(6) نعمت کے شکرانے کا اِنفرادی
و اِجتماعی سطح پر حکم:-
مشاہدے میں آیا ہے کہ کسی کے ہاں بیٹا پیدا ہو یا قومی آزادی حاصل ہو اور
فتح و نصرت کا دن آئے تو جشن کا سماں ہوتا ہے۔ ہم یہ سب خوشیاں انفرادی اور
اجتماعی طور پر مناتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہم سے صرف یہ چاہتا ہے کہ جب اس نعمتِ
عظمیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ملنے کا دن آئے تو اتنی فرحت و مسرت کا
اہتمام کیا جائے کہ دنیا کی ساری خوشیوں پر غالب آجائے۔ یہ بات بالکل واضح
ہے کہ خوشیاں و جشن منانے، چراغاں کرنے اور کھانے پکا کر تقسیم کرنے پر مال
و دولت خرچ ہوتا ہے۔ معترضین اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ عید میلاد النبی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر ان کاموں پر مال خرچ کرنے سے کیا فائدہ؟ اس
سے بہتر تھا کہ یہ رقم کسی محتاج، غریب، نادار کو دے دی جاتی، کوئی مسجد
بنا دی جاتی، کسی مدرسے میں جمع کرا دی جاتی، وغیرہ وغیرہ۔ یعنی اس طرح کے
کئی شکوک و شبہات پیدا کیے جاتے ہیں۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ مذکورہ کاموں پر
خرچ کرنا اپنی جگہ بالکل درست، صحیح اور بجا ہے مگر باری تعالیٰ نے اس خیال
کو بھی رد کر دیا کیوں کہ اس موقع پر اُمت کی اجتماعی خوشی زیادہ اہمیت
رکھتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کسی کو صدقات و خیرات سے منع تو نہیں کرتا، ہر کوئی
غرباء و مساکین اور مستحقین کی خدمت اپنی استطاعت کے مطابق کرے مگر جب حبیب
مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی منانے کا موقع آئے
تو یہ بہانہ بنا کر نہ بیٹھ جاؤ کہ ہم تو اپنا مال کسی اور نیک کام میں صرف
کر دیں گے؛ بلکہ فرمایا : ’’فَلْيَفْرَحُواْ‘‘ انہیں چاہئے کہ وہ میرے حبیب
کی خاطر خوشی منائیں۔ اور ’’هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ‘‘ کہہ کر واضح
کر دیا کہ اِس خوشی پر خرچ کرنا کسی بھی اور مقصد کے لیے جمع کرنے سے افضل
ہے۔
جشنِ میلاد۔ شکرانۂ نعمتِ عظمیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:-
خالقِ کائنات نے بنی نوع انسان پر بے حد و حساب احسانات و انعامات فرمائے
ہیں۔ اس نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کیں۔ کھانے پینے اور دیگر سامانِ آرام
و آسائش اور زینت و آرائش سے نوازا۔ ہمارے لیے دن رات کا نظام مرتب کیا۔
سمندروں، پہاڑوں اور فضاؤں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا مگر اس نے کبھی اپنی
کسی نعمت کا احسان نہیں جتلایا۔ اس ذات رؤف و رحیم نے ہمیں اپنی پوری
کائنات میں شرف و بزرگی کا تاج پہنایا اور أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ کے سانچے میں
ڈھال کر رشکِ ملائکہ بنایا۔ ہمیں ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی اور بچوں جیسے
پیارے رشتے عطا کیے۔ غرضیکہ اَنفس و آفاق کی ہزاروں ایسی نعمتیں جو ہمارے
حیطۂ ادراک سے بھی باہر ہیں اس نے ہمیں عطا فرمائیں، لیکن بطور خاص کسی
نعمت کا احسان نہیں جتلایا۔ اس لیے کہ وہ تو اتنا سخی ہے کہ کوئی اسے مانے
یا نہ مانے وہ سب کو اپنے کرم سے نوازتا ہے اور کسی پر اپنا احسان بھی نہیں
جتلاتا۔ لیکن ایک نعمتِ عظمیٰ ایسی تھی کہ اﷲ تعالیٰ نے جب اسے حریمِ
کبریائی سے بنی نوع انسان کی طرف بھیجا اور کائنات کو اس نعمت سے سرفراز
فرمایا تو نہ صرف اس کا ذکر کیا بلکہ تمام نعمتوں میں سے فقط اس کا احسان
جتلایا اور اس کا اظہار عام الفاظ میں نہیں بلکہ دو تاکیدوں۔ لَ اور قَدْ۔
کے ساتھ کیا۔ ارشاد فرمایا :
لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً
مِّنْ أَنفُسِهِمْ.
’’بے شک اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا اِحسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں
سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا۔‘‘
آل عمران، 3 : 164
آیت مبارکہ واضح کرتی ہے کہ اﷲ رب العزت فرما رہا ہے : اے لوگو! تم پر میرا
یہ بہت بڑا احسان اور کرم ہے کہ میں نے اپنے محبوب کو تمہاری جانوں میں سے
تمہارے لیے پیدا کیا۔ تمہاری تقدیریں بدل دیں، بگڑے ہوئے حالات سنوار دیے
اور تمہیں ذلت و گمراہی کے گڑھے سے اٹھا کر عز و شرف سے ہم کنار کر دیا۔
آگاہ ہو جاؤ کہ میرے کارخانۂ قدرت میں اس سے بڑھ کر کوئی نعمت تھی ہی نہیں۔
جب میں نے وہی محبوب تمہیں دے دیا جس کی خاطر میں کائنات کو عدم سے وجود
میں لایا اور اس کو انواع و اقسام کی نعمتوں سے مالا مال کر دیا تو اب
ضروری تھا کہ میں رب العالمین ہوتے ہوئے بھی اس عظیم نعمت کا احسان جتلاؤں۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ امتِ مصطفوی اسے عام نعمت سمجھتے ہوئے اس کی قدر و
منزلت سے بے نیازی کا مظاہرہ کردے اور میرے اس احسانِ عظیم کی ناشکری کرنے
لگے۔ اس احسان جتلانے میں بھی اُمت مسلمہ کی بھلائی کو پیش نظر رکھا گیا
اور قرآن حکیم نے اس واضح حکم کے ذریعے ہر فرزندِ توحید کو آگاہ کر دیا کہ
وہ کبھی اﷲ کے اس عظیم احسان کو فراموش نہ کرے بلکہ اس نعمتِ عظمیٰ پر
شکرانہ ادا کرتے ہوئے جشنِ مسرت منائے۔
7۔ نعمتوں کا شکر بجا لانا کیوں ضروری ہے؟ :-
ﷲ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کے فضل و کرم پر شکر بجا لانا تقاضائے بندگی ہے
مگر قرآن مجید نے ایک مقام پر اس کی ایک اور حکمت بھی بیان فرمائی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي
لَشَدِيدٌO
’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور
اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہےo‘‘
ابراهيم، 14 : 7
نعمتوں پر شکر بجا لانا اس آیت کے تحت مزید نعمتوں کے حصول کا پیش خیمہ ہے،
یعنی اﷲ تعالیٰ اپنے شاکر بندوں پر مزید نعمتیں نچھاور کرتا ہے لیکن کفرانِ
نعمت اتنا ناپسندیدہ عمل ہے کہ ایسا کرنے والوں کو عذابِ الٰہی کی وعید
سنائی گئی ہے۔ اِس لیے دیگر اِنعاماتِ اِلٰہی کا مستحق قرار پانے کے لیے
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی صورت میں میسر
آنے والی نعمتِ عظمیٰ پر شکر بجالانا ضروری ہے۔
گزشتہ آرٹیکلز میں دی گئی تفصیلات سے یہ اَمر بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ جشنِ
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا نصِ قرآن سے ثابت ہے۔ اِس پر
کسی قسم کا اِعتراض و اِبہام پیدا کرنا قرآنی تعلیمات سے عدم آگہی کے
مترادف ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد
پر خوشی منانے کے جائز اور مستحسن اَمر کو باعثِ نزاع بنانے کی بجائے اِس
خوشی میں دل و جان سے شریک ہوکر اُلوہی نعمتوں اور نبوی فیوضات سے سیراب
ہوا جائے۔
جاری ہے--- |