تہذیبی روایات

تاریخ انسانی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں تہذیبی اقدار اور سماجی روایات عام رہیں۔ معاشرے ان کے اثرو رسوخ سے متاثر ہوتے رہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ زندگی کے ہر دور میں کسی نہ کسی تہذیب و ثقافت کاعروج رہا ۔ یونانی، ایرانی ،ر رومی، اسلامی او ر مغربی تہذیبوں نے اپنے اپنے دور عروج میں عالم انسانیت کے ایک خاصے حصے کو متاثر کیا۔ ہر تہذیب اپنے مذہب و ثقافت کی روشنی میں خوبیوں اور خامیوں کے حوالے سے مخصوص خد و خال رکھتی ہے۔ بعض اوقات ایک نکتہ نظر سے کوئی چیز خوبی شمارہوتی ہے لیکن دوسرے اسے خامی گردانتے ہیں۔ اسی بنیاد پر کبھی کبھار تہذیبوں کا ٹکراؤ بھی عمل میں آجاتا ہے۔ جس دور میں اسلامی تہذیب و ثقافت کا عروج تھا تو اس نے عالم انسانیت پر دور رس نتائج مترتب کیے۔ جہاں جہاں تک وہ روشنی پہنچی لوگوں نے دل وجان سے نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ اپنی آبائی تہذیبوں کو خیر آباد کہ کے اسے اختیار کیا۔ مصر، الجزائر، مراکش، الجیریا ، لیبیا، ٹونیشیا، موریطانیہ اورصومالیہ افریقی ممالک ہیں لیکن وہاں کے باسیوں نے اپنی آبائی زبانوں، روایات اور لباس کو چھوڑ کر اسلام کی زبان عربی کو اختیار کیا اور تہذیب اسلامی کے فرزند بن گئے۔ کئی حوادثات زمانہ وقوع پزیر ہوئے لیکن آج بھی وہاں عربی زبان اور اسلامی لباس کو اہمیت حاصل ہے۔ چند ہفتے قبل مجھے ویسٹ افریقہ جانے کا موقع ملا تو وہاں بھی دیکھا کہ سینیگال، گھنبیا اور نائجا میں پچانوے فیصد لوگ مسلمان ہیں۔ ابھی تک اپنی مقامی زبانوں کے علاوہ عربی سمجھتے اور بولتے ہیں۔ جمعہ کی تقاریر عربی میں ہوتی ہیں۔ سپین میں ایک عرصہ تک اسلامی تہذیب کے عروج کے بعد وہاں سے مسلمانوں کا دیس نکالا ہوئے بھی عرصہ دراز گزر گیا لیکن ابھی تک وہاں کے لباس اور رہن سہن سے اسلامی تہذیب کے نقوش ملتے ہیں۔

آج کا دور مغربی تہذید و ثقافت کے عروج کا دور ہے۔ ایک طویل جد و جہد اور علمی کاوشوں کے بعد اس تہذیب نے یہ مقام پایا۔ جہاں سے بھی اچھی روایات ملیں انہوں نے انہیں اپنایا۔ معاشرے میں علم کو عام کیا۔ وقت حالات اور ماحول کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ممالک میں جدید علوم کی یونیورسٹیز کے جال پھیلا دیے۔ ہر طرح کی ایجادات اور انکشافات کے ذریعے زندگی کو آسان بنا دیا۔ یہاں تک کہ سخت ترین گرم ممالک میں رہنے والے لوگ بھی فرج، فریزر اور ائر کنڈیشنڈ بنانے کا فن برف میں ڈھکے ان سرد ترین ممالک سے سیکھنے پر مجبور ہیں۔ اگر منصفانہ تجزیہ کیا جائے تواس حقیقت کو ماننا پڑتا ہے کہ اس تہذیب میں بیشمار خوبیاں ہیں۔ اپنے رویوں میں دیانتداری اورسچائی کو رواج دیا۔ ملاوٹ اور دھوکہ دہی سے باز رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی منڈیوں میں ان کی بنائی ہوئی مصنوعات کو اعتماد اور برتری حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ممالک میں ابھی تک صرف’’ گھی اور انڈہ ‘‘ ہی رہ گئے جو دیسی ہو تو پسند کیے جاتے ہیں باقی ہر چیز جو دل سے پسند کی جاتی ہے وہ ’’ولائتی‘‘ ہی ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو وہ تمام خوبیاں جو اس تہذیب میں پائی جاتی ہیں آج سے پندرہ سو سال پہلے ہمارے پیارے نبیﷺ نے ہمیں ان کی تعلیم دے دی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ ’’ سچائی نجات دینے والی اور جھوٹ ہلاک کرنے والا ہے‘‘ لیکن ہمارے ہاں ارباب اقتدار سے لیکر ایک عام آدمی تک ہر ایک نے شاید یہ ذہن بنا لیا ہے کہ جھوٹ کی بیساکھی کے بغیر ہمیں زندگی میں کامیابی نہیں مل سکتی۔ ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں بتا دیا تھا کہ ’’ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘ لیکن ہمارے ہاں کیا کوئی چیز ہے جو ملاوٹ کے بغیر ہو۔ دودھ میں پانی اور غذائی اجناس میں نقصان دہ اشیاء کی ملاوٹ سے بھی ہم باز نہ آئیں اور دعوی کریں حب رسولﷺ کا۔ یہ قول و فعل کی تفاوت اور علم و عمل کا تضاد نہیں تواور کیا ہے؟

مغرب کے کلچر میں ٹریفک کا منظم نظام بھی ایک بڑی خوبی ہے جو یقینا ہمارے ممالک کیلئے قابل تقلید ہے۔ ڈرائیونگ ٹیسٹ اور ٹریفک کے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد اس لئے بھی بہت اہم ہے کہ اس میں انسانی جانوں کے تلف ہونے کا خطرہ ہو تا ہے۔پچھلے دو ہفتے مجھے پاکستان میں رہنے کا موقع ملا۔ ہمارے خیال کے مطابق وہاں کا ٹریفک کا نظام ایک بہت بڑی’’ دہشت گردی‘‘ ہے۔ جو ہر روز کئی جانیں نگل جاتا ہے۔ اس کے بھیانک نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ ہر روز کے حادثات میں بلا شبہ سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ لیکن ارباب اقتدار اور عوام الناس کی طرف سے اس پر کوئی خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ تہذیب مغرب کی ہر روایت ہمارے ارباب حل و عقد اور اصحاب ثروت یہاں سے اٹھا کے وہاں لے گئے۔ نیو ائر نائٹ، ویلنٹائن ڈے، نیو برانڈ کی شراب اور رقص و سرود کی محافل یہاں سے بڑھ کر وہاں ہیں۔ کیا ممکن نہ تھا کہ کوئی اچھی روایات بھی یہاں سے لے جاتے۔ ان میں سے ایک’’ ٹریفک کا نظام‘‘ ہے۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ شاید ’’ خاندانی منصوبہ بندی‘‘ کے محکمہ کے تحت اسے بھی آبادی میں کمی کیلئے بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ الامان والحفیظ

جہاں تک تہذیبِ مغرب کی خامیوں کا تعلق ہے اس میں فحاشی و عریانی اور جنسی بے راہروی صف اول میں آتی ہیں۔ خاندانی نظام کا تقدس مجروح ہو چکا ہے۔ رشتوں کا احترام آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ہمارے مشاہدے اور دانست کے مطابق ان کی اس فکری بے اعتدالی کا سبب یہ ہے کہ اس حوالے سے ان کے پاس کوئی’’ رول ماڈل‘‘ نہیں۔ مذہبا عیسائی ہونے کی وجہ سے اہل مغرب کے ہاں دو شخصیات اہمیت کی حامل ہیں ’’ حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام‘‘۔ ان دونوں ہستیوں کی زندگی کے احوال قرآن پاک میں بھی موجود ہیں۔ ان دونوں ہستیوں کا احترام ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ لیکن اس تاریخی حقیقت کو ماننا پڑتا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کے بطن پاک سے معجزانہ طور پر بغیر باپ حضرت عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے لیکن حضرت مریم نے زندگی بھر شادی نہیں کی۔ حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی 33 سال کی عمر میں زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا گیا اور ان کی شادی بھی ثابت نہیں۔ اس طرح جب نکاح اور شادی کے حوالے سے انہیں کوئی رول ماڈل نظر نہیں آتا تو عقل و خرد کا سہارا لیکر جو جی میں آتا ہے کرتے ہیں۔ لیکن بحیثیت مسلمان ہم خوش قسمت ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں عفت و عصمت اورخوشگوار ازدواجی زندگی کی مکمل راہنمائی موجود ہے۔ اس کے باوجود اگر ہم بے راہ روی کو اپنائیں تو شومی قسمت کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے۔
میں نے دیکھا ہے کہ فیشن میں میں الجھ کر اکثر ہم نے اسلاف کی عظمت کے کفن بیچ دئے
نئی تہذیب کی بے روح بہاروں کے عوض اپنی تہذیب کے شاداب چمن بیچ دئے
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 241208 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More