وہ لٹھ لے کر نصیحتیں کرنے نہ
بیٹھ جایاکرے بلکہ جب ضرورت بہت زیادہ محسوس کرنے لگے کہ اَب سامنے والے کو
واقعی نصیحت کرنی ہے تو پھر نصیحت کرے جس سے اثر بھی ہوگااور محنت بھی
رائیگاں نہیں جائے گی۔
بہرحال...!!یہاں ہم اپنے قارئین کے لئے نہ تو تا صح بن کر پیش ہورہے ہیں
اور نہ ہی کسی ایسے بھلے اِنسان کو جو 21ویں صدی میں زندہ ہے اور خود کو
انتہائی سے زیادہ باشعوراور تیزوچالاک ہونے کا دعویٰ کرتاہے اوریہ کسی ناصح
کی نصیحتوں کو خاطر میں لانے کاروادار بھی نہیں ہے تو بھلاایسے اِنسان کے
سامنے ہم کون ہوتے ہیں..؟؟کہ بطورناصح پیش ہوں اوراُسے اپنی نصیحتیں دے کر
اپناہی سرکھپائیں ایسے میں ہم سے بڑاپاگل کون ہوگا...؟؟
خیر...!!چھوڑیں یہاں ہم بتادیتے ہیں کہ ناصح کی نصیحتیں اپنی جگہہ ہوں
سوہوں... مگر خداکی قسم نہ تو ہم ناصح ہیں اور نہ ہی کسی کو نصیحتیں کرنے
کے قائل ہیں،ہم تو وہ ہیں جیساہمارامعاشرہ ہر اِنسان کو دیکھناچاہتاہے اور
ہم بتائیں کہ ہمارامعاشرہ ...جیساآج بے حس ہے...ویساہی بے حس ہر اِنسان کو
بھی کردیناچاہتاہے...اور ہم بھی اِسی بے حس معاشرے کے بے حس اِنسانوں میں
سے ایک اکائی کا درجہ رکھتے ہیں...مگرپھر بھی سلام ہے اُن عظیم اِنسانوں کی
عظمت کو جو بے حس معاشرے میں رہ کر بھی اپنے بگڑے ہوئے بے حس معاشرے کے ہر
بے حس اِنسان کو ناصح بن کر نصیحتیں کررہے ہیں اور بے حسوں کے بے حس ضمیروں
کو اپنی نصیحتوں سے جھنجھوڑرہے ہیں اور بے حس معاشرے کے بے حس افراد اور
لوگوں کو نیکی کی دعوت دے رہے ہیں اوربگڑے ہوئے معاشرے کے بھٹکے ہوئے بے حس
اِنسانوں کوسیدھی اور نیک راہ پر ڈال رہے ہیں یوں یقیناہمارے معاشرے کے وہ
اِنسان قابلِ احترام اور لائق ستائش ہیں جو بطورناصح اپنی نصیحتوں سے بے حس
اِنسانوں کو نیک اِنسان بنانے میں اپنافعل کردار اداکررہے ہیں اِس سے انکار
نہیں کہ ہمارے معاشرے میں جو اشخاص خود کو بطورناصح پیش کررہے ہیں یہ جانتے
ہوئے بھی کہ سامنے والا اِن کی ایک نہیں سُن رہاہے اور اِن کی نصیحتوں پر
ایک رتی کا بھی عمل نہیں کررہاہے مگر اِس کے باوجود بھی وہ اپنے حصے کا کام
کررہے ہیں یوں وہ ہم سے اورآپ سے لاکھ درجے بہترہیں اور ربِ کائنات کے عظیم
ترنیک و برگزیدہ بندے اور آقائے دوجہاں حضرت محمدمصطفیﷺ کے سچے عشاق ہیں
جوبلارنگ و نسل زبان و مذہب اپنے قول وفعل سے لوگوں کو نیک اعمال کرنے اور
اِنہیں نیکی کی راہ کو اپنانے کے لئے بطورناصح خود کو پیش کررہے ہیں اور آپﷺکی
سُنت کا پرچارکررہے ہیں۔
اَب اِس سارے منظرمیں یہاں ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ... آج ہم جس دورِ جدیدمیں
زندہ ہیں اور اِکیسویں صدی کے جس سائنسی اور جدید معاشرے میں اپنے معاملاتِ
زندگی انجام دے رہے ہیں یہ ناصح کے حوالے سے دوواضح حصوں میں تقسیم
ہوتانظرآرہاہے ایک وہ طبقہ ہے جو ناصح کی بات کو سمجھتاہے اور اِس عمل
کرتاہے اور اِس سے اپنے لئے نیکی اور بھلائی کی راہ نکالتاہے آج اِن کی
تعدادآٹے میں نمک جتنی ہی رہ گئی ہے جبکہ دوسراوہ طبقہ ہے جو ناصح کو
برداشت کرنے کا رودار ہی نہیں ہے تووہ اِن کی نصیحتوں کو بھی بھلاکیا سُنے
گا..؟؟اور کیا عمل کرے گا...؟؟بیشک ...!!آج ایسے لوگوں کی تعداد ہزاروں سے
لاکھوں اور لاکھوں سے کڑوروں تک جا پہنچی ہے یعنی یہ کہ آج ہمارے معاشرے
میں اچھے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ اِن کے برعکس بُرے لوگوں کی تعداد
کڑوروں تک پہنچ چکی ہے۔ |
|