یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہم کافی خوشحال ہوا کرتے
تھے.ہمارا شہر گو کہ چھوٹا تھا پھر بھی متمول خاندانوں میں ہمارا شمار ہوتا
تھا. بابا کو قیمتی پتھر جمع کرنے کا شوق تھا خاص طور پر نیلاہٹ پر مائل
زمرد اور سرخ عقیق.جنھیں وہ بہت حفاظت سے اپنی پرانےطرز کی بنی ہوئ اندرونی
دیوار والی الماری میں رکھتے تھے اس دن بھی وہ اپنے کام میں مشغول تھے.کہ
ان سے کوئ ملنے آیا.امی جان نے ہمیں بابا کو اطلاع کرنے کو کہا..ہم بابا کے
اس خاص کمرے میں پہلی دفعہ ہاں شاید پہلی دفعہ ہی داخل ہوئے.
بابا! آپ سے عتیق بھائی ملنے آئے ہیں.
ٹھیک ہے آپ انھیں یہاں ہی لے آئیں.بابا کے یہ کہتے ہی ہم عتیق بھائ کو لئے
کمرے میں آگئے.اور بیٹا عتیق آپ آج یہاں کیسے؟؟؟؟
بابا نے کہا تو سامنے سے جواب آیا میرے پاس آپکے لیئے کچھ عقیق ہیں امید ہے
آپ کو پسند آئین گے.یہ کہتے ہی انھوں نے کپڑے کی تھیلی کھول کر میز پر قلیل
مقدار میں کچھ عقیق الٹ دیئے جنھیں اب بابا کافی دلچسپی لئیے جانچ رہے تھے-
عتیق بھائی جوانی کی حدود میں قدم رکھتے ہوئے ایک ہونہار میڈیکل اسٹوڈنٹ
تھے.بہت کم عمر میں ہی باپ کا سایہ سر پر سے اٹھنے کے باعث گھر کی ساری ذمہ
داری انکے کندھوں پر آپڑی تھی.جسکے باعث انھیں اپنی تعلیم جاری رکھنا بھی
مشکل ہورہا تھا.وہ اکثر بابا کے لیئے کچھ نہ کچھ لاتے تھے.بابا کی طرح
انھیں بھی قیمتی پتھروں کا شوق تھا.
پتھر بلکل اصلی ہیں.بابا کی آواز ہمیں پھر سے خیالوں سے واپس لے آئی.لال
لال عقیق ہمیں کبھی انگاروں کی طرح دکھتے تو کبھی ان میں سرخ خون نظر آتا.
پتہ نہیں کیوں پر عقیق کی یہ سرخی اب ہمیں عتیق بھائی کے چہرے پر بھی نظر
آرہی تھی. خون آلود چہرہ ہم اچانک ہی خوف زدہ ہوکر بابا کی ٹانگوں سے لپٹ
گئے. ہم آج بھی اپنی اس کیفیت کو الفاظ دینے سے قاصر ہیں. شاید معصوم بچوں
میں وجدان کی کیفیت بھی ہوتی ہے..جیسے جیسے کچھ بہت برا ہونے والا
ہو.کھلاڑی تیزی سے گیند کی طرف جھپٹا پر یہ کیا گیند اس کی گرفت سے نکل
گئ.شاید ایک منٹ کے بھی ہزارویں سیکنڈ میں.........کیسے؟ ؟؟ ارے ایسے
کیسے؟؟؟؟ اتنا پرانا کھلاڑی ناکام کیسے ہوسکتا ہے.بچ نکلنے والی گیند
کھلاڑی کو گویا منہ چڑا رہی تھی.ہمت ہے تو پھر سے کوشش کر.افففففف پھر ایک
وحشت ناک خیال.بابا بابا! ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے. انھیں ہمارے سامنے سے ہٹا
دیجیئے. بابا اور عتیق بھائ ہماری اس حرکت پر ہنسنے لگے. |