مجدّد فکرِ حریّت ..............ساغر صدیقی
(Dr Qamar Siddiqui Kharian, Kharian)
حاکم وقت نے کمبلوں سے لدا ٹرک
بھیجا اور
عرض کی کہ
آپ کا کمبل چرا لیا گیا ہے اس وجہ سے
آپ مجھہ سے برگشتہ و شکوہ کناں ہیں
حضور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کمبل قبول فرمائیے اور ناراضگی جانے دیجئےتو
درویش و مستِ روز الست ۔۔۔۔۔۔۔
نے یہ کہہ کر کمبل واپس لوٹا دئیے کہ حاکم سے کہنا ہمیں ہمارا کمبل واپس
چاھئیے ہو سکے تو وہی کمبل واپس دلائے
----------------------
جس دور میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے
-------------------------
1928 میں پنجابی اور اردو کی نمائندہ دھرتیوں کو باہم بغلگیر کروانے والی
سرزمین انبالہ کی گود میں حریّت ، پیار ،محبت ، انسان دوستی ، جذب و مستی
اور درویشانہ توکّل و خودداری کو آبِ دل گدازی سے باہم گوندھ کر شاعر بے
بدل ، سفیر درد ،
اخترِ فلکِ ادب
" مجدّد فکرِ حریّت "
محمد اختر
المعروف
حضرتِ ساغر صدیقی رحمتہ اللہ علیہ کے وجود مسعود و ذھنِ رسا و قلب پُر از
درد کو تخلیق کیا گیا
جن کی زندگی کا بیشتر حصہ سِرُمِنَ الاَسرَار ہے مگر ان کے ذھن رسا نے بحرِ
تفکّر و تدبّر و درد و تاثّر میں غوطہ زن ہو کر افقِ ادب پر بصورتِ نظم و
غزل جو شمس و قمر و مشتری و زہرہ ٹانکے ان کی روشنی ابد الآباد تک رہروانِ
دشت شعر و سخن کو منزل کے تعِّین میں مدد فراہم کرتی رہے گی
حضرتِ ساغر صدیقی وہ نادر و نایاب ہستی ہیں جنہوں نے اپنی فکر کی خوشبو و
روشنی سے نہ صرف دوسروں کے اذھان کو معنّبر و منور کیا بلکہ خود اپنی زندگی
بھی انہی خیالات کے زیر اثر بسر کی
بحرین میں مقیم حضرتِ سعید قیس جنہیں عرب ممالک میں اردو کا باوا آدم کہا
جاتا ہے وہ حضرت ساغر صدیقی کے بہت قریب رہے ہیں اور اس دوستی کی سعادت پر
آج بھی نازاں ہیں
انہوں نے دوران گفتگو محترم دوست و صاحب اسلوب شاعر جناب مقصود سروری کے اس
سوال پر کہ
" آپ جیسے لوگ ساغر کے دوست تھے تو آپ لوگوں نے ان کی کسمپرسسی اور ناقدری
کا سدِٰباب کیوں نہ کیا ؟؟؟؟؟؟
روتے ہوئے کہا کہ وہ ، وہ زمانہ تھا کہ خود ہماری کسمپرسی اور غربت کا یہ
عالم تھا کہ کئی کئی دن گھر میں چولہا نہ جلتا تھا اور فاقہ جب حد سےبڑھ
جاتا تو ہم ساغر صاحب کے ہمسفر ہو جاتے کہ یوں اور کچھہ نہ سہی کم از کم
چائے تو میسّر آجائے گی
------------
ہوش و حواس میں سجدے کرنا آدم تا ایں دم معروف روایت ہے
"مجدد حریتِ فکر"
حضرتِ ساغر صدیقی وہ فردِ فرید ہیں جنہوں نے مد ہوشی اور سجدے کو یوں واصل
کیا کہ اس کیفیت کو تابندہ و امر کر دیا۔۔۔
وہ عالم مد ہوشی میں جسم و جان و تفکرو تدبر سمیت تصور حسنِ ازلی کے حضور
کچھہ اس طرح سجدہ ریز ہوتے کہ کئی کئی دن اسی کیفیت میں گذر جاتے
--------
آوً اک سجدہ کریں عالمِ مد ہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
--------
حجرہء ذات میں معتکف و مستغرق وہ زیست نوردی میں مصروف تھے کہ ساہیوال میں
مقیم ان کے عشّاق نے زندہ دلان لاہور کی منّت سماجت کی کہ ساہیوال میں
مشاعرہ کا ہتمام کیا گیا ہے فقط اس لئے کہ حضرت ساغر صدیقی کی زیارت مقصود
ہے سو کسی بھی ڈھب سے انہیں ہمراہ لایا جائے
دوستوں نے اصرار کیا تو وہ اس شرط پر تیارہوئے کہ وہ بنا کسی تغیّر و تبدّل
کے "جہان ہیں ، جیسے ہیں" کی بنیاد پر چلیں گے احباب نے شکر ادا کیا کہ
شکرا" وہ راضی تو ہوئے
چلتے سمے پھر منت سماجت کر کے کچھہ اور مطالبات بھی منوا ہی لیں گے بالآخر
ساہیوال کی طرف عازم سفر ہونے کا وقت آیا تو دوستوں نے حسب پروگرام پھر منت
سماجت شروع کر دی کہ اور کچھہ نہیں تو نا سہی کم از کم پاپوش پہن لیجئے مگر
ان ،نے نا ماننا تھا سو نہ مانے
احباب نے اس خوف سے چپ سادھ لی کہ کہیں جانے سے ہی انکار نہ کر دیں
سفر بخیریت کٹ گیا وارفتگان و مشتاقان دید نے کثیر تعداد میں استقبال کیا
اور از حد محبت و منت و سماجت انہیں پاپوش پہننے پر راضی کر ہی لیا
مشاعرہ ختم ہوا تو حضرت ساغر صدیقی نے پاپوش اتاری اور ہتھیلیوں پر رکھہ کر
مودبانہ مہتممِ مشاعرہ کو پیش کی اور یہ کہتے ہوئے چل دئیے کہ اپنی امانت
وصول کیجئے درویش اب اجازت چاہتا ہے
------------
ہم فقیروں سے دوستی کر لو
گُر سکھا دیں گے بادشاہی کے
-----------
حضرتِ ساغر صدیقی نے اشعار نہیں اپنا دل ، اپنی دھڑکن ، اپنا شعور ، اپنا
مشاہدہ اور اپنا درد تقسیم کیا ہے جس قدر درد ، کرب اور اثر انگیزی و گداز
ان کے کلام میں موجود ہے شاید ہی کسی اور تخلیق کار کو یہ باطنی و ذھنی رزق
میسر آیا ہو
وہ لاہورکی سڑکوں ، فٹ پاتھوں پر بکھرتے رہے ، خونِ جگر اگلتے رہے لوگ آتے
ان کے پاس گھڑی دو گھڑی بیٹھتے اور ان کی " اگلاہٹ" کو کمال احتیاط سے
سنبھال لے جاتے اور اس کے ذریعے نہ صرف دولت سمیٹتے بلکہ ترقی و شہرت کے
زینے بھی طے کرتے رہے مگر اس فاقہ مست نے کبھی کسی سے شکوہ کیا نہ بے رخی
برتی
بلکہ
تقدیر کی بے رخی اور احباب کی بے اعتنائی کو بھی
جس شاندار و شاہکار طریقے سے ساغر صدیقی نے نبھایا اس پر سرمد و منصور بھی
عالم بالا میں سر دھنتے اور واااہ واااہ کرتے رہے ہوں گے
-------------
ساقیا تیرے بادہ خانے میں
نام ساغر ہے مے کو ترسے ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساغر صدیقی نے کچھہ دیر ناصر حجازی کو بھی ملبوس کیے رکھا یعنی یہ نام بھی
بطور تخلص استعمال کیا مگر بالآخر ساغر صدیقی نامی لبادے میں دائمی سکونت
اختیار کی
فلمی دنیا کے بڑے بڑے جغادریوں نے حضرت ساغر صدیقی سے بھر پور اکتساب فیض ،
بصورتِ ھٰذا من فضلِ ربّی کیا یہی نہیں دنیائے ادب کی بہت سی مہان ہستیوں
نے بھی تخلیقاتِ ساغر صدیقی نامی بہتی گنگا میں خوب خوب ہاتھہ دھوئے
آپ عمر بھر غاصبانہ نظام کے خلاف عَلَمِ حریّت و بغاوت بلند کیے مصروفِ
جہاد رہے
ان کے سالانہ میلہ پر ان کے ایک خوشہ چین نے اسی طبقے کے کھلنڈروں کو جینز
و شرٹس اور جدید تراش خراش کے ملبوسات زیب تن کیے خرمستیاں کرتے دیکھہ کر
آہ بھرتے ہوئے کہا
حیف صد حیف کہ زندگی بھر وہ جن کے خلاف مصروف جہاد رہے بعد از وصال وہی لوگ
آج ان کے مزار پر قابض ہیں
وہ ایسے نابغہ روزگار سائل تھے جو ماورائے حرف و صدا محو دعا رہے
وہ عمر بھر اپنی پلکوں سے در یار پہ دستک دیتے رہے باالآخر
19 جولائی 1974 کو محبوب حقیقی نے اتّصال کے در وا کردئیے اور وہ الفلاح
بلڈنگ کے قریب فٹ پاتھہ پر وصال فرما گئے بوقتِ وصال ان کی عمر 46 سال تھی
ساغر صدیقی کا وصال فرد واحد کی موت نہ تھی
حقائق آشنااحباب جانتے ہیں کہ بہت سے نامور شعراء اس انتقال پر ملال کے پس
منظر میں وفات پا گئے تھے
---------------------------------------
میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
--------------------------------------
حضرت ساغر صدیقی نے ترکہ میں عظیم الشان شعری خزانہ ، اپنا جسد خاکی اور
ایک پالتو کتا چھوڑا جو آپ کے وصال کے ٹھیک ایک سال بعد اسی جگہ جہاں ساغر
صدیقی کا وصال ہوا تھا ایک صبح مردہ پایا گیا
آپ کو قبرستان میانی صاحب میں دفن کیا گیا
جہاں اب ہر سال بڑی دھوم دھام سے آپ کا عرس منایا جاتا ہے
---------------------
۔۔۔۔۔۔ قمر صدیقی
31-03-2015 |
|