ہمارے ملک میں کتنا ٹیلنٹ ہے۔ جو
سخت کوشش، محنت، اور لگن کے ساتھ نا مساعد حالات، نا انصافی، اقربا پروری،
میرٹ کے قتل عام کے باوجود آگے بڑھنے کی جہدوجہد میں مصروف ہے۔ اس ملک کے
اصل رکھوالے، اور اس کے ساتھ محبت رکھنے والے بھی یہی لوگ ہیں۔ جو اپنے کچے
مکانوں، بغیر کسی کوچنگ، ٹریننگ کے کھیلوں کی دنیا میں اپنا نام پیدا کررہے
ہیں۔ ہم اپنی نوجون نسل کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں ناکام رہے ہیں،
کراچی کی کچی اور غریب بستیوں میں نسیم حمید جیسی کتنی بچیاں ہیں۔ جو
پڑھائی، کھیل، مصوری، آرٹ، فنون کی دنیا میں اپنا اور ملک اور قوم کا نام
روشن کرسکتی ہیں۔ لیکن ان بچوں پر نہ حکومت اور نہ کھیلوں کے فروغ کے نام
پر کروڑوں روپے کا ہر سال بجٹ رکھنے والے ادارے کوئی توجہ دیتے ہیں۔ نہ ان
کی تعلیم اور صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ لیاری جو فٹبال کے لئے زر
خیز علاقہ تھا۔ اسے ہم نے باکسنگ، فٹبال کے بجائے منشیات سے شہرت دی۔ ساؤتھ
ایشین گیمز میں خطے کی ”اسپرنٹ کوئن“ کا اعزاز حاصل کرنے والی پاکستانی
نسیم حمید کا گھر پوری دنیا نے میڈیا پر دیکھا۔
اس گھر کے باہر برائے فروخت کا بورڈ لگا ہے۔ نسیم حمید کے میڈلز اور
ٹرافیاں صندوق میں رکھی ہوئی ہیں۔ جن کو سجانے کے لئے کوئی شو کیس نہیں ہے۔
وہ مزدورکی بیٹی ہے۔ جس نے ملک کا نام روشن کردیا ہے۔ کورنگی کی نسیم حمید
نے 100 میٹر کی دوڑ میں طلائی تمغہ حاصل کر کے جنوبی ایشیا کی تیز ترین
خاتون کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ جس کے بعد نسیم حمید کو خطے کے میڈیا میں
زبردست پذیرائی ملی۔ ایک عرصے کے بعد پاکستان کی اس کامیابی نے دلوں میں
جوش اور ولولہ بھر دیا ہے۔ نسیم حمید کی کامیابی کو بھارت اور بنگلہ دیش کے
میڈیا میں نمایاں جگہ دی گئی۔ بنگلہ دیش کے مختلف چینلز نے ان کے قدموں کے
نشان دکھائے۔ سری لنکن اخبار نے انہیں ”وومن آف دی ریجن“ کا خطاب دیا۔ یہ
کراچی کی بیٹی ہے۔ جس نے ملت اسکول کورنگی اور کورنگی کالج سے میٹرک اور
انٹر کی تعلیم حاصل کی ہے۔ نسیم حمید 40 گز کے گھر میں رہتی ہے۔ اس کی غربت
کا یہ عالم تھا کہ اس کے گھر والے اس سے بھی چھوٹے گھر کی تلاش میں تھے۔
تاکہ اس گھر سے فروخت ہونے والی رقم سے گھر کے لیے کچھ ضروری اشیاء خرید لی
جائیں ۔ اور جسم اور جاں کا رشتہ قائم رکھا جائے۔ اللہ نے اس بچی کو
کامیابی دلائی اور اب طلائی تمغہ جیتنے پر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور
پاکستان ایتھلیٹکس فیڈریشن نے ایک، ایک لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔
ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال نے 2 لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔۔ ایک
بہن، ایک بھائی اور ماں باپ کے ساتھ رہنے والی نسیم حمید کسمپرسی کی زندگی
بسر کرنے والے خاندان کی کفیل ہیں۔ مہنگائی کے دور میں اعلان کردہ رقم
زیادہ حیثیت نہیں رکھتی لیکن40 گز کے مکان میں رہنے والے ایک غریب خاندان
کے لیے یہ رقم ملنا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ ایک کمرے کا یہ مکان جس میں وہ
مقیم ہیں اس خاندان کی بے بسی کی تصویر ہے۔ نسیم کے والد راج مستری کا کام
کرتے ہیں اگر مزدوری مل جائے تو ٹھیک ہے ورنہ کھانے کے بھی لالے پڑ جاتے
ہیں۔
نسیم حمید آرمی کی ایتھلیٹکس ٹیم کا حصہ ہیں۔ ان کو ملنے والے9 ہزار روپے
ماہانہ ہی اس خاندان کے گزر بسر کا سبب بنتے ہیں۔ کسمپرسی کا اندازہ اس بات
سے لگایا جا سکتا ہے کہ نسیم حمید کو ملنے والے میڈلز اور ٹرافیاں ایک
اٹیچی کیس میں رکھے ہوئے ہیں۔ نسیم حمید کی چھوٹی بہن قرة العین بھی کھلاڑی
ہے اور سندھ کی فٹ بال ٹیم کی رکن ہیں۔ نسیم کے والد حمید اور والدہ نسرین
کو ہی نہیں آج ہر پاکستانی کو اپنی بیٹی پر فخر ہے۔ پاکستان نے ایتھلیٹکس
میں چار گولڈ، دو سلور اور چار برانز میڈلز حاصل کئے۔ بھارت نے ڈھاکا گیمز
میں مجموعی طور پر87 گولڈ میڈل اور پاکستان نے انیس گولڈ میڈل جیتے ہیں۔
بنگلہ دیش نے فٹبال اور کرکٹ میں باکسنگ میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔ کراچی کی
گلیوں اور سڑکوں پر آج کل بچے کرکٹ کھیلتے ہیں۔ اس شہر میں قائد اعظم نے
کرکٹ کھیلی ہے۔ لیکن اس وقت کھیلنے کے میدان تھے۔ اب ہم نے پلازے بنا دئے
ہیں۔ قائد تحریک کہتے ہیں کہ کچے گھروں میں موجود ٹیلینٹ ملک کو وکٹری
اسٹینڈ پر لا سکتا ہے۔ لیکن کراچی والو یہ بھی تو سوچو کہ یہ ٹیلنٹ جھگیوں،
میں کیوں ہے۔ ان کی تعلیم وتربیت، بنیادی سہولتیں فراہم کرنا کس کی ذمہ
داری ہے۔ یہ ایک نسیم حمید کا مسئلہ نہیں بلکہ اس ملک کے 90 فیصد عوام کا
مسئلہ ہے۔ |