ٰعلامہ اقبال کا نظریہ خودی

علامہ اقبال کے نظریات کے متعلق بہت لکھا جا چکا ہے۔ لیکن جہاں تک ان کے نظریہ کا تعلق ہے اس کی تہہ تک کم لوگ پہنچے ہیں۔ اقبال کا نظریہ خودی تین حصوں پر مشتمل ہے۔۱۔ فلسفہ خودی کی تشریح ۔ ۲۔ نظریہ خودی کا ماخذ۔ ۳۔ اور اس فلسفہ کا مقصد۔ اقبال نے فلسفہ خودی کا تصور سب سے پہلے "اسرار خودی" میں پیش کیا۔ اسرار خودی کے مطالعہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ خودی کا تصور شدت کے ساتھ ان کے دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ جو بات وہ کہناچاہتے ہیں وہ واضح طور پر کہہ نہیں سکے۔ چنانچہ منشی سراج الدین کے نام اپنے خط مورخہ 4اکتوبر1915ء میں تحریر کرتے ہیں،"یہ مثنوی اسرار خودی دو سال کے عرصہ میں لکھی گئی مگر اس طرح کہ کئی کئی ماہ کے وقفوں کے بعد طبیعت مائل ہوتی رہی۔ چند اتوار کے دنوں اور بعض بے خواب راتوں کا نتیجہ ہے۔ اگر مجھے پوری فرصت ہوتی تو غالبا اس موجودہ صورت سے یہ مثنوی بہتر ہوتی"۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظریہ خودی کی ٹھوس صورت اور اس کی جملہ جزیات اس وقت تک واضح طور پر ان کے ذہن میں واضح ہوتے گئے یہ نظریہ ان کے کلام کا مرکزی خیال بنتا گیا۔ ان کے خطبات جو انگریزی زبان میں ہیں اور جن کے اردو تراجم شائع ہو چکے ہیں۔ نظریہ خودی کے بہترین ترجمان ہیں"۔

عام طور پر یہ خیال ہے کہ اقبال چونکہ اسلامی شاعر اور مفکر ہیں اس لئے ان کے نظریات کا مقصد صرف مسلم قوم کو بیدار کر کے منظم اور متحد کرنا ہے لیکن یہ بات درست نہیں کہ مسلمانوں کے علاوہ ان کو کسی سے دلچسپی نہ تھی۔ جس آدمی کا یہ عقیدہ ہو کہ "خودی کی جدوجہد کا انجام شخصیت کی تحدید سے چھٹکارا نہیں بلکہ تخلیقی عمل ہوگا جو خودی کے وجود کو مستحکم کرے گا اور اس خیال سے اس کے ارادے کو تیز کرے گا کہ اس دنیا کو صرف عقائد اور عمل کے ذریعے بدلا اور بنایا جائے گا"۔ وہ کسی ایک گروہ یا قوم کا مفکر کیسے ہو سکتا ہے۔

اقبال کے فلسفئہ خودی کا مقصد انسان کو اپنی آزادانہ خودی اور شخصیت سے آگاہ کر کے کارزارحیات میں بحیثیت خالق لانا ہے۔ بوسیدہ روایات اور عقائد کے بتوں کو پست ہمتی اور غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کرفکر وعمل کو نئے ماحول اور ضروریات کے مطابق ترتیب دینا ہے۔ موجودہ تہذیب و تمدن کےمعنوی آنین تخصیص اور عدم مساوات کو بدل کر خواجہ و مزدور، حاکم و محکوم، محمود و ایاز، بندہ و نواز کی تمیز کو مٹانا ہے۔ خالق و مخلوق میں ایک نیا رشتہ قائم کر کے دنیا میں ایک ایسی انسانی برادری قائم کرنا ہے جو قوائے فطرت پر فتح کر سکے اور اس خرابہ دہر کو جنت ارضی میں تبدیل کر سکے۔

علامہ اقبال مولانا رومی کی طرح نفس انسان ہی کو موضوع تحقیق قرار دے کر اپنے نظریات کا محل تعمیر کرتے ہیں۔ یہ جہاں رنگ و بو، یہ زمین و آسمان، یہ وادیاں اور پہاڑ، یہ شب و روز کا تسلسل اور موسموں کا تغیر و تبدل، یہ چاند اور سورج، یہ ستارے اور سیارے سب واہمہ سہی۔ یہ دنیا اور اس کے رنگین نظارے ہماری نظر کا دھوکہ سہی۔ یہ بھی مانا کہ انسان اور اس کا علم محدود ہے۔ زمان و مکان کا پابند ہے لہذا اس نے اپنے اور اپنے ماحول کے بارے میں جو رائے قائم کی ہے اسے صحیح تسلیم نہیں کیا جا سکتا لیکن ایک چیز تو یقینی اور واقعی ہے جس میں شک قطعی ناممکن اور وہ خود انسان کا شک کرنا، سوچنا اور فکر کرنا ہے۔یہ تو ایک متضاد بات ہوگی کہ جو سوچ رہا ہے وہ سوچنے کی حالت میں موجود ہی نہ ہو۔ سوچنے یا شک کرنے کے لئے ایک سوچنے والا، شک کرنے والی ذات کا ہونا ضروری ہے شک کرنے کے معنی سوچنے اور سوچنے کے معنی ہونے کے ہیں۔ انسان سوچتا ہے کہ میں ہوں۔ میرے سوچنے سے ثابت ہوتا ہے کہ اور کچھ موجود ہو یا نہ ہو میری خودی، میری انا، میری ذات کا وجود تو قطعا ہے۔

میری خودی یا انا کا وجود میرے لئے ساری کائنات سے زیادہ یقینی اور قطعی ہے۔ یہی یافت بقول پروفیسر وائٹ بیڈ"افلاطون کے زمانے کے بعد سب سے زیادہ اہم فلسفیانہ یافت ہے"۔ یہی فلسفہ جدید کا نقطہ نظر ہے اور اقبال کے فلسفےکی ابتدا بھی یہیں سے ہوتی ہے۔ ان کے نظریات اسی نقطہ مرکزی کے گرد گھومتے ہیں۔
مختصر یہ کہ خودی کا عرفان اقبال کے فلسفے کا سنگ اساس ہے۔ اسی کی تبلیغ ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ وہ چاہتے تحے کہ دنیا والے اس راز کو ان سے سیکھیں اور اس کے نور سے اپنی شب تیرہ و تار کو روشن کریں۔ اقبال حد درجہ خوددار اور مئے بے نیازی سے سر شار تھے۔ عمر بھر اپنے اس مقولے پر عمل پیرا رہے۔
میرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی میں نام پیدا کر

نہ کسی کی خوشامد نہ احسان لیا۔ ہمیشہ نڈر ہو کر حق بات کہی۔ وہ خودی اور خودداری کو قربان کر کے دنیاوی جاہ ومنصب کے حصول کے خواہشمند نہ تھے ورنہ جوہر ادراک کے خریداروں کی کمی نہ تھی۔ علامہ اقبال کی زندگی میں ایسے بہت سے مواقع پیش آئے جب حیات کی ملمع کاریاں اور دنیا کی طلسم بندیاں آپکو اپنی طرف رجوح کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن آپ نے راست بازی اور حق گوئی کا دامن نہ چھوڑا اور نہایت بے باکی سے اپنے پیغام عمل کو دنیا کے سامنے پیش کرتے رہے۔ غرض مندوں کو شکایت ہوئی عیب جو حضرات نے عیب تراشے اور نکتہ چینیوں نے تہمتیں باندھیں مگر اس مرد حق گو کے پائے ثبات میں کبھی لغزش نہ آئی۔ خود کہتے ہیں۔
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بےگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

اقبال کی تمام عمر فکر معاش میں گزری مگر آپ میں غیرت مندی کا مادہ بحد کمال پایا جاتا تھا۔ ایک دفعہ سر اکبر حیدری نے توشہ خانہ حیدرآباد دکن سے ایک ہزار روپے کا چیک بھیجا چونکہ یہ دوستانہ تحفہ نہ تحا بلکہ روپیہ سرکاری مد سے بھیجا گیا تھا اس لئے انھوں نے قبول نہ کیا اور ان الفاظ کے ساتھ واپس کردیا۔
میں تو اس بار امانت کو اٹھاتا سر دوش
کام درویش میں ہر تلخ ہے مانند نبات
غیرت فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول
جب کہا اس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات

اقبال ایسے شعراء میں سے ہیں جو شعر شاعری تفنن طبع کے طور پر اختیا کر لیتے ہیں۔ انکا کلام خیال آرائی اور فافیہ پیمائی پر مبنی نہیں ہے بلکہ سراسر ایک پیغام ہے۔وہ فرضی حسن و عشق کی بناء پر گل و بلبل، شمع و پروانہ، قمری و سرو، شیریں و فرہاد کے مضامین نہیں باندھتے بلکہ ان کے سامنے ایک واضح نصب العین ہے۔

اقبال کا ایک خاص رنگ تھا۔ اس کے علاوہ ان کا ایک خاص نظریہ بھی تھا یعنی نظریہ خودی جو ان کی جملہ نگارشات کا مرکزی نقطہ ہے، محوری خیال ہے۔ اگر ان کی تحریروں میں سے نظریہ خودی کو خارج کر دیا جائے تو کچھ باقی نہیں رہتا۔ اسرار خودی کے دیباچہ میں خود تحریر کرتے ہیں،"شاعرانہ تخیل محض ایک حقیقت کی طرف توجہ دلانے کا کہ لذت حیات انا کی انفرادی حیثیت اس کے ثبات استحکام اور توسیع سے وابستہ ہے۔ یہ لفظ بمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر اردو میں مستعمل ہے اس کا مفہوم محض" احساس نفس" ہے وہ کہتے ہیں،
خودی کی شوخی و تندہی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو لذت نیز نہیں

رموز بے خودی کے دیباچے میں لکھتے ہیں،"قومی انا کی حفاظت، تربیت اور استحکام اور حیات ملیہ کا انتہائی کمال یہ ہے کہ افراد قوم کسی آئین مسلم کی پابندی سے اپنے ذاتی جذبات کے حدود مقر کریں تاکہ انفرادیاعمال کا فرق مٹ کر تمام قوم کے لئے ایک قلب مشترک پیدا ہو جائے۔ افراد کی صورت میں احساس نفس کا تسلسل قوت حافظہ ہے"۔فرماتے ہیں
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ

اقوام کی صورت میں اس کا تسلسل و استحکام قومی تاریخ کی حفاظت سے ہے جو اس کے مختلف مراحل کے حسیات و اعمال کو مربوط کر کے قومی انا کوزمانی تسلسل میں محفوظ رکھتی ہے۔

علامہ اقبال نے ڈاکٹر نکلسن کو مسئلہ خودی کی جو تشریح لکھی اس سے چند اقتباسات ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں۔

"انسان کا اخلاقی اور مذہبی نصب العین نفی نہیں بلکہ اثبات خودی ہے۔ یہ نصب العین صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان زیادہ سے زیادہ منفرد اور یکتا بن جائے۔آنحضرت صلی االلہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے،"اپنے اندر اوصاف خداوندی پیدا کرو"۔ چنانچہ انسان اس یکتا ہستی یعنی خدا سے مشابہت اور قرب پیدا کرنے سے خود بھی فرد بن سکتا ہے۔ آگے کہتے ہیں،"انسان کے اندر حیات کا مرکز خودی یا شخصیت ہے۔ شخصیت کشا کشی کی ایک کیفیت کا نام ہے اور اس کیفیت کی بقا سے ہی وہ قائم رہتی ہے۔ ہر وہ شے جو اس کیفیت کشاکش کے بقا میں معاون ہو ہمیں غیر فانی بنانے میں مددگار بنتی ہے۔ خودی کے اس تصور سے اقدار کا معیار قائم ہوجاتا ہے اور نیکی و بدی کا معمہ بھی حل ہو جاتا ہے۔ ہر وہ شے جو خودی کو مستحکم نبائے خیر ہے اور جو کمزور کرے شر ہے۔ آرٹ، مذہب، اخلاق سب کو خودی کے معیار ہی سے جانچنا چائیے۔ اسرار خودی کے دیباچے مین اقبال لکھتے ہیں،"اخلاقی اعتبار سے افراد و قوم کا طرز عمل اس نہایت ضروری سوال یعنی خودی کیا ہے کے جواب پر منحصر ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہ ہوگی جس کے حکماء و علماء نے کسی نہ کسی صورت میں اس سوال کا جواب پیدا کرنے کے لئے دماغ سوزی نہ کی ہو"۔

اس مختصر تمہید کے بعد کلام اقبال سے مثالیں پیش کر کے یہ دکھانے کی کوشش کی جائے گی کہ ان کے ہاں مرکزی خیال احساس نفس یعنی خودی ہے۔ بال جریل میں باربار خودی کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں جستہ جستہ اشعار مثال کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں۔ ساقی نامہ میں لکھتے ہیں۔
خودی کیا ہے راز دردن حیات
خودی کیا ہے بیداری کائنات

ہر چیز ہے محو خودنمائی
ہر ذرہ شہید کبریائی

خودی کی خلوتوں میں گم رہا میں
خدا کے سامنے گویا نہ تھا میں

خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی

خودی کے ساز میں ہے عمر جاوداں کا چراغ
خودی کے سوز سے روشن ہیں امتوں کے چراغ

ضرب کلیم میں بھی جابجا اقبال نےخودی کا ذکر کیا ہے،

خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف
کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز

علامہ اقبال کا پورا کلام شروع سے آخر تک تبلیغ خودی کا ایک دفتر ہے۔ ان کی زندگی کا مقصد ہی یہ تھا کہ انسان کو اپنی خودی سےے آگاہ کریں تاکہ اقوام مشرق کی کسر نفسی، عجز، بے بسی، بے چارگی اور خودشکنی کے تصورات کو ختم کیا جائے۔
ویسے تو علامہ اقبال کا بیشتر کلام خودی کے موضوع پر فارسی زبان میں پایا جاتا ہے لیکن یہاں ان کے اردو کلام کے اشعار ہی پیش کئے گئے ہیں۔

فلسفہ خودی کے نظریاتی پہلو پر روشنی ڈالنے کے لئے زیادہ تر اسرار خودی اور رموز بے خودی کے دیباچوں ، مکتوب بنام ڈاکٹر نکلسن اور انگریزی خطبات کو پیش نطر رکھا گیا ہے۔ خودی کے استحکام اور ارتقا کی وضاحت کے سلسلے میں زیادہ تر منظومات سے مدد لی گئی ہے۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

آخر میں ڈاکٹر اقبال کے بصیرت افروز اشعار پیش ہیں

خودی کا سر نہاں لاالہ الااللہ
خودی ہے تبلیغ فشاں لاالہ الااللہ
یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لاالہ الااللہ