گزشتہ ہفتے ترکی کا سفر درپیش
رہا۔ ہندوستان مسلم تنظیموں کے ذمے داران اور اردو صحافیوں کا ایک چودہ
رکنی وفد حکومت ترکی کی دعوت پر وہاں گیاتھا ۔ وفد کا مقصد جدید ترکی میں
تغیر پذیر سیاسی ، سماجی، اقتصادی اور دینی حالات کا جائزہ لینا تھا ساتھ
ہی ہند ترکی تعلقات کی تجدید بھی پیش نظر تھی ۔ ترکی اور ہندوستان صدیوں سے
ایک دوسرے کے بہت قریب رہے ہیں ۔ عوامی سطح پر دونوں ملکوں کے تعلقا ت ایک
تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لیکن 1924میں سقوط خلافت کے بعد سے اس
تعلق کی گرم جوشی ختم ہوگئی تھی ۔ اور تقسیم ملک کے بعد تو ہند ترکی تعلقات
کی جگہ ہند پاکستان تعلقات نے لے لی تھی۔ دوسری جانب خود اندورون ترکی
سیکولر حکومت کا قیام ضد کی حدتک اسلام مخالف ہوچکا تھا ایسے میں دونوں
ممالک کے مابین تعلقات مستحکم اور خوشگوار تو رہے مگر ان میں گرم جوشی کی
کمی رہی نتیجے میں تجارتی اور ثقافتی اور سیاسی ہر سطح پر ترکی ہندوستان سے
دور ہوتا چلا گیا ۔ مگر 1980کے بعد سے ترکی میں ایک نئی ذہنیت کی حکومت آئی
ہے ۔ جو اپنے تمام دیرینہ دوستوں سے اپنے تعلقات کی تجدید کی خواہاں ہے۔ اس
وفد کا دورہ اسی خواہش کا نتیجہ تھا۔
جدید ترکی بالکل نئے انداز سے سرابھار رہاہے ۔ وہ ترکی جس میں عربی اذان پر
پابندی عائد کردی گئی تھی ۔ ترکی ٹوپی کی جگہ ہیٹلے چکا تھا۔ گھر میں قرآن
برآمد ہوجانے پر گھر جلادیا جاتا تھا۔ عورتوں کا حجاب پہننا اس قدر ممنوع
تھا کہ اگر کسی وزیر کی بیوی حجاب پہنے پائی جائے تو وزیر کو اپنا عہدہ
چھوڑنا پڑتا تھا۔ جدیدیت کے نام برہنگی جہاں عام ہوچکی تھی۔ ترکی زبان کا
رسم الخط عربی سے بدل کر انگلش کردیا گیا تھا ۔ جہاں حکمرانی کے نام پر محض
فوج کا حکم چلتا تھا اور جمہوری انتخابات کے ذریعے چنی ہوئی سرکار بھی فوجی
حکم کے بغیر جنبش نہیں کرسکتی۔ وزرائے اعظم تک کو عہدوں سے برخاست کردیا
جاتا تھا۔ اس ترکی میں آج گھومئے تو 90سال پرانے انداز کی کہیں جھلک بھی
نہیں ملتی حیرت ہوتی ہے کہ جس ملک نے ابھی محض 90سال پہلے ایک عوامی رد عمل
کے ذریعے یوٹرن لے کر خود کو یکسر بدل ڈالا تھا وہی ترکی گزشتہ بیس سال سے
پھرا پنی جڑوں پر واپس جانے کی کامیاب جدو جہد کررہا ہے ۔ وفد نے چاردن
انقرہ میں سرکاری حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں گزارے ۔ ایک دن غازی انٹیپ میں
پناہ گزینوں کے ساتھ کے ایک کیمپ میں بسر کیا اور دو دن تاریخی شہر استنبول
میں غیر سرکاری تنظیموں کے ذمے داران کے ساتھ گزارے ۔ پورے وفد پر ذہنی طور
پر بہت خوشگوار ، حوصلہ افزا اور امید افزا اثرات مرتب ہوئے۔
ترکی کی وزارت عظمی کے زیر اہتمام پبلک ڈپلومیسی محکمے کے تحت اس وفد نے
نائب وزیر اعظم ، صدر ترکی کے سیاسی مشیر ، مذہبی امور کی وزرات کے
ڈائریکٹر ، انا دولیا خبر ایجنسی ، خیراتی اداروں کی انجمنوں ، تجارتی
انجمنوں اور غیر سرکاری سیاسی پر یشر گروپ کے ذمے داران سے ملاقاتیں کیں۔
حیرت انگیز طور پر تمام ذمے داران کے مابین ایک یکسانیت اور تسلسل پایا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ترکی کا ہر شعبہ اور آزاد عوامی ادارے ایک ہی
تناظر میں سوچ بھی رہے اس پر عمل بھی کررہے ہیں اور اسی نظریے کو مزید وسعت
دینے کے لئے کوشاں بھی ہیں ۔ نہ صرف یہ کہ ترکی میں بلکہ عالمی سطح پر اس
نظریے کی ترویج و اشاعت کے اقدامات بھی کئے جارہے ہیں۔ یورپ کی تہذیب سے
برگشتہ اسی کے علی الرغم ایک اسلامی نظریہ سیاست کے ترویج کی بھرپور کوشش
کی جارہی ہے اور دلچسپ اور منفرد پہلو یہ ہے کہ ترکی کے عوام اور حکومت
یکساں طور پر انتہائی مثبت، پرامن اورمروجہ جمہوری طریقوں سے ہی یہ انقلاب
بپا کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت جہاں ایک جانب اسلام کا خوف بتا کر کے ساری
دنیا کو اسلام مخالف خیمے میں یکجا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ وہیں دوسری
جانب خلافت اسلامی کے قیام کے نام پر دنیا پر غلبہ ٔاسلامی کے نعرہ کو
بندوق کے ذریعے بلند کرنے والی آوازوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے ۔ داعش،
القاعدہ، بوکو حرام جیسی دہشت گرد مگر اسلام دشمن تنظیمیں جو دراصل اسی
اسلام مخالف خیمے کو یکجا کرنے میں کمک پہونچا رہی ہیں ۔ غیر جہوری ، عسکری
اور ظالمانہ طریقوں سے اسلام کو درکنار کررہی ہیں۔ دونوں کے درمیان آج جدید
ترکی کھڑا ہے ۔ جو ایک جانب یورپ کے اس اسلام دشمن نظام کی بیج کنی چاہتا
ہے وہیں دوسرے محاذ پر اسلام کے نام پر جاری دہشت گردانہ سرگرمیوں سے بھی
نبرد آزما ہے ۔ ایک زبردست جدوجہد کے ذریعے اسلام کے ترقی پسند امن دوست،
انسانی اخوت سے بھر پور ، نافع انسانیت تحریک کے طور پر اسلام کو پیش کر کے
یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہاہے کہ اکیسویں صدی کی دنیا میں بھی اسلام ایک
پرامن جمہوری طرز حکومت کے ذریعے فلاحی ریاست قائم کرنے کی بھر پور صلاحیت
رکھتا ہے ۔
اپنی اس جدوجہد کے ساتھ پڑوسی ملک شام کے عوامی بحران سے متاثرہ لاکھوں
افراد کی داد رسی جس طرح حکومت ترکی کی جانب سے کی جارہی ہے وہ عصر حاضر کی
تمام رفاہی اور فلاحی تنظیموں اور حکومتوں کے لئے نظیر کی حیثیت رکھتا ہے ۔
دو لاکھ سے زائد شامی پناہ گزینوں کو ترکی میں مہمان کہا جاتا ہے۔ اور جو
کیمپ ان کی رہائش کے لئے بنائے گئے وہ کسی بھی طرح ایک مہذب سماج کی پوش
کالونی سے کم حیثیت نہیں رکھتے جہاں نہ صرف سرپر ایک پر آسائش چھت دی جارہی
ہے ۔ بلکہ بچوں کو بہترین تعلیم و تربیت ،روزگار کے مواقع ، صحت کے
انتظامات اور حفاظت غرض ضرورت کی ہرچیز بہت ہی پروقار انداز میں فراہم کی
جارہی ہے ۔ وفد کے اکثر اراکین نے غازی انٹیپ کے ایک روزہ دورے کے بعد یہ
عمومی تاثر دیا کہ جو سہولیات کیمپوں میں دی جارہی ہیں وہ عام حالات کے
بودوباش سے بھی کہیں بہتر ہے ۔ خود پناہ گزینوں کی جانب سے مختلف انداز سے
ترکی سرکار کی تعریف کرتے ہوئے اظہار تشکر کیا گیا۔
حکومت ہند سے تعلقات کو لے کر بھی ترکی کے سرکاری حکام کافی پرجوش نظر آئے
۔ اور بار بار اس امر کا اعادہ مختلف محکموں کے افسران کرتے رہے کہ وہ
ثقافتی ، تجارتی ، تعلیمی اور سیاسی رشتوں کے استحکام کے ساتھ عوامی تعلقات
کو مزید وسعت دینا چاہتے ہیں ۔ واضح رہے کہ ملک میں بی جے پی سرکار کے قیام
کے بعد ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ نے بہت سے ممالک کا دورہ کیا ہے
لیکن ان میں سے اکثر دورے مشرق بعید کے بدھسٹ ملکوں کے کئے گئے جبکہ ان کے
قریب موجود مسلم ملکوں کو یکسر انداز کیا گیا۔ مگر ترکی ان میں ایک استثنیٰ
ہے کہ موجودہ سرکارکی وزیر خارجہ نے ابھی تک جن ممالک کا دورہ کیا ہے ان
میں ترکی تنہا مسلم ملک ہے ۔ اس سے حکومت ہند کی ترکی کے تئیں دلچسپی کا
اظہار ہوتا ہے ۔ خود ترکی میں مقیم ہندوستانی سفیر بھی ان تعلقات کی
استواری کے معاملے میں کافی سرگرم دکھائی دیئے۔
بہرحال حالات جو بھی ہوں دنیاکی سولہویں سب سے بڑی معیشت ترکی ہی ہے جو بہت
تیزی کے ساتھ جانب بہ اسلام گامزن ہے اور دنیائے اسلام ترکی کے دامن میں
ایک محفوظ مستقبل کے امکانات تلاش کرسکتی ہے۔ |