وہ گہری نیند سے ہڑ بڑا کر اٹھ
بیٹھی سحرکا وقت ہو چلا تھا اس قدر سخت سردی کے باوجود اسے پسینے آرہے سر
دیوں کی تو را تیں بھی لمبی ہو تی ہیں گہری خاموش بھید بھری را تیں ، اس نے
کمبل کو پرے کیا اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی اف! یہ کیسا خواب تھا
سحر کے قریب دیکھے جا نے والے خواب تو سچے ہو تے ہیں، ابا سمیت خا ندان کے
کئی بزرگ اس نے ابھی خواب میں دیکھے تھے ان سب نے سفید لباس اور سفید صا فہ
با ندھا ہوا تھا بڑی سی مسجد یا محل نما کو ئی جگہ جس کے فرش پر بچھے سنگ
مرمر کی پر لطف ٹھنڈک اب بھی محسوسات میں محفو ظ تھی عجب سا سکون اور خا
موشی جو اس نے کبھی نہیں محسوس کیا تھا ان سب کے لب خا موش اور آنکھیں بو
لتی نظر آئیں پھر کسی نے اسے قبر کا کتبہ تھمانا چا ہا اس نے بلا سو چے
سمجھے اس کتبے کو تھا منے کے لئے ہا تھ بڑ ھا یا اسے پکڑنا چا ہا کہ اک دم
سے اس کی آنکھ کھل گئی ۔ آہ یہ کیسا خواب تھا اس کا کیا مطلب ہوا
ایساانہونا خواب تو کبھی کسی نے بیان نہیں کیا پھر اس کی تعبیر کس سے پو
چھے گی کتبے پر بنا نقش اس کی بلکل سمجھ میں نہیں آیا تھا یا پھر وہ ٹھیک
طور پر دیکھ ہی نہیں سکی کاش وہ نقش دیکھ ہی لیتی کہیں وہ کتبہ اس کے لئے
تو نہیں تھا نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا اسے تو ابھی اور جیناہے بچے ابھی
چھوٹے ہیں پڑھ رہے ہیں انھیں میری ضرورت ہے اﷲ میاں ابھی مت بلا یئے گا
میرے بچے در بدر ہو جا ئیں گے پھر اس خواب کی تعبیر کس سے پو چھوں کوئی
ایسا بزرگ بھی نہیں جن سے اس کی تعبیر پو چھی جا سکے اس کے ذہن میں کئی
خاندانی بزرگوں کی صو رتیں آئیں مگر کسی پر یقین نہ کر سکی ہاں! اخبا روں
اور رسالوں میں بھی تو خواب اور ان کی تعبیر کا بیان ہو تا ہے ٹھیک ہے میں
وہیں سے پتہ کر لوں گی مگر وہاں تو اتنی زیادہ ڈاک آتی ہو گی کہ شائد مجھے
جواب ملنے میں کئی ماہ لگ جا ئیں پھر نجانے اس وقت تک کیا ہوچکا ہو دل کے
کسی چور دروازے سے ہلکی سی صدا آئی شا ئد ! میں ہی نہ رہوں میں کسی سے کچھ
نہ کہوں گی خاموش رہوں گی سکینہ اپنے آپ سے سو چتی، کہتی ،سنتی رہی پھروہ
کمبل اوڑھ کر دو بارہ بستر پر لیٹ گئی پر نیند کو سوں دور تھی ۔
شجاع نا شتہ کرلو اسکول کولیٹ ہو جا ؤ گے سکینہ بیٹے کو آوازیں دے رہی تھی
،سکینہ میرے موزے نہیں مل رہے شوہر پکار رہے تھے اس کے لئے صبح کا یہ وقت
بہت مصروف گزرتا خا ص کر اس وقت جب کہ اس کا ذہن خواب کی و جہ سے مسلسل غیر
حا ضر تھاوہ ہر کام اوٹ پٹانگ طر یقے سے نپٹا نے کی کو شش کرہی تھی سکینہ
کا شوہر تو ویسے بھی لا پرواہ اور سرد مزاج قسم کا شوہر تھا اس کا شمار ان
لو گوں میں ہوتا تھا جو بس زندگی کو اپنی مر ضی سے جیئے جا تے ہیں بلا روک
ٹوک ایک ہی ڈگر پر رواں دواں، یہی وجہ تھی کہ شادی کے بارہ سالوں میں وہ
اسی پہلے دن جیسے اندازسے گزر رہے تھے جذباتی بہا ؤ تو ایک طرف وہ زندگی کی
بڑی حقیقتوں کو بھی نظر انداز کئے اپنے اصو لوں پر کا ر بند تھے آفس میں
پندرہ سال قبل جس کرسی پر بیٹھے تھے اسی پر بر ا جمان تھے ان کے ساتھ کے
سارے کو لیگ تر قی کی کئی کر سیاں عبور کر چکے تھے مگر انھین دنیا داری سے
کو ئی سروکار نہ تھابھئی جو ملتا ہے صبر شکر سے کھا ؤ گزارہ ہو رہا ہے تو
پھر اتنی تگ و دو کی کیا ضرورت ہے وہ اپنے اس فا رمولے پر سختی سے کا ربند
تھے شام چار بجے گھر آنے کے بعد بستر پر دراز ٹی وی دیکھنا ان کا معمول تھا
جس سے وہ کبھی بے زار نہ ہو ئے گھر کی ضرورتیں کیا ہے مالک مکان کا کرآیہ ،بچوں
کی فیسیں ، مہمان داری ،گھر کا سودا سلف ان سب سے کو ئی غرض نہ تھا سا ری
ذمہ داری سکینہ کے کاند ھوں پر تھی مہینے کی پہلی کو جو کمائی وہ لا کر ہا
تھ پر رکھتے سکینہ صبر وشکر سے لے لیتی یہ اس کا سلیقہ تھا کہ گزر بسر ہو
رہی تھی۔
یہ کل ہی کی بات لگتی تھی جب شادی کے وقت اس کی ڈولی کرا ئے کے مکان میں ہی
اتری تھی اس کی بہت آرزو تھی کہ ایک چھوٹا سا اپنا گھر ہو جو پیسے کر ائے
کی مد میں جا تے ہیں وہ گھر میں کام آسکے پر ایسا ممکن ہو نا نظر نہیں آتا
تھا مگر جب ٹی وی پر اپنا گھر اپنی جنت جیسے اشتہار دکھا ئے جا تے تو اس کی
خوا ہش بھی شدید ہو گئی اس نے ہمت پکڑی اپنے پا س جمع پو نجی پر نظر ڈا لی
تو شادی کے زیوراس کے پاس اب بھی محفو ظ تھے وہ شو ہر کی لا ابالی طبعیت سے
وا قف تھی وہ کبھی نہیں ما نیں گے اس نے خود ہی ہمت کی خدا کا نام لیا اور
بلڈرز کے آفس پہنچ گئی فارم لے کر آگئی مطلو بہ شرا ئط کو کئی بار پڑھا اس
رات اسے نیند نہیں آرہی تھی آخر اتنا بڑا فیصلہ وہ کرنے جا رہی تھی اس نے
خودکو کئی بار حو صلہ دیا وہ سکینہ جس نے کبھی شوہر سے پو چھے بغیر کھانا
نہیں بنا یا تھا اتنا بڑا فیصلہ خودکر نے جا رہی تھی وہ بھی مجبور تھی آخر
اس کے بچوں کے مستقبل کا سوال تھا ان کے اپنے بڑھا پے کا سوال تھا کہاں جا
ئیں گے آخر کب تک کرایہ کی خا نہ بدوشی والی زندگی گزارئیں گے اس نے اپنے
سا رے زیور فروخت کر دیئے زیور بیچتے ہو ئے اسے لگا وہ زیور چراکے لائی ہو
اک عجب سے پشیمانی و بے چینی اس کے سا رے وجود پر چھا ئی رہی اس نے سارے
مرا ْحل میں با اعتما د بننے کی پوری کو شش کے سا تھ طے کئے فلیٹ کا نقشہ
اسے بہت پسند آیا تھا چھو ٹا سا دو کمروں کا گھر جس کے وہ سپنے دیکھتی آئی
تھی اپنے گھر کو سجا نے سوار نے کا ارمان اب پورا ہو نے جا رہا تھا پروجیکٹ
پر کام شروع ہو گیا تھا اس نے شوہر سے چوری چھپے سلائی کا کام بھی شروع کر
دیا تھا گھر کے اخراجات میں کمی کر دی تھی کچھ رقم بھا ئی بہنوں سے بھی
رازداری کے وعدے کے ساتھ ادھا ر لے لی تھی جسے اسے نے اپنے فلیٹ منتقل ہو
نے کے بعد ادا کر نی تھی دو سال کا یہ عر صہ اس نے جس تنگ دستی و مشکل سے
گزارہ تھا وہ ہی جانتی تھی اسے بڑوں کی بات یاد آگئی کہ ہم نے اپنا گھر
چٹنی رو ٹی کھا کر بنا یا گھر بنا نا آسان تو نہیں ،اس وقت وہ خود عملی
تصویر بنی ہو ئی تھی پر یہ خواب جس نے اس کی خو شی اس کی آرزو کو گہن لگا
دیا تھا وہ تو دنیا میں گھر بنا نے جا رہی تھی پھر اس کتبے کی کیا ضرورت
تھی اس بے کلی میں دن رات گزرتے رہے آخر کار وہ خوش نصیب دن آہی گیا فیلٹ
کا قبضہ مل گیا ۔
سکینہ کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تعبیر کی شکل میں سامنے تھا اس کے شوہر
کو اب تک یقین نہیں آرہا تھا کہ اس قدر بڑا انقلاب اس کی زندگی میں آچکا ہے
اسے ز ندگی میں پہلی بار سکینہ کی اہمیت اور وقعت کا اندازہ ہوا فلیٹ کے
دروازے پر لگی نیم پلیٹ پر نام اور نمبر لکھ کر وہ گو یا اپنا خواب بھول
گئی اپنا سا ئبا ن ملنے کے بعد تو گویا وہ ساری دکھ تکلیفیں ختم ہو گئے دن
رات اسی را حت میں کٹ رہے تھے پتہ ہی نہیں چلا ایک سا ل گزر گیا اس دن وہ
سب بھائی کے گھر تھے شام گہری ہو تی جا رہی تھی سردی بھی بڑھ گئی تھی سکینہ
کو عجیب سی بے چینی محسوس ہو رہی تھی وہ جلد از گھر پہنچنا چا ہتی تھی ابھی
وہ گھر سے تھوڑی دور ی پر تھے کہ اچانک ایک زور دار دھماکے کی آواز سنا ئی
دی بچے سہم کر ماں سے تھوڑے اور قریب ہو گئے دل طرح طرح کے وسوسوں سے بھر
گیا،خدایا خیر ہو وہ لوگ فلیٹ کے سا منے پہنچ چکے تھے اف !یہ کیا پورا فلیٹ
کھنڈر میں تبدیل ہو چکا تھا ہر طرف دھواں تھا ایمبنو لسوں کے سا ئرن ،لوگوں
کے رونے ، چیخ و پکار،آہ وبکاکی آوا زوں سے ما حول درد ناک منظر پیش کر رہا
تھاہر طرف با رود کی بو پھیلی ہو ئی تھی لا شیں بکھری ہو ئی تھیں لاشوں پر
ڈا لی گئیں سفید چا دریں مرنے والوں کا چہرہ ڈھانپنے میں نا کام تھیں دھویں
کی میں دھندلا ہٹ اچانک سکینہ کو اپنا وہ پرانا خواب یا د آگیا قبر کا وہ
کتبہ جو ابا اس کی طرف بڑھا رہے تھے اس پر کیا لکھا تھا جسے وہ پڑھ نہ سکی
تھی اس کتبے پر بہت سارے مرد و زن کے چہرے بنے ھوئے تھے ۔ |