’’بے شک آدمی سونے چاندی سے
زیادہ ادب عالیہ کا محتاج ہے۔‘‘
بروز سنیچر ۲۸ مارچ ۲۰۱۵ کو شہر مالیگاؤں کی مشہور اے ٹی ٹی ہائی اسکول کے
مرکزی ہال میں ادارہ نثری ادب کی ماہانہ نشست منعقد کی گئی جس کی صدارت شہر
عزیز کی مشہور ومعروف شخصیت ،شاعر، مورخ ،نقاد،جناب محترم ڈاکٹر الیاس
صدیقی سرنے فرمائی جبکہ نظامت کے فرائض رضوان ربّانی سر نے ادا کی۔حسب
روایت ادبِ اطفال پر عبدالمعید نورالہدیٰ نے کہانی’’چاندنی تیرا نام‘‘ پیش
کی۔ ادارہ نثری ادب میں اِس ماہ شہر مالیگاؤں کے گیارہ قلمکارو ں نے اپنی
اپنی تخلیق پیش کی۔جن میں ڈاکٹر اقبال برکی سر نے ایشیاء کے عظیم ناول نگار
ابن صفی پر اپنا مضمون ’’ ابن صفی کی تعلیمی اہمیت‘‘ کے عنوان سے سامعین کے
گوش گزار کیا جس پر عمران جمیل سر ،شکیل فریدی سر ودیگر صاحبان نے طویل
گفتگوفرمائی۔ عزیزالرحمن ماہی ؔ نے اپنی تخلیق’’ زندگی کی پچ پر ‘‘ اور میم
شین التمش ؔ نے’’ پلس ایٹین زون‘‘ پیش کیا۔ نئے تازہ دم صحافی و اصلاحی
مضمون نگار جناب آصف جلیل احمد نے اپنا افسانہ’’ بھوک ‘‘ پیش کیا۔ حسین
عاجزؔ،عمران جمیل سر، احمد نعیم نے آصف جلیل کوبہترین افسانے پر مبارکباد
سے نوازا۔خالد قریشی نے’’تالیاں ‘‘ نام سے افسانچہ پیش کیاجو تالیوں کی
گونج میں سنا گیا۔آصف سبحانی کی مزاحیہ تخلیق ’’ یہ رزق نہیں آساں‘‘ سن کر
ساری محفل لوٹ پوٹ ہو گئی موصوف نے طنز ومزاح کا سہارا لے کر اپنے آپ کو
نشانہ بنایا موصوف نے سفر کی روداد پیش کی جس میں ایک مسافر کی کہانی بھی
چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔شاعر وافسانہ نگار صادق اسد ؔ نے اپنا افسانہ
’’محصور ‘‘ پیش کیا ، جبکہ احمد نعیم نے اپنا افسانہ ’’ دھنک کا آٹھواں رنگ
پیش کیا ۔طنز ومزاح کی مشہور شخصیت ظہیر قدسیؔ نے مزاحیہ مضمون’’ بیمار
احمد ‘‘ پیش کیا تمام ہی حاضرین نے ہنسی و قہقہے کے درمیان اس مضمون کو
پسند کیا۔
تمام ہی گیارہ قلمکاروں کی تخلیق پر محترم نقاد شاعر ومورخ ڈاکٹر الیاس
وسیم صدیقی سر نے اپنے خطبۂ صدارت میں تمام قلمکاروں کی کہانیوں ،مضامین
افسانوں پر یک سطری تبصرہ کیا۔(۱) عبدالمعید کی کہانی کامیاب ہے۔(۲) اقبال
برکی سر نے ابن صفی پر جو مضمون پیش کیا ۔۔اردو نثری تاریخ میں خود ابن صفی
کا کردار کوئی بھول نہیں سکتا۔(۳) عزیز الرحمن ماہی نے افسانوی انداز سے
زندگی کی پچ پر اچھا کھیل کھیلا۔(۴)میم شین التمش اچھا لکھ رہے ہیں سماج کی
تلخ حقیقت ان کے افسانوں میں ابھر کر سامنے آتی ہے۔(۵) آصف جلیل کا میں
استقبال کرتا ہوں، وہ خود اپنا مقام بنا رہے ہیں مجھے اُن سے امید ہے کہ ان
کے قلم سے اچھی اور بہترین تخلیقات نکلے گی۔(۶)خالد قریشی نے مکمل افسانچہ
پیش کیا۔(۷) صادق اسد نے ایک بڑی ٹریجڈی پیش کی مجھے ان کا افسانہ پسند آیا۔(۸)احمد
نعیم نے اپنے علامتی رنگ میں کہانی پیش کی اور ہم کو آٹھواں رنگ تک پہنچا
دیا۔(۹) ظہیر قدسی کا ’’بیمار احمد‘‘ مجموعی طور پر کامیاب ہے۔(۱۰) آصف
سبحانی کا اپنا ایک انداز ہے جس میں وہ کامیابی سے سفر کر رہے ہیں ۔
ڈاکٹر الیاس صدیقی صاحب نے خطبہ صدارت کے بعد ایک طنز مزاح سے بھر پور
مضمون بعنوان ’’صدارتی خطبہ‘‘ پیش کیا موصوف نے کہیں ہنسی مزاح کی پھلجڑی
چھوڑی تو کہیں ادبی مافیاؤں پر گرفت کسی۔ ادارہ نثری ادب کی یہ نشست
انتہائی کامیاب رہی ،اس نشست میں حاضرین کا جم غفیر موجود تھا، جس میں سراج
دلار ( ڈرامہ آرٹسٹ) ،مسعود رمضان پینٹر ، عثمان غنی اسکس، حمید شیخ (
ڈرامہ آرٹسٹ و نکڑ ناٹک)،عبداﷲ ھلالؔ مالیگ(صدر ناموس ادب) ،عمران جمیل
سر،خلیل فریدی ،ارسلان سیفی، شفیق شکاری، رومان اختر ،عبدالماجد انصاری ،
انصاری عتیق سر(انگلش ٹیچر) ،یاسین غربیدیؔ،حبیب الرحمن جلیل ،جاوید آفاقؔ،
ڈاکٹر نخشب مسعود ( انٹر نیشنل افسانچہ فاؤنڈیشن) عتیق شعبان سر ،ارشد محوی
سر ، شکیل احمد مصطفی ماسٹر، شاہ اویس، محمد رضا سر، محمد ہا رون عیسی
مقادم، محمد ہاشم ،شبیر احمد، مرتضیٰ اقبال ، عبدالرحمن یعقوب ، عقیل محمود،
وغیرہ موجود تھے ۔ عتیق شعبان کے شکریہ کے ساتھ یہ نثری نشست اپنے اختتام
کو پہنچی۔
منجانب: احمد نعیم |