گہری نیلی پرسکون جھیل تاحد نگاہ
پانی ہی پانی اور روح کو چیردیتا ہوا سناٹا.
ارے یہ کیا! اچانک ہی کسی کی چھوٹی سی شرارت نے جھیل کے پرسکون ماحول میں
بے چینی پیدا کردی.ایک پتھر .......ہاں
بس ایک پتھر اور جھیل کی لہروں میں دور دور تک ارتعاش پیدا ہوتا گیا.پر
جیسے ہی یہ ہلچل مچی تھی. ویسے ہی آہستگی سے ختم بھی ہوتی گئ
اور پھر سے وہی خاموشی اور سکون کی کیفیت ماحول پر طاری ہو گئ.
عتیق دھیرے سے اپنی جگہ سے اٹھا اور ماں کے قدموں میں آکر بیٹھ گیا..
ماں!..........آپ سن رہیں ہیں مجھے.....
جواب .....خاموشی
ماں!پھر سے اس نے پکارا......آپ جانتی ہو نہ میں یہ سب کس لیئے کررہا ہوں.
مجھے اپنے لیئے کچھ نہیں چاہیئے.ماں
ماں...........بابا کا میڈیکل اسٹور میں اکیلا نہیں چلا سکتا.میرے پاس
فارمیسی کی ڈگری نہیں اور میری تعلیم بھی ادھوری رہ گئ ہے.بابا کے علاج میں
ہم پیسہ کافی خرچ کرچکے ہیں.اگر جلد کچھ نہ کیا تو سب رہا سہا بھی کنارے لگ
جائے گا.مجھے معاف کردیجئے گامگر یہ بہت ضروری ہے
زبیدہ خاتون نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں ......نہیں بیٹا مائیں کبھی اپنی
اولاد سے خفا نہیں ہوتیں.اور پھر ایسا کیا کرنے جا رہے ہو تم؟ ؟؟؟؟
عتیق نے ماں کے ہاتھ تھام کر کہا.میں اپنے کام میں دو پارٹنرز شامل کررہا
ہوں. علاقائ ہیں اور میڈیکل کا اچھا خاصا پھیلا کاروبار ہے انکا نوابشاہ
میں اور اب وہ ہمارے شہر میں بھی اپنا کام پھیلانا چاہتے ہیں.اس سے ہم
دونوں کا ہی فائدہ ہے.میرا کاروبار بھی بند ہونے سے بچ جائے گا بلکہ اسکو
مزید آگے بڑھایا جاسکتا ہے.
پر بیٹا وہ لوگ بھروسے کے قابل تو ہیںنا..........زبیدہ خاتون کسی انجانے
خوف سے لرز اٹھیں ....آج کل کتنا کچھ سننے میں آریا ہے
نہیں ماں میں نے اطمینان کر لیا ہے.سب ٹھیک ہے بس آپ اجازت دے دیں.پھر
دیکھنا سب ٹھیک ہوجائے گا.حالات بھی بہتر ہوجائیں گے اور بہنوں کے فرض سے
بھی سبکدوش ہو جاؤں گا.میں جانتا ہوں جوان لڑکیاں گھر بیٹھی ہوں تو دس لوگ
باتیں بناتے ہیں سچ مجھے آپا کی باتوں کا بالکل برا نہیں لگا.......عتیق
زبیدہ خاتون نے اپنے ہونہار بیٹے کا مسکرا کر ماتھا چوما اور کہا.....ٹھیک
ہے آپ کو جو بہتر لگے آپ کریں.
ٹھیک ....عتیق خوشی سے جھوم اٹھا میں کل ہی شام کی چائے پر انھیں انوائٹ
کرلیتا ہوں.
ایکشن ری پلے.........کلک کلک اور سین بدل گیا
...........مہمان گھر آچکے تھے.ماں یہ شاہنواز اور یہ بہروز آپکا دوائیوں
کا بہت بڑا بزنس ہے.عتیق
بیٹھو بیٹا.......زبیدہ مخاطب ہوئیں.تو آپ دونوں ہیں وہ عتیق نے کافی ذکر
کیا آپ کا
شاہنواز نے مسکراتے ہوئے اپنی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے ایک نظر پورے گھر
پر ڈالی. چھوٹا سا سلیقے سے سجا خوبصورت گھر
پر یہ کیا اسکی نظر ہلتے پردے پر جم سی گئ.
وہاں کوئ اور نہیں نزہت تھی جو سن گن لینے کے لیئے پردے کی اوٹ سے جھانک
رہی تھی.بس ایک لمحہ .........آپس میں نظریں ٹکرائیں.نزہت کی جیسے جان ہی
نکل گئ.وہ بھاگ کر واپس کمرے
میں چلی گئ.شاہنواز کی مسکراہٹ اور گہری ہوتی گئ.............دھڑ دھڑ زور
سے دروازہ پیٹا
سماعت پر آواز ہتھوڑے کی مانند چوٹ برسا رہی تھی.
کون ہے میں دھیرے سے اٹھی. کمرے میں شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا.سامنے ہی
میری بیٹی کھڑی تھی. ششم کلاس کی طالبہ اور میری پیاری سی گڑیا......ماں!
کیا بات ہے آپ اندھیرے میں کیوں بیٹھی ہیں.اور کیا بات ہوگئ اسطرح اچانک آپ
دکان سے چلی آئ.ابھی پاپا شجاعت انکل سے بات کررہے تھے فون پر
کچھ نہیں بیٹا بس ایسے ہی تھک گئ تھوڑا ریسٹ کررہی تھی اب ٹھیک ہوں.آپ چلو
میں ابھی فریش ہوکر آتی ہوں
نائلہ میری بیٹی خوشی سے جھوم اٹھی .....اوکے ماما لیکن جلدی ہاں
ماحول یک دم ہی خوشگوار ہوگیا.ہم دونوں ہی ہنس پڑے کچھ دیر کی کیفیت اب ختم
ہوچکی تھی. |