سیہنا
(Ghulam Ibnesultan, Jhang)
نوجوان سیہنا کی عین عالمِ شباب
میں ناگہانی موت کی خبر سن کر بستی کا ہر حساس انسان لرز اُٹھا۔ زندگی کا
ساز بھی ایک عجیب نوعیت کا ساز ہے ،اس کے ساز سے نموپانے والا زندگی کا
سوزِ دروں قلب اور روح کے احساسات پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ زندگی میں
کچھ ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو بادی النظر میں تو معمولی لوگ ہوتے
ہیں لیکن ان سے وابستہ یادیں غیر معمولی نوعیت اختیارکر لیتی ہیں۔ یہ لوگ
جب ہمارے پاس ہوتے ہیں تو ہم ان کی کوئی قدر نہیں کرتے لیکن جب یہی معمولی
لوگ زینہء ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھ
لیتے ہیں تومعاشرتی زندگی میں جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ کبھی پُر نہیں ہو
سکتا۔اندیشہء شام و سحر کے امین اوقات ،اتفاتات،سانحات، ،تعلقات،زندگی کے
ارتعاشات، اوراحباب سے وابستہ تلخ و شیریں یادوں کے ہیجانات کے لوحِ دِل پر
غیر مختتم اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سیہنا بھی ایک انتہائی غریب خاندان سے تعلق
رکھنے والے نہایت دیانت دار محنت کش کا بیٹا تھا۔سیہناکی بے بسی کے عالم
میں موت نے بستی کے تمام مکینوں کو یاس و ہراس میں مبتلا کر دیا ۔یہ کڑیل
نو جوان تن تنہا آ ٹھ برقی کھڈیاں چلاتا۔ صبح سے شام تک فیکڑی ایریا میں
انتہائی صبر آزما اور کٹھن حالات میں مزدوری کرتا اور کئی بار اسی فیکٹری
میں دن اور رات کی ڈبل شفٹ بھی لگاتا ۔ رزقِ حلال کماکر اپنے بوڑھے والدین
کے لیے دو وقت کی روٹی اور دوا ،علاج کے لیے درکار رقم کا بندو بست کرتا
تھا ۔ جب سے سیہنانے مزدوری پر جانے کے کام کا آغاز کیا اس کے گھر والوں نے
اس کی حوصلہ افزائی کی جس سے اس کے گھر کی روزانہ آمدنی میں اضافہ ہوگیا۔
قرض کا بوجھ اُترنے لگا اور خزاں کے سیکڑوں مناظر دیکھنے کے بعد طلوعِ صبح
ِ بہاراں کی موہوم سی اُمید پیدا ہو گئی ۔ اپنے والدین کی ہدایت کے مطابق
سیہنا نے ایک ڈاکیے کی رہنمائی سے نزدیکی ڈاک خانے میں اپنا بچت کھاتہ بھی
کھو ل لیا تھا ۔سیہنا کی ماں شاہدہ اور باپ فدا بہت مطمئن و مسرور رہنے لگے
۔ وہ اس آس پر زندہ تھے کہ شاید پتھر کی بھی تقدیر بل جائے۔ ان کاقدیم
آبائی مکا ن جو طُوفانِ نوحؑ کی باقیات کا منظر پیش کر رہا تھا اب ایک
کھنڈر کی شکل اختیا ر کر گیا تھا۔ سیہنا کے کام پر جانے کے بعد اس میں
تعمیری نوعیت کی مرمت اور برائے نام سی تبدیلیا ں رونما ہونے لگیں۔ پہلے اس
بوسیدہ مکان میں دن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں ہوتا تھا ،اب اس میں بجلی
کا میٹر لگ گیا۔ نصف صدی سے مرمت طلب شکستہ دیوار وں اور چھلنی کی طرح
ٹپکنے والی چھتوں کی مرمت کر دی گئی ۔ یوں تو سیہنا کا مکان گارے اور کچی
اینٹوں سے تعمیر کیا گیا تھا لیکن گلی کی جانب والی دیوار دوم اینٹوں سے
نئے سرے سے تعمیر کی گئی ، اس دیوارکو پلستر کر دیا گیا۔ ایک دن میں وہا ں
سے گزراتو یہ دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہو ئی کہ سیہناکے گھر کی گلی والی
دیوارمیں کیکر کے پُرانے دیمک خوردہ دروازے کی جگہ لوہے کا ایک خوب صورت
دروازہ نصب ہو چکاتھا،جس پر نیلا روغن بہت بھلا لگ رہا تھا۔ اور ایک مربع
فٹ لکڑی کی تختی پر سفید روغن کر کے اس پر نیلی روشنائی سے جلی حروف میں
لکھا تھا ’’ قصرِ سیہنا‘‘۔بعض لوگوں کی کسر ِ نفسی اور عجز و انکسار میں
لپٹی رعونت کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے بلند و بالا قصر و ایوان پر جھونپڑی
لکھ دیتے ہیں جیسے ’’ نمرود کاٹیج‘‘وغیرہ۔ہر فرعون ،نمرود ،فریدوں اور
قارون عام آدمی کا مکھوٹا اپنے چہرے پر چڑھا کر سادہ لوح لوگوں کی آنکھوں
میں دُھول جھونکتا ہے مگر اس کا کچا چٹھا سب کے سامنے ہوتا ہے ۔ اس کے
برعکس ایک کُٹیا پر قصر کی تختی دیکھ کر ہر شخص حیرت اور استعجاب میں ڈوب
جاتالیکن غریبوں نے اپنے دل کی شادمانی کے لیے جس انتہائی مختصر اورسہل راہ
کا انتخاب کیاوہ خواب سراب کے سوا کچھ بھی تو نہ تھا۔
محنت کش طبقے کا یہ نفسیاتی مسئلہ ہے کہ یہ روکھی سوکھی کھاکر نل کا پانی
پی کر بھی ہر حال میں اپنے خالق کاشکر ادا کرتے ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے
کہ یہ نوشتہء تقدیر اور حالات کا جبر ہے جو انھیں صبر و شکر کے ساتھ زندگی
کے دن پورے کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ فدا اور شاہدہ نے اپنے اکلوتے بیٹے
سیہنا کی شادی کے اخراجات کے لیے مناسب رقم جمع کرلی ۔ انھوں نے اپنے بیٹے
سیہنا کو ہدایت کر دی کہ وہ گھر کے اخراجات کے لیے درکاررقم الگ کر نے کے
بعد باقی رقم نزدیکی ڈاک خانے میں اپنے کھاتے میں جمع کر ا دیا کرے۔فدا اور
شاہدہ بھی مہینے میں ایک بار مقامی ڈاک خانے میں جاتے اور مہینہ بھر میں وہ
اپنا پیٹ کاٹ کر جورقم پس انداز کرتے وہ سیہناکے بچت کھاتے میں جمع کرا
دیتے۔جاگتی آنکھوں سے روشن مستقبل کے خواب دیکھنے کی آرزو اور اُن سُندر
سپنوں کی تعبیر کے انتظارمیں اُن کی آنکھیں پتھر ا گئی تھیں۔الم نصیبوں کے
ساتھ المیہ یہ رہا ہے کہ جب وہ فاقہ کشی کا شکار ہوں تو کوئی اُنھیں نانِ
جویں تک دینے پر آمادہ نہیں ہوتا اور جب وہ روکھی سُو کھی کھا کر پیٹ کا
دوزخ بھرنے کی سکت رکھتے ہوں تو کوئی انھیں دیکھ نہیں سکتا۔حالات تیزی کے
ساتھ بدل رہے تھے۔ سیہنا کے والدین فدا اور شاہدہ اپنی زندگی کے بہت کٹھن
حالات سے گزر رہے تھے۔ اُس کی ماں شاہدہ دن بھر دولت مند لوگوں کے گھروں
میں صفائی اور خانہ داری کے کام انجام دینے کے لیے نوکری کرتی۔ اپنے فارغ
اوقات میں یہ محنت کش عورت کپڑوں پر کشیدہ کاری کرتی ،شیشوں والی پنکھیاں
بناتی اور اُونی سوئیٹر بنا کر رزقِ حلال کماتی۔ فدا نے زندگی بھر معماروں
کے ساتھ مل کر مکانات کی تعمیر میں مزدوری کی ۔ چار سا ل قبل ایک مکان کی
تعمیر میں مزدوری کے دوران وہ زیر ِ تعمیر ہال کی تعمیر کے لیے بنائے گئے
ایک قالب پر کھڑاتھا کہ قالب کے تختے ٹوٹ گئے ۔اس حادثے کے نتیجے میں دو
مزدور زندگی کی بازی ہار گئے ،فدا شدید زخمی ہو اور اس کی ایک ٹانگ ٹُوٹ
گئی مگر اس نے غم کو گلے کا ہار نہ بنایا ۔ زیرِ تعمیر ہال کے مالک سرمایہ
داروں میں سے کسی نے ان مزدورں کے شکستہ دل کا حال نہ پُوچھا۔ اس کی زندگی
تو بچ گئی لیکن اس حادثے کے بعد وہ مزدوری کرنے اور بھاری بوجھ اُٹھانے کے
قابل نہ تھا۔ انسانی زندگی کئی سانحات اورحوادث سے عبارت ہے وہ یہ بات اچھی
طرح جا نتا تھا کہ ان حادثات کے بعد انسان کی زندگی کا سفر تو جیسے تیسے کٹ
ہی جاتا ہے لیکں اس کی روح زخم زخم ہو جاتی ہے اور پُورا وجودکر چیوں میں
بٹ جاتا ہے ۔ اس تکلیف دہ حادثے کے زخم بھرنے کے بعد فدا نے ایک نئے عزم کے
ساتھ زندگی کے کٹھن سفر کا آغاز کیا۔ وہ منہہ اندھیرے گھر سے نکلتا ،
دریائے جہلم اور چناب کے سنگم پر واقع تریموں ہیڈ ورکس کے نواح میں میلوں
تک پھیلے خود رو سر کنڈوں سے مونج کا ٹتا اور اس کا گٹھا سر پر اُٹھا کر
گھر لاتا ،مونج سوکھ جانے کے بعد اپنے گھر کے چھپر میں بیٹھ کر مونج کُو
ٹتا۔اس کے بعد ہاتھ پر مونج کا بان بناتا اور مونج کا یہ پُختہ بان شہر میں
جا کر فروخت کر دیتا۔فدا کا بنایا ہو مونج کا بان لوگوں میں بہت مقبول تھا
چار پائیاں بُننے کے لیے لوگ یہ بان ہاتھوں ہاتھ لیتے مگر اس کے بد طینت
حاسد اس کی بڑھتی ہوئی آمدنی ،متوقع خوش حالی اور فراغت کو دیکھ کر اپنی بے
بصری پر کفِ افسوس ملتے اور اپنے شب و روز کے معمولات کے انجام کے بارے میں
سوچ کے ان کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ جاتے۔
فدا اور شاہدہ نے سیہنا کی شادی کے لیے ہم پلہ رشتے کی تلاش شروع کر دی۔چار
سال کے مختصر عرصے میں فدا ،شاہدہ اور سیہنا کی خون پسینے کی کمائی میں جو
بچت ڈاک خانے کے بچت کھاتے میں جمع ہو سکی وہ پانچ لاکھ تھی ۔سب نے اسے
قدرت ِ کاملہ کی کرم نوازی پر محمول کیا۔ موسم کی اداؤں کو سمجھنے والے اس
امر سے بخوبی آگا ہ ہیں کہ لوگ تیزی سے تغیر پذیر موسم کے مانند روپ بدل
لیتے ہیں۔ بعض ابن الوقت لوگ تو اپنا سوانگ بدلنے میں گرگٹ کو بھی مات دیتے
ہیں۔ ہر قسم کی سہولیات سے محروم قدیم کچی آبادی کے وہ لوگ جو اس غریب
خاندان کی غربت کے باعث ان لوگوں کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے
،وہ بھی اب ان کی جانب مائل بہ کرم ہو گئے۔خزاں کی مسموم ہواؤں نے ان کے
گلشنِ ہستی میں اُمیدوں کی کلیوں اور توقعات کے شگوفوں کو جُھلسا دیا تھا۔
اچھے دنوں کے بارے میں اب ان کی اُمیدبر آنے اور چشم کے زار رونے کی کیفیت
کے تھمنے کی صورت نظر آ رہی تھی۔میر ے ایک پڑوسی ارشد کے ساتھ اس خاندان کے
دیرینہ مراسم تھے۔ارشد نے اس مفلوک الحال خاندان کی زندگی کے بارے میں مجھے
بتا یا کہ ہمیشہ کوئی بلا ان بد نصیبوں کے تعاقب میں رہتی ہے۔ عام تاثر یہ
ہوتا ہے کہ ہر شخص کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آتے ہیں لیکن ان مجبوروں
کی زندگی میں فراز عنقا ہیں اور نشیبوں کی بھر مار ہے۔ تقدیر کے رازوں کا
مظہر یہ ایک ایسا معما ہے جسے سمجھنا اور سمجھاناممکن ہی نہیں ۔یہ بات کوئی
نہیں جانتا کہ ان مجبوروں کی حیات مستعارکی سب رُتیں بے ثمر ،کلیاں شرر
،زندگیاں مختصر اور آہیں بے اثر کیوں کر دی جاتی ہیں ۔ جب بھی ان کے گلشن
ہستی میں اُمید کا کوئی گلاب نمو پاتا ہے تو اہلِ جور اس میں حسد کے خارِ
مغیلاں چبھو کر ان کی روح کو ناقابل اندمال صدمات سے دو چار کر دیتے ہیں
۔نامعلوم ان کے گھر پر آسیب کا سایہ ہے ،کسی جن ،بھوت، چڑیل ،آدم خور،کالے
جادو یا بد روح کا اثر ہے کہ جب بھی ان کے گھر میں خوشی کا کوئی امکان پیدا
ہوتا ہے ، ایسے پُر اسرار حالات پیدا ہو جاتے کہ اِن کی اُمیدوں کی فصل
غارت ہو جاتی اور صبح شام کی تمام محنت اکارت چلی جاتی۔ایک دن اسی موضوع پر
گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ ارشد نے کہا:
’’آج سیہنا ،اس کا باپ فدا اور اس کی ماں شاہدہ یہاں مجھے ملنے آ رہے
ہیں۔تم بھی یہیں رُک جاؤ اور ان الم نصیبوں کے پیچیدہ مسائل کی گُتھی
سُلجھانے کی کوششوں میں میری مدد کرو۔ان کے ساتھ میرادردمندی اور خلوص کا
جو تعلق ہے و ہ میں بر قرار رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
میں نے ارشد سے پُوچھا ’’خیر تو ہے !وہ کس مقصد کے لیے یہاں آ رہے ہیں۔‘‘
’’کوئی خاص مقصد تو نہیں ‘ارشد نے سرسری انداز میں کہا’’ یہ بھی عجیب لوگ
ہیں،خود کوتباہ کر لینے کا جب بھی کوئی غیر ذمہ دارانہ فیصلہ کر لیتے ہیں
تو محض مجھے آگاہ کرنے اور دِل دُکھانے کی خاطر مشورے کے لیے یہاں چلے آتے
ہیں۔‘‘
’’ یہ تو بڑی حیران کُن بات ہے۔‘‘ میں نے کہا’’کوئی بھی انتہا پسندانہ
فیصلہ کر لینے اور اس پر عمل کرنے کی ٹھان لینے کے بعد کسی کو اس سے آگاہ
کرکے آزردہ کرنے اور اس کے بارے میں مشورہ کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی
ہے ؟‘‘
’’اب میں ان لوگوں کی ضرورت کی وضاحت کیسے کروں ؟‘‘ارشد نے بیزاری سے
کہا’’جس مشورے اور آگاہی کو آپ غیر ضروری سمجھتے ہیں،اُسی کو یہ لوگ نا
گزیر خیال کرتے ہیں۔اپنی بربادی اور انہدام کی پہاڑ جیسی غلطیاں کرنے کے
باوجود بھی انھیں کچھ دکھائی نہیں دیتا اور ذرا ملال تک نہیں ہوتا ۔یہ
مزدور اپنے دِل کی ویرانی کوتقدیر کے کھاتے میں ڈال کر اپنی زندگی آہوں
،پچھتاووں ،سسکیوں اور خون کے گھونٹ پینے میں گزار دیتے ہیں۔یہ مجبور انسان
وہم وگُمان کے اسیر ہیں اور نشے کی لت میں مبتلا ہیں ۔ان کی کور مغزی اور
بے بصری کا یہ حال ہے کہ جب تک ٹھو کر پہ ٹھوکر نہ کھائیں انھیں سکون نہیں
ملتا۔ گردشِ ایّام نے ان کے ساتھ ہمیشہ عجب کھیل کھیلے ہیں ۔بے چین ،
گھبرائے ہوئے خاک بہ سر پھرنا اور در در کی ٹھوکریں کھانا ان کا مقدر
ہیں۔اُمنگوں کے لاشے اُٹھائے، حسرتوں کی دہکتی آگ میں ہمہ وقت سُلگتے یہ
خزاں رسیدہ لوگ بُزدلانہ توہم پر ستی، مجنونانہ مہم جوئی اور احمقانہ قسمت
آزمائی کی خاطر ٹھوکر کے علاقے میں جانے والے ہیں۔‘‘
ابھی ہم یہ باتیں کر رہے تھے کہ فدا ،شاہدہ اور سیہنا پریشانی اور مایوسی
کے عالم میں وہاں آ پہنچے۔ ایک ان جانے خوف کے باعث فدا اور شاہدہ دونوں کے
چہرے ہلدی ہو رہے تھے۔سیہنا کی آنکھیں بوٹی ہو چُکی تھیں اور وہ لڑ کھڑا
رہا تھا۔ ہمارے قریب آ کر فدا نے بھرائی ہو ئی آواز میں کہا:
’’ہم نے یہ بستی چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔بہت ہو چُکی ،اب ہم چاروں طر ف
بکھرے دُکھوں کے جال سے نکلنا چاہتے ہیں۔ہم محنت کشوں کی یہاں کوئی قدر
نہیں کرتا۔ہم جان مار کے کام کرتے ہیں لیکن کبھی ہمیں کوئی انعام نہیں
ملا۔‘‘
’’کیا معاملہ ہے ؟اس قدرپریشان کیوں ہو ؟‘‘ارشد نے نرم لہجے میں پُو چھا
’’اس بستی کو چھوڑنے کے بعد تم کہاں جاؤ گے؟یہاں تمھیں کن مشکلات کا سامنا
ہے جن سے گھبرا کر تم بستی چھوڑنا چاہتے ہو؟حوصلے اور اعتماد سے کام لو ،سب
مشکلات کا حل نکل آ ئے گا ۔ کرب ناک حالات کے جبر کے باوجود صبر سے کام
لینا چاہیے۔ قادرِ مطلق کے انصاف اور مظلوموں کی دادرسی میں دیر تو ہو سکتی
ہے لیکن وہاں اندھیر ہر گز نہیں۔ تمھارا دماغ تو نہیں چل گیا کہ تم مزدور
ہو کر انعام کی تمنا کر رہے ہو۔یہاں توصرف جاہل کو اس کی جہالت کا انعام
ملتا ہے۔ ‘‘
’’اس بستی میں واقع ہمارے پُرانے گھر میں جن ،بُھوت ،چڑیلیں ،آسیب ،بد
روحیں،آدم خور اور سر کٹے انسان مستقل طور پر ڈیرہ ڈال چُکے ہیں۔‘‘شاہدہ نے
روتے ہوئے کہا’’اب ہم یہاں نہیں رہ سکتے ،ہماری زندگی خطرے میں ہے۔چڑیلیں
ہمارے گھر سے سامان اور پیسے چُرا کر لے جاتی ہیں۔میرے کانوں میں ڈالی ہوئی
سونے کی بالیاں تک چڑیلوں نے اُتارلیں۔‘‘
’’ سونے کی بالیاں چوری ہونے کے بعد تم نے نا معلوم چڑیلوں کے خلاف چوری کا
مقدمہ درج کیوں نہیں کرایا،یہ سب توہم پرستی اور خام خیالی ہے ۔‘‘ارشد نے
انھیں سمجھاتے ہوئے کہا’’ جس مخلوق کا ذکر تم لوگ کر رہے ہو اس پُر اسرار
مخلوق کو پہلے تو اس علاقے میں کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔ ‘‘
’’ ہم تھانے میں گئے تھے اور تھانے دار سے کہا تھا کہ وہ جلد از جلدچڑیلوں
کوگرفتارکرکے ان کے خلاف قانون کے مطابق مقدمہ درج کرین لیکن اس نے ہنس کر
ہمیں دھتکار دیااور ہم مظلوموں کا مذاق اُڑایا۔جہاں آگ جلتی ہے صرف وہی جگہ
آگ کی گرمی کو محسوس کر سکتی ہے ‘‘ سیہنا نے اضطراب سے جواب دیا ’’ صرف
ہمیں خبر ہے کہ ہم یہاں کن مصیبتوں میں گِھر گئے ہیں۔ گنڈے ،ٹونے اور کالے
جادو نے ہماری زندگی بر باد کر دی ہے ۔ہم ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں تو چار
قدم پیچھے کی جانب جا پڑتے ہیں ۔یہاں ہر روز صبح کے وقت جب میں کام کے لیے
اپنے گھر سے باہر نکلتا ہوں توایک منحوس کالی بلی میرا راستہ کا ٹتی
ہے،ہمارے کمرے کی چھت سے چمگادڑ چمٹے رہتے ہیں،صحن میں کیکر کے سوکھے درخت
پر بے شمار اُلّو اپنے گھونسلوں میں رہتے ہیں، دن کے وقت ہمارے گھر کے گرتے
ہوئے کمرے کی منڈیروں پر بیٹھے درجنوں زاغ و زغن اور کرگس ہمہ وقت پر
جھاڑتے رہتے ہیں۔‘‘
’’ کاہلی، غربت اور احساسِ محرومی نے تمھیں جذباتی طورپر اس قدر پر یشان کر
رکھا ہے کہ تم نفسیاتی مریض بن گئے ہو۔‘‘ ارشد نے انھیں تسلی دیتے ہوئے
کہا’’ کالے جادو کے بارے میں تمھاری بات تو سفید جُھوٹ ہے ۔بلاوجہ لال پیلا
ہونے اورخوف زدہ رہنے کی ضرورت نہیں تم نے جن بلاؤں کا ذکر کیا ہے ان کی
سرے سے کوئی حقیقت ہی نہیں۔کھسیانی کالی بِلیوں کو تو کھمبا نوچنے سے فرصت
نہیں وہ تمھارا رستہ روکنے میں کیسے کامیاب ہو سکتی ہیں؟رہ گئے زاغ و زغن
،کر گس اور بُوم و شپر تو یہ سب طیور توعرصہ ہوا عقابوں کے نشیمن میں جا
گُھسے ہیں جہاں وہ آرام سے دادِ عیش دے رہے ہیں۔اُنھیں باؤلے کُتے نے کاٹا
ہے کہ وہ سیم و زر سے آراستہ آشیاں ،مے و انگبیں اور شباب کی رنگینیاں چھوڑ
کر تمھارے زندان نما گھر کا رُخ کریں۔‘‘
’’یہ مکان منحوس ہے اور یہاں رہنے والوں کی زندگی ہمیشہ خطرے میں رہتی
ہے۔‘‘سیہنا نے پُر نم آنکھوں سے کہا’’ہم کل صُبح یہ گھر چھوڑ دیں گے ۔میں
نے اپنے تین مرلے کے مکان کا سودا دو لاکھ روپے کے عوض کر دیا ہے۔بستی کا
ایک باشندہ’’ ناسو‘‘جو آتش بازی کے سامان، سیمنٹ، کھاد اور نمک کا کاروبار
کرتا ہے،وہ یہاں سٹور بنائے گا۔اپنے آبائی مکان کی پُوری رقم میں نے وصول
کر لی ہے۔اس وقت ہم سب آپ سے الوداعی مُلاقات کے لیے آ ئے ہیں۔اس بار ہم جس
طرح بچھڑ ر ہے ہیں شاید ہماری اگلی ملاقات نیند اور خوابوں میں ہوسکے گی۔‘‘
ارشد سمجھ گیا کہ ’’ ناسو‘‘ جو ایک رسوائے زمانہ سمگلر اور منشیات کے دھندے
میں ملوث کالے دھن والا نو دولتیا تھا ،اس نے ان لوگوں کو یہاں سے نکال کر
ان کے مکان میں اپنا دھندہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔یہ جگہ اس نا ہنجار
کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ثابت ہوسکتی تھی۔
’’اچھا تم لوگ جہاں رہو خوش رہو ‘‘ارشد نے اس لا حاصل بحث کو ختم کرتے ہوئے
کہا’’اگر تم نے اپنی تخریب کے ذریعے اپنی لُٹیا ڈبونے کافیصلہ کر لیا ہے
توکس کی یہ تاب ہے کہ تمھیں اس سے بچا سکے؟‘‘
بوجھل قدموں سے یہ تینوں وہاں سے اپنی نا معلوم منزل کی جانب چل پڑے۔ میں
نے محسوس کیا کہ فدا اورشاہد دُکھی دِل سے اپنا آبائی مکان چھوڑ رہے تھے۔وہ
اس بستی سے اس طرح اُٹھے جس طرح کوئی جہاں سے اُٹھتا ہے ۔
وقت برق رفتاری سے گزرتا رہا،وقت کا یہی توسب سے بڑا المیہ ہے کہ یہ بڑی
تیزی کے ساتھ بیت جاتا ہے ۔جب ہمیں ہوش آتا ہے تو ہم یہ دیکھ کر ششدر رہ
جاتے ہیں کہ بیتے لمحات اب ہماری دسترس میں نہیں رہے۔دو ماہ کے بعد ارشد
تعلیمی مسائل کے سلسلے میں تین سال کے لیے بیرون ملک چلا گیا ۔ اپنے گھریلو
معاملات کے باعث مجھے اپنے آبائی گاؤں منتقل ہونا پڑا ۔اس عرصے میں مجھے ان
لوگوں کے بارے میں کوئی معلومات حاصل نہ ہو سکیں۔زندگی کی برق رفتاریوں
،تقدیر کے اشاروں اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آ کر انسانی تدابیرخس
و خاشاک کے مانند بہہ جاتی ہیں۔ ان مجبوروں کی یادوں کے زخم کبھی نہ بھر
سکے ،میں کسی نہ کسی بہانے ان کو یاد کرتا رہا لیکن ان کی تلاش میں نکلنے
کا حوصلہ نہ تھا ۔یہ تو اپناکوئی نشانِ منزل تک دے کر نہیں گئے تھے۔انھوں
نے تو جاتے جاتے یک طرفہ طور پرمعتبرربط کے تمام سلسلے ہی منقطع کر لیے
تھے۔ رہا دید وا دید کا معاملہ تو میرے ساتھ ان کے اتنے قریبی مراسم کبھی
نہیں رہے تھے کہ میں ان لوگوں سے ملنے کے لیے ان کی نئی بستی میں جاتا یا
وہ میرے ہاں آ کر اپنے حالات سے مجھے آ گاہ کرتے۔ وقت کے ہاتھوں زندگی کی
ایسی دُوریاں رفتہ رفتہ مجبوریوں کا روپ دھار لیتی ہیں اور انسان گردشِ
حالات کے قہرکے سامنے سپر انداز ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے مدارج کی تکمیل کے بعد ارشد واپس اپنے گھر پہنچا تو میں
اپنے اس دیرینہ رفیق سے ملنے اس کے گھر چلا گیا۔باتوں باتوں میں ارشد نے
فدا ،شاہدہ اور سیہنا کا بھی ذکر کیا۔وہ ان تین مفلوک الحال محنت کشوں کے
بارے میں فکر مند تھا جو آلام روزگار کے مسموم بگولوں کی زد میں آنے کے بعد
حالات کے ر حم و کرم پر تھے۔اس نے مجھے بتایا:
’’ قحط الرجال کے موجودہ دور میں بے حسی کا عفریت ہر سُو منڈلا رہا ہے
۔معاشرتی زندگی ایک جنگل کا منظر پیش کرتی ہے جہاں جنگل کا قانون نافذ ہے۔
اس گھنے اور مخدوش جنگل میں منگل ہو یا جنگل میں مور ناچے کسی کو ا س کی
پروا نہیں۔ہماری محفل سے اُٹھ کر سرابوں کے عذابوں میں اُلجھنے والوں کی
داستانِ حسرت سن کر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔‘‘
’’یہ بات تو سچ ہے مگر ہم ان تین محنت کشوں کی تلاش میں جائیں تو کہاں
جائیں ؟‘‘میں نے کہا’’نا معلوم اب وہ کس حال میں ہوں گے؟ان خانماں برباد
لوگوں کو گردشِ افلاک نے حالات کی قبروں کے دلخراش کتبوں میں بدل دیا ہے۔‘‘
’’ ان لوگوں کا اتا پتا صر ف رسوائے زمانہ منشیات فروش ناسوکو معلوم ہے اور
اس قماش کے مسخرے سے ملنا میرے لیے ممکن ہی نہیں تھا‘‘ ارشد نے اطمینان سے
کہا ’’میں نے ہمت نہیں ہاری اور ناسو کے ایک معتمد ساتھی کی مدد سے ا ن
لوگوں کا ٹھکانہ معلوم کر لیا ہے ۔ اُجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں ہونا بے حسی
کی علامت ہے ،اگلے منگل کو ہم وہاں چلیں گیاور ان سے مل کر ان کی پُر آشوب
زندگی کی حقیقی معنویت کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔‘‘
اپنے طے شدہ وقت کے مطابق اگلے منگل کو ہم اپنے ان پُرانے پڑوسیوں سے ملنے
ٹھوکر کے علاقے میں پہنچے۔ایک شکستہ سی کٹیا میں زمین پر بچھی پھٹی ہوئی
میلی چٹائی پر فدا اور شاہدہ بیٹھے اپنے شباب اور ایام گزشتہ کی نوحہ خوانی
میں مصروف تھے۔ہمیں دیکھ کر ان کی آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہو گئی۔ ان کے
اعضا مضمحل ہو چُکے تھے اورآلام ِ روزگار کی دُھوپ میں مسلسل جلنے کے
بعددونوں سُوکھ کر کا نٹا ہو چُکے تھے۔اس دنیا کے آئینہ خانے میں مصائب و
آلام نے انھیں تماشا بنا دیا تھا ۔سامنے ایک کھری چارپائی پر میلے اور پھٹے
کپڑوں میں لپٹا ایک نو جوان بے حدپرانی اور پیوند لگی میلی کچیلی چادر
اوڑھے لیٹا تھا۔یہ سیہنا تھاجو اس قدر نحیف و نا تواں ہو چکا تھا کہ اس کی
شناخت بھی مشکل تھی۔ہمیں دیکھ کر فدا نے روتے ہوئے کہا:
’’ یہ ہمارا لختِ جگر سیہنا ہے جسے اٹھارہ برس تک ہم نے گود میں لے کر پالا
ہے،حالات کے ستم نے اس گور کنارے پہنچا دیا ہے۔‘‘
شاہدہ کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور مدام فاقہ کشی کے باعث وہ بہت دھیمے
لہجے میں بولی’’تم اب آئے ہو جب سارا کھیل ہی ختم ہو چُکا ہے ۔اب تو موت ہی
ہمارے دُکھوں کا مداوا کر سکے گی۔اس بے حس دنیا سے تو ہمیں کسی قسم کی
ہمدردی کی کوئی توقع نہیں۔‘‘
’’تمھارا یہ حال کیسے ہوا ؟‘‘ارشد نے گلو گیر لہجے میں پُوچھا ’’ جب تم
ہماری بستی سے نکلے تھے توتمھارے پاس معقول رقم تھی وہ کہاں گئی؟‘‘
’’جب بُرا وقت آتا ہے تو اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے۔‘‘فدا نے آہ بھر
کر کہا’’مکان فروخت کرنے کے بعد اور ڈاک خانے میں جمع رقم ملا کر ہمارے پاس
کُل چھے لاکھ روپے تھے۔سیہنا نے اس راز سے ناسو کو آ گا ہ کر دیا تھا ۔بس
یوں سمجھ لو کہ یہیں سے ہماری بد قسمتی کا آغاز ہوگیا۔ عیارناسو نے سادہ
لوح سیہنا کو منشیات کا عادی بنا دیا اور اس نا ہنجار کی صحبت میں ہمارے
بیٹے کو قحبہ خانے ،چنڈو خانے ،جوئے اور سٹے بازی کی لت پڑ گئی۔‘‘
’’میرا خالق جلد اس بے غیرت ناسو کا ستیاناس کرے جس نے ہمارے بیٹے کو جیتے
جی مار ڈالا۔‘‘شاہدہ نے زار و قطار روتے ہوئے کہا’’ سیہنا اس کے چنڈو خانے
،قحبہ خانے اور قمار خانے میں کثرت سے جانے لگا ۔ دولت،صحت ،شباب اور عزت
کا بھرم ختم ہو گیا ،اب اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ سیہناسب کچھ سٹے بازی
،شراب و شباب اور رقص و سرود کی محفلوں میں لُٹوا بیٹھا ۔‘‘
’’تم سیہنا کے والدین تھے ،تم نے اس کو بُری صحبت سے روکا کیوں نہیں
تھا؟‘‘ارشد نے دُکھ بھرے لہجے میں پُو چھا ’’ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ
ناسو نے تمھارا تعاقب کیسے کیا ؟تم تو وہ بستی چھوڑ کر دور آ گئے تھے پھر
ناسو نے سیہنا کو اپنے رنگ میں کیسے رنگ لیا ؟‘‘
’’ناسو خود کہتا پھرتا ہے کہ اس کے ہاتھ بہت لمبے ہیں ۔ ملک کے بڑے بڑے
لوگوں سے اس کے قریبی تعلقات ہیں‘‘فدا نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’ناسو ایک
ما فیا کا نام ہے جس کا جال ہر جگہ پھیلا ہوا ہے ۔ناسو مافیا اپنے مکر کی
چالوں سے غریبوں کو اپنے جال میں پھنسا لیتا ہے ،پھر ان مظوموں کا خون چُوس
لیتا ہے ۔اس کے جال میں پھنسنے والے کوڑی کوڑی کے محتاج ہو جاتے ہیں مگر
کالا دھن کمانے والا یہ سیاہ کار سدا اپنی تجوری بھرنے میں مصروف رہتا
ہے۔مظلوموں کی فقیرانہ صدا پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ناسو نے میرے بیٹے سے
ساری رقم ہتھیا لی اور اس کے بعد مشکوک نسب کا یہ درندہ ہماری جان کا دشمن
بن گیا ۔اس کالے زہریلے ناگ کے پھن کو کچلنے والا کوئی نہیں۔ خدا نخواستہ
اگر کوئی شخص ناسو کے جال میں پھنس جائے تو اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے
۔اس کالے زہریلے ناگ کا زہر میرے مظلوم بیٹے کے جسم کے ریشے ریشے میں سرایت
کر گیا ہے۔ناسو ایک ایسا ظالم و سفاک ،موذی و مکار درندہ ہے کہ اس کے دماغ
میں ہوس اور رعونت کا خناس سما گیا ہے۔اس بھیڑیے نے تو پُورے شہر کو عقوبت
خانے ،چنڈو خانے او ر قحبہ خانے میں بدلنے کی مذموم کوشش کی ہے۔‘‘
’’ سچ ہے ناسو جیسے ہوس پرست اورجنسی جنونی سرمایہ دارکا ذہنی افلاس زندگی
بھر ختم نہیں ہوتا۔جب سیہنا منشیات فروشوں کے ہتھے چڑھ گیا تو اس کی اصلاح
کی کوشش کیوں نہ کی گئی ؟ سیہنا کے علاج پر تم نے بر وقت توجہ کیوں نہ دی
؟‘‘ارشد نے پوچھا’’ جو کچھ ہونے والا ہے میں اس کے بارے میں اتنا فکر مند
نہیں جتنا اس بارے میں تشویش میں مبتلا ہوں جو کچھ ہو چُکا ہے۔جو سانحات ہو
چُکے ہیں اُن کا مُجھے سرے سے یقین ہی نہیں آتا۔ یہ تو بتائیں کہ سیہنا کو
کون سی بیماری لاحق ہو گئی ہے؟‘‘
’’کیسا علاج اور کہاں کی دوا؟‘‘شاہدہ بولی’’ یہاں آنے سے پہلے تو اچھا خاصا
گزارا ہو جاتا تھا لیکن اب تودووقت کی روٹی تک میسر نہیں دوا اور علاج کے
لیے رقم کہاں سے لائیں؟۔منشیات کا یہ خاصہ ہے کہ ان کے زیادہ استعمال سے
پہلے تو دِل کی نازک رگیں اور پُوراجسم ٹُو ٹتا ہے یہاں تک کہ انسان کی
گردن ٹُوٹ جاتی ہے۔‘‘
فدا نے اپنی بیوی کو ٹوکتے ہوئے کہا ’’ کثرتِ مے نوشی اور جنسی جنون کے
باعث نوجوان سیہنا کے دونوں گُردے ناکارہ ہو چُکے ہیں۔ اس وقت کڑیل جوان
سیہناایڈز جیسے جان لیوا روگ میں مبتلا ہو چُکا ہے۔ڈاکٹروں نے اس کا مرض لا
علاج قرار دیا ہے۔نوجوان بیٹے کی جان لیوا بیماری نے تو ہم بُوڑھے والدین
کو زندہ درگور کر دیا ہے۔‘‘
ہماری گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک سیہنا نے آ نکھ کھولی۔ اس کی ہر
مُسرت غمِ دیروز کا عنوان بن گئی تھی اوروہ حسرت بھری نگاہوں سے ہم سب کو
اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے یہ اس کی ہمارے ساتھ آ خری ملاقات ہو ۔ ہماری
باتیں سُن کر وہ بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اس کے الفاظ ہونٹوں پر پتھر ا
گئے تھے۔وقت کی گود میں لمحات رفتہ رفتہ دم توڑ رہے تھے۔ حالات کی سنگینی
کا یہ عالم تھا کہ سیلابِ بلا اب سر سے گُزر گیا تھا۔ اس کی باقی ماندہ
زندگی ریگِ ساحل پر نوشتہ وقت کی ایک ایسی تحریر کے مانند تھی جسے سیل
ِزماں کی مہیب موجیں کسی بھی وقت دھو کر ہمیشہ کے لیے مٹا سکتی تھیں ۔اس بد
قسمت نو جوان کی زندگی کی محفلیں ظالموں نے لُوٹ لیں جس کے نتیجے میں اس کے
جذبات و احساسات نے دم توڑ دیا۔ارشد نے جب سیہنا کی حالتِ زار دیکھی تو وہ
اپنے آ نسو ضبط نہ کر سکا ۔ سیہنا کی زندگی کے ساز خاموش ہو رہے تھے اور
نغمات مہیب سناٹوں میں ڈھل رہے تھے۔اس کے رگ و پے میں درد ،کرب اور اذیت و
عقوبت کا رقص بالکل اسی طر ح جاری تھا جس طرح جنگل میں مور محوِ رقص ہو مگر
کوئی محرمانہ نگاہ اس طرف نہ اُٹھ رہی ہو۔
ارشد نے سیہنا کی متوازن غذا کے لیے کچھ رقم اس کی ماں کے حوالے کی اور پُر
نم آنکھوں سے ان سب کو الوداع کہا۔ جہاں تک نظر جاتی تھی ویران زندگی کے
سوا کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔شام کوہم بوجھل قدموں سے گھر روانہ ہوئے۔ ہم
دیر تک سیہنا کی جوانی کے بارے میں سوچتے رہے جو موج ِنسیم کے ما نند اِدھر
آئی اور اُدھر چلی گئی۔ ایک ہفتے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ نوشتہء تقدیر
اور غمِ حیات کے دام میں اُلجھی سیہنا کی زندگی کی شمع بُجھ گئی۔اس کے
والدین کی ہر دعا بے اثر گئی اور ان کی آہ و فغاں بھی نا معلوم کہاں جا کے
دم توڑ گئی۔ |
|