دورۂ ترکی ۔تجزیات و امکانات

تسنیم کوثر
عالمی منظر نامہ پر رونما ہونے والے واقعات اور ان کے ردعمل میں مختلف ممالک کے مابین بدلتے روابط وضوابط کے حوالے سے بات کی جائے تویہ بالکل واضح ہے کہ آج کے حالات میں حکومت کی سطح پر ہو یا عوامی سطح پر دوستی اور دشمنی کے پیمانے یکسر بدل گئے ہیں۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ دشمنوں سے بھی دوستی کے وہ مشترکہ مواقع ڈھونڈے جائیں جہاں اختلافات کی گنجائش کم سے کم ہو۔اس شعبے میں جو کوششیں کی جارہی ہیں اس میں بڑی تصویر نظر آرہی ہے ۔وہ ایشیا کو یوروپ پر فوقیت دینے کی کوشش کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔ان حالات کا تجزیہ کریں تو روس،امریکہ اور برطانیہ اپنی شاطرانہ چالبازیوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ہندوستان جنوبی ایشیا کا ایسا خطہ ہے جس میں سالار بننے کی پوری صلاحیت موجود ہے حالانکہ چین کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس معاملے میں بازی مارلے ۔دوسری طرف شمالی خطے میں ایران اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ اس گھڑدوڑ میں وہ آخری وقت پر اپنی گردن آگے کرکے یہ ریس جیت لے مگر ترکی اپنی پوری تحمل مزاجی کے ساتھ برابری پر ہے ۔

بات دشمنی کی کریں تو عالمی سطح پر پوری دنیا ایک عجیب مخمصہ میں الجھی ہوئی ہے۔اس وقت لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ خلفشار کیوں اور کس نے بپا کررکھا ہے ۔آزاد ریاستوں کو تاراج کرکے اس کی تہذیب وثقافت کے فخر آمیز باقیات کو مٹانے کی خوفناک اور خطر ناک سازش کا محرک کیا ہے اور اس کا کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہے، اس بات کو سمجھنے کے لئے جہنم رسید صدر برطانیہ مارگریٹ تھیچر کی وہ بات یاد رکھی جائے جب انہوں نے یہ بابرکت جملہ کہا تھا کہ ’ہمیں نئے دشمن کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ اسلام نام کا دشمن موجود ہے‘۔

چلئے صاحب وہ توصاف گو نکلیں اور برملا اپنی نفرت کا اظہار کرگئیں مگر سچ تو یہی ہے کہ عالمی سطح پر یہ دنیا مذہبی بالادستی کی جنگ میں مبتلا کردی گئی ہے ۔یعنی پھر وہی بات کہ میرا خدا تمہارے خدا سے بڑا ہے۔دنیا اس حقیقت سے خوب اچھی طرح واقف ہے کہ مسلمان مٹھی بھر ہی کیوں نہ ہوں غالب آجاتے ہیں۔بشرط وہ متحد ہوں۔اس لئے ان کے اتحاد کو منتشر کرکے ہی انہیں اس غلبے سے باز رکھا جاسکتا ہے ۔سووہ اپنی حکمت عملی میں کامیاب نظرآرہے ہیں۔عراق وشام اور اب یمن اس کا بین ثبوت ہیں کہ مسلمان شیعہ سنی کے دودھڑوں میں تقسیم کیا جاچکا ہے ۔یوروپ اس معاملے میں جارحانہ رویہ اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے ۔برطانیہ ،امریکہ ،روس ،فرانس اور اسرائیل اس میدان کارزار میں شمشیر برہنہ لئے پا بہ رکاب ہیں۔

اسلاموفوبیاکا پلیگ یورپ کو اس قدر پریشان کررہا ہے کہ وہ خوف میں مبتلا ہیں کہ جانے کب، کہاں اور کس کو اسلام کی گلٹی نکل آئے۔انہیں اپنا وجود مٹتا دکھائی دے رہا ہے۔ اسلئے انہوں نے دانستہ طور پر مسلمانوں کی تہذیبی وثقافتی دستاویزات سے لبریز ممالک کو نیست ونابود کرنے کے لئے خانہ جنگی بپا کررکھی ہے تاکہ وہ اس خانہ جنگی اور دہشت گردی کے نام نہاد فتنہ سے نمٹنے کے نا م پر ان باقیات او رآثار کو مٹا دیں جس کی موجودگی مسلمانوں کے ایمان کو جلا بخشتی ہے اوردین توانا ہوکر انہیں غلبہ کی بھرپور تحریک دیتا ہے ۔کیونکہ یہی تاریخ رہی ہے ۔مسلمانوں کے خلاف یوروپ کی مشترکہ حکمت عملی کے برعکس ایشیائی ممالک کی آپسی مستحکم عوامی وتجارتی روابط اس جنگ کو ایک دوسری نہج پر لے جائیں گے۔اوریقینا یہ بھائی چارہ یوروپ پر ایشیاکو فوقیت دلانے کی جانب ایک احسن قدم ہوگا۔مقابلہ اسلام بنام غیر اسلام نہ ہوکر خوشحال وترقی کے حوالے سے یوروپ اور ایشیا کے درمیان ہوگا۔ایسے میں اگر ایشیائی ممالک تنازعاتی معاملات کودرکنار کرکے باہمی ترقی کے روابط پر توجہ مرکوز کریں تو معدنیات سے بھرپور ایشیا کو یوروپ پر فوقیت حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔اور ایشیائی ممالک کے مضبوط ومستحکم روابط دنیا کو درپیش نیوکلیائی جنگ سے محفوظ رکھنے میں ایک اہم قدم ثابت ہوسکتے ہیں تاکہ دنیا میں انسان زندہ رہ سکے اور انسانیت فروغ پاسکے ۔دنیا کو مذہبی و سرحدی لڑائیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اسلام نے ’مشاورت اور معاہدہ ‘کے سنہری رہنما اصول وضع کررکھے ہیں جن کو شدومد سے نافذالعمل کرنے کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے ترکی ایک قدم آگے بڑھتا دکھائی دے رہاہے ۔ترکی کی تاریخ کا جائزہ لیں تو حالیہ حکومت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ اسلامی خدوخال کے آئینے میں اپنے اصول وضوابط کے ساتھ آگے بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔

ہزارسالہ تاریخی ،تہذیبی اور ثقافتی مماثلت نے ترکی اور ہندوستان کو ہمیشہ ایک دوسرے کی طرف متوجہ رکھا ہے مگر کچھ کڑواہٹ بھی رہی ہے ۔ترکی نے مسلمانان ہند اور حکومت ہند سے دیرینہ روابط کی ازسرنوتجدید کے لئے 2008سے ہی کوششیں شروع کردی تھیں جس کا سہرا صدر طیب رجب اردغان کے سر جاتا ہے ۔دونوں ممالک کے مابین سفارتی سطح کی آمدورفت، تجارتی تعلقات ،صدارتی مہمان نوازی پچھلے کچھ سالوں میں بڑھی ہے ۔2010میں ترکی نے پبلک ڈپلومیسی کا شعبہ قائم کیا جس نے مختلف ممالک میں عوامی رابطے کو مضبوط کرنے کی سمت پیش رفت کی ہے ۔مسلمانان ہند دنیا کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہونے کے باوجود صرف اسلئے اسلامی ممالک میں ہونے والی ترقی اور خوشحالی کا حصہ نہیں بن پاتے کیونکہ ہندوستان مسلم ممالک کا حصہ نہیں ہے (اور ہوبھی نہیں سکتا)مگر یہاں کے مسلمان عالمی مسلم برادری کا حصہ ضرور ہیں۔خاص بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے ان ترقی اور خوشحالی کے مواقع کی ضرورت ہے جو مسلم ممالک کے باہمی رابطے ان کے عوام تک بہم پہنچاتے ہیں۔اگر ہندوستان کے تجارتی تعلقات ترکی ،سعودی عرب اور انڈونیشیا(G-20)ممالک سے بڑھتے ہیں تو اسکا سیدھا فائدہ ملکی سطح پر ہوگا مگر بالواسطہ مسلمانان ہند کو ہوگا۔2014میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد مودی حکومت کی خارجہ پالیسی نے واضح اشارے دیئے کہ تجارتی اور ثقافتی سطح پر بھارت اپنی وسیع حکمت عملی رکھتا ہے ۔اس سلسلے میں اعلی قیادت سے لے کر وزارتی سطح تک بہت تیز عمل دیکھنے کو ملا ۔جہاں دوسرے ممالک سے تعلقات کی استواری سامنے سے دکھی وہیں اندرخانے ترکی سے بھی روابط بڑھے ہیں۔وسط جنوری 2015میں وزیرخارجہ محترمہ شسما سوراج نے ترکی کا غیرسرکاری دورہ کیا۔فروری میں باہمی بات چیت میں کچھ اور پیش رفت ہوئی ۔یہ تمام کوششیں حکومتی سطح پر جاری تھیں۔ساتھ ہی ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی (پریسیڈنٹ مسلم پولیٹیکل کاؤنسل آف انڈیا)،چیف ایڈیٹر ہفت روزہ ’مشن ‘2010سے ہی ترکی کے عوامی رابطہ محکمے کے رابطے میں رہے اوران کی کوشش رہی کہ ایک اعلی سطحی ہندوستانی وفد ترکی کا دورہ کرے ۔بلاآخر ان کی کوششیں رنگ لائیں اور حکومت ترکی کی جانب سے انہیں وفد کا خاکہ تیار کرنے کے لیے کہا گیا ۔ڈاکٹر رحمانی نے مسلمانوں کے درمیان اردو میڈیا کی مقبولیت اور رسائی اور ترکی زبان سے اردو کی دیرینہ وابستگی کومدنظر رکھتے ہوئے اردو صحافیوں ،مسلم سیاسی لیڈروں اور سماجی کارکنان پر مشتمل ناموں کی ایک لسٹ ترکی سفارتخانہ کو سونپ دی ۔بات چیت کا دورجاری رہا اور اوائل مارچ میں حکومت ترکی کے پبلک ڈپلومیسی ڈپارٹمنٹ کی جانب سے 14رکنی وفد کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی کی قیادت میں 23مارچ سے29مارچ تک یہ وفد ترکی حکومت کا مہمان رہا جس نے استنبول ،انقرہ اور غازن ٹیپ (سیریا بارڈر ،ریفیوجی کیمپ)کا دورہ کیا اور وہاں کے حالات سے واقفیت حاصل کی۔

عوامی رابطے کی کڑی میں یہ پہلا وفد ہے جس نے ترکی حکومت کی مہمان نوازی کا شرف حاصل کیا ۔امید ہے کہ یہ دورہ دونوں ملکوں کے مابین تجارتی ،ثقافتی اور تہذیبی تعلقات کی استواری میں سنگ میل ثابت ہوگا۔

23سے 30 مارچ 2015تک ترکی کے مصروف ترین دورے کے بعد تمام ہی اراکین وفد وطن واپس لوٹ آئے ہیں ۔ وفد میں مسلم پولیٹکل کاؤنسل آ ف انڈیا کے صدر ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی،آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے کارگزار صدر مجتبیٰ فاروق ، ویلفیئر پارٹی کے نائب صدر مولانا عبد الوہاب خلجی، ہفت روزہ’’ مشن‘‘ کی مینجنگ ایڈیٹر تسنیم کوثر ، درگاہ اجمیر کے گدی نشین سلمان چشتی ، درگاہ امام ربانی سرہندکے منتظم صاحبزادہ محمد زبیر ، جامع مسجد دلی کے نائب امام سید شعبان بخاری ، مسلم مجلس عمل کے سیکریٹری طارق رحمت بخاری ، مائنورٹی فرنٹ کے صدر ایس ایم آصف ،روز نامہ انقلاب کے ایڈیٹر شکیل حسن شمسی روزنامہ سیاست کے نیوز ایڈیٹر عامر علی خان، اعتماد کے بیوروایم اے ماجد،اردو ٹائمز کے مینجنگ ایڈیٹر امتیاز احمد منظور احمد ، اخبار مشرق کے ایڈیٹر وسیم الحق شامل تھے ۔
Safi Rahman
About the Author: Safi Rahman Read More Articles by Safi Rahman: 15 Articles with 9744 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.