آج طبیعت بہت بوجھل سی ہو رہی
تھی. اذان کو اسکول بھیجتے وقت پتہ نہیں کیوں بس دل کررہا تھا آج روک لوں
پر کیا کرتی امتحانات بھی تو ہو رہے ہیں. موبائل پر وہ اپنی دوست سے بات
کرتے ہوئے بولی اچھا کل بات ہوگی اب اذان کے آنے کا وقت ہو رہا ہے. فون بند
کرکے کھانے کی تیاری میں مصروف ہوگئ پر یہ کیا کہیں سے قطرہ قطرہ پانی گرنے
کی آواز آرہی تھی. ہر جگہ سے اطمینان کرنے کے باوجود وہ آواز آنی بند نہ
ہوئ. آخر کار ذہن کو جھٹک کر وہ پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوگئ. ابھی
تھوڑا وقت باقی تھا شاہان کے آنے میں وہ اسکول گئے تھے بیٹے کو لینے.
اسلیئے شہزین ٹی وی آن کرکے ریموٹ سے چینل بدل بدل کے دیکھنے لگی. ٹی وی پر
بریکنگ نیوز چل رہی تھی.ان کے پاس کوئ اور کام نہیں ہوتا اور آئے دن ایسی
خبریں آتی رہتی ہیں.جگہ جگہ لوگ مر رہے ہیں کبھی بلدیہ فیکٹری میں جل کر تو
کبھی واھگہ باڈر پر خودکش دھماکہ اور ایسے نہ جانے کتنے واقعات. لوگ کہتے
ہیں یا الہی!عذاب کیوں نہیں آتا پر میں کہتی ہوں یہ اسکا عذاب ہی تو ہے پر
ہم نہیں سمجھتے.یونہی سوچتے ہوئے اس نے سر جھٹکا .قطرے ٹپکنے کی آواز ابھی
بھی آرہی تھی وہ ٹی وی بند ہی کرنے والی تھی کہ یہ کیا پشاور میں اسکول پر
دہشت گردوں کا حملہ-
اسکا دل زور سے دھڑکنے لگا شاہان بھی تو اسکول ہی گئے ہیں اور اذان. اسکے
آگے ٹی وی اسکرین دھندلانے لگی وہ ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں پائ اسکول اور جگہ
کونسی ہے. بے چین ہوکر اٹھی اور شوہر کو نمبر ملاے لگی.
شاہان یہ سب کیا ہے آپکو دیر کیوں لگ رہی ہے پلیز جلدی سے آجائیں میرا دل
بہت گھبرا رہا ہے آپ نے دیکھا حالات پھر خراب ہوگئے ہیں. آپ کہیں تو میں
چلی جاؤں اذان کو اسکول سے لینے. پر دوسر ی طرف سے شوہر نے اطمینان دلایا
میں آرہا ہوں اذان میرے ساتھ ہی ہے.
اچھا ٹھیک ہے پر جلدی میں انتظار کر رہی ہوں.کہہ کر فون بند کر دیا.
پتہ نہیں کیوں پھر بھی ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ ہے جو نظروں سے اوجھل ہے پر
دل محسوس کر رہا ہے. وہ بے چین ہو کر بار بار دروازے کی طرف جاتی اور پلٹ
آتی. پانی کے قطروں کی آواز تیز اور تیز ہوتی جا رہی تھی.ٹپ ٹپ ٹپ ٹپ. پر
اسکا دھیان کسی اور ہی طرف تھا. ماحول ایک دم سوگوار سا ہو گیا تھا-
عجیب سا سناٹا ہر طرف پھیل رہا تھا اور اس پر یہ پراسرار سی آواز ....ٹپ ٹپ
ٹپ ٹپ ٹپ......
ٹی وی کا شور. اناؤ نسر چیخ چیخ کر کہہ رہی تھی اسقدر ظلم اور بربریت.
آپریشن جاری ہے لوگ احتجاجا سڑ کوں پر نکل آئے ہیں ہر آنکھ اشک بار ہے. وہ
پھر اٹھی دروازے کی اوٹ سے جھانکنے لگی باہر سب معمول کے مطابق رواں دواں
تھا. پر مجھے کیوں اتنی بے چینی ہورہی ہے. اب تو شاہان فون بھی نہیں اٹھا
رہے شاید راستے مین ہوں گے. اس نے خود کو اطمینان دلایا. باہر ایک
ایمبولینس رکنے کی آواز آئ. ا یمبولینس کیوں انکی گاڑی کی آواز کیوں نہیں
............ٹپ ٹپ ٹپ زہر کا پیالہ بھر رہا تھا. بس تھوڑا اور
..................
یک لخت دروازہ کھلا. سامنے ایک باپ کھڑا تھا لاچار، خا موش ساکت ........ازان
کہاں ہے؟
آپ کچھ کہتے کیوں نہیں ہیں؟
خاموشی میں قطروں کی آواز اور تیز ہو گئ.دیکھو میری بات صبر و تحمل سے سننا
ہمارا بیٹا ہمارا فخر ہے. وہ بہت چھوٹی عمر میں شہادت کے درجے پر فائز
ہوگیا ہے.
شہزین کے قدم پیچھے لوٹ رہے تھے.
زہر کاپیا لہ بھر چکا تھا. بس چھلکنے ہی والا تھا.
نہیں نہیں ایسا نہیں آپ مزاق ...کیسا بھدا مزاق ہے اسکول .....ازان .....بے
ربط جملے اسکی زبان سے پھسل رہے تھے.
سچ ہے خدارا سنبھالو خود کو اذان نہیں ہے اب دنیا میں .........
شاہان نے بیوی کو سنبھالنے کی کوشش کی. پر یہ کیا وہ تو اسکے ہاتھوں میں
جھول گئ. زہر کا پیالہ چھلک گیا.
جو آنکھیں انتظار کی آس میں کھلی رہ گئی تھیں. انکو شاہان نے رو تے ہوئے
ہمیشہ کے لیئے بند کر دیا اب وہ سوچ رہا تھا ..........
کہ پہلے کس کے لاشے کو دفنائے. شریک حیات کے یا پھر ایمبو لینس میں لیٹے
ننھے اذان کے ...... |