تحریر سیدتوکل حسین شمسی
مفردات القرآن میں راغب اصفہانی کہتے ہیں ہر وہ چیزجوحس کی دسترس
سےپنہاںوپوشیدہ ہو اس کو"جن" کہا جاتا ہے قرآن مجید میں جن کا لفظ یا مادہ
کئی معانی میں استعمال ہوا ہے۔
1۔ڈھال وسپرکے معنی میں ؛سورہ مجادلہ آیت 16میں ارشاد ہوتا ہے" وہ اپنی
قسموں کو سپر قرار دیتے ہیں اپنےغیرایمانی اور غیر اسلامی چہروں کو چھپانے
کے لئے"اسی طرح حدیث میں بھی ڈھال کے معنی میں استعمال ہوا ہے (الصوم
جنۃ)روزہ مؤمن کے لئے سپر ہے۔ شاید اس لئے کیونکہ سپر انسان کو پوشیدہ کر
دیتی ہے پھر اس پر دشمن کا وار اثر نہیں کرتا۔
2۔باغ اور جنت کے معنی میں؛ باغ کو اس لحاظ سے کہ اسکے درخت زمین کوچھپا
دیتے ہیں اور بہشت کو اس لحاظ سے کہ اس کی نعمتیں ہم سےپوشیدہ ہوتیں ہیں
جنہ کہا جاتا ہے۔
3۔جنین کے معنی میں؛ماں کے شکم میں موجود بچے کو اس لحاظ سے کہ وہ پنہاں
ہوتا ہے جنین کہا جاتا ہے جیسے سورہ نجم کی آیت 32 میں استعمال ہو ا ہے۔
4۔فرشتوں کے معنی میں؛جیسے کہ سورہ صافات کی آیت 158 میں آیا ہے وہ اللہ
اور فرشتوں کے درمیان نسبت قرار دیتے ہیں آیت میں "الجنۃ" کا لفظ ہے اور اس
سے مراد فرشتے ہیں۔
5۔ جنون اور دیوانگی کے معنی میں؛جیسے کہ سورہ صبا کی آیت 46 میں استعمال
ہو ا ہے وہ اس لحاظ سے کہ دیوانے سے اس کی عقل غائب اور پنہاں ہو چکی ہوتی
ہے۔
6۔خاص مخلوق کے معنی میں ؛ کہ جس مخلوق سے انسانوں کی طرح سوال وجواب اور
حساب و کتاب ہو گا۔(سورہ ذاریات آیت56)
ان آیات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کسی پوشیدہ اور پنہاں چیز کے لئے عربی زبان
میں جن کا لفظ یا مادہ استعمال کیاجاتا ہے ۔معصومین علیہم السلام سے کچھ
ایسی ہی روایا ت نقل ہوئی ہیں جن میں جن یا شیطان کا لفظ استعمال ہوا ہے
اور معصومین علیہم السلام کی وہاں پرمرادپوشیدہ و پنہان جاندار ہیں کہ جن
کو آج ہم جراثیم کہتے ہیں اور خاص آلات کے وسیلے سے دیکھ بھی سکتے ہیں کل
تک ان احادیث کا معنی ومفہوم ہمارے لئے ناآشناتھا اورہمارے ذھن میں ہزار
قسم کے سؤالات تھے کہ معصوم (ع) کی اس حدیث سے کیا مراد ہے کہ ہرحیوان کی
ناک پر جن یا شیطان بیٹھا ہے یہ کون سا جن ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا اور نہ
ہی محسوس ہوتا ہے۔اس سارے مقدمہ کو ذھن میں رکھتے ہوئے معصومین علیہم
السلام کی کچھ احادیث کو بیان کرتے ہیں کہ جن میں جن یا شیطان کا لفظ
استعمال ہو ا ہے اور ہم ان کوممبر پر بیان کر نے سے ہچکجاہٹ محسوس کرتے ہیں
یا ان احادیث ہی کوضعیف قرار دیتے ہیں اس کے باوجود کہ وہ ہماری معتبر کتب
میں ذکر ہوئیں ہیں۔
1۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں؛چکنائی والے ہاتھوں کےساتھ
رات کو مت سویا کرواگر ایسا کرو اور صبح شیطان نے تم کوکوئی صدمہ پہنچایا
ہوا ہو تو پھر تم اپنے آپ کو ملامت کرو(وسائل الشیعہ)
2۔امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں؛ اپنے بچوں کے ہاتھ رات سونے سے پہلے
دھوایا کرو کیونکہ شیطان چربی اور چکنائی کی بو محسوس کرتا ہے اور اس کے
پیچھے آتا ہے جس کی وجہ سے بچے رات کوسوتے میں بے تابی کرتے یا ڈر جاتے
ہیں(وسائل الشیعہ)
3۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں؛ کوڑاکرکٹ کو گھروں میں
اکٹھا کرکے نہ رکھو اور اس کو باہر پھینکا کرو کیونکہ وہ شیطان کی نشست گاہ
ہے۔(بحار الانوارجلد14)
4۔امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں؛برتنوں کو الٹا کرکے رکھا کرو
کیونکہ شیطان برتنوں کو اٹھا نہیں سکتا۔(بحار الانوار)
5۔امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں؛برتنوں کو دھوئے اور ڈھانپے بغیر نہ
رکھو کیونکہ شیطان ان برتنوں میں منہ مارتا ہے اور جتنا چاہتا ہے اس میں سے
کھاتا ہے اور اپنا لعاب اس میں چھوڑ جاتا ہے (وسائل الشیعہ)
6۔امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں؛اپنے ناخنوں کو کاٹو کیونکہ یہ شیطان
کومکان فراہم کرتے ہیں۔(وسائل الشیعہ)
7۔رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں؛ اپنی مونچھوں کو دراز مت
کرو کیونکہ شیطان اپنے آپ کو اس میں مخفی کر لیتا ہے ۔(وسائل الشیعہ)
8۔امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں؛وہ پوشیدہ ترین مخفی گاہ کہ شیطان جس
کے ذریعے سے بنی آدم پر مسلط ہونا چاہتا ہے وہ ناخن ہیں کہ تیزی کے ساتھ ان
کے نیچے مخفی ہو جاتا ہے (دوسرے لفظوں میں شیطان کا مورچہ انسان کے ناخن
ہیں)
9۔ٹوٹے ہوئےبرتنوں میں غذا مت کھاؤ اور پانی مت پیؤ کیونکہ شیطان وہی پر
ڈیرے ڈالے ہے۔(اصول کافی،کتاب الاشربہ،باب الاوانی،حدیث5، اور وسائل
الشیعہ)
آیا ان احادیث میں شیطان سے مراد وہی شیطان ہے جس نے حضرت آدم علیہ السلام
کو سجدہ نہیں کیا تھا؟ یا یہ کہ شیطان کی طرح کی کوئی نہ نظر آنے والی
مخلوق ہے جو ہمارے بدن پر مسلط ہو جاتی ہے اور ہم کو مریض کر دیتی ہے پھر
ہم اللہ کی اطاعت و عبادت صحیح طرح سے ادا نہیں کرپاتے بظاہر یہ شیطان بہت
چھوٹے ہیں لیکن کا م وہی کرتے ہیں جو ہمارا ابدی دشمن ابلیس کرتا ہے لہذا
معصومین علیہم السلام نے ان نامرئی مخلوق کو شیطان ہی فرمایا ہے ۔چربی کی
بو محسوس کر کے پیچھے آنا ابلیس کا کام نہیں وہ تو چربی کی بوکے بغیر بھی
ہمارے پیچھے آتا ہے کیونکہ اس نے ہمیں گمراہ کرنے کی قسم کھائی ہے چربی کے
لئے وہ آئے گا جس کو چربی بہت پسند ہے یعنی جراثیم اور بیکٹیریا ، گندے
برتنوں سے بچی کچی غذا پیٹ بھر کر کھا لینا، ٹوٹے برتنوں ميں رہ لینا،الٹے
برتنوں کو سیدھا نہ کر پانا ،کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں پر اپنا تخت لگانا،
مونچھوں اور ناخنوں میں ڈیرے ڈال دینا، یہ سب ان چھوٹے شیطانوں کے کا م ہیں
اللہ کی راہ میں رکاوٹ بننے والی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی معصوم علیہ السلام
کی نگاہ میں شیطان ہوا کرتی ہے۔معصومین علیہم السلام نے ان ایام میں جب کے
کوئی آلات میسر نہیں تھے جراثیموں کے بارے دقیق معلومات عنایت فرماکر ہم
انسانوں کو یہ درس دیا ہے کہ اھل بیت کی چند علمی احادیث کو سمجھنے کے لئے
کبھی کبھی 1400 سال کا عرصہ درکا ر ہوتا ہے وہ بھی ایسی مخلوق کے بارے جس
کو ہم خود اٹھا کرچلے پھرتے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ یہ چھوٹے شیطان ہماری
مونچھوں اور ناخنوں میں رہنا پسند کرتے ہیں؟ویسے تو اس کا جواب میڈیکل سے
وابستہ مؤمنین کو دینا چاہے اور اھل بیت علیہم السلام کی میڈیکل سے متعلق
احادیث کی روشنی میں نئے علمی باب کھولنے چاہیں۔بندہ حقیر کے ناقص ذھن میں
یہ بات آرہی ہے کہ کسی بھی جاندار کو رہنے کے لئے چند چیزوں کی ضرورت ہوتی
ہے جن میں مناسب مکان،مناسب آب وہوا ،مناسب غذااور مناسب سواری شامل
ہیں،انسان کے ناخنوں سے بڑھ کر جراثیموں کے لئےاورکون سی سواری مناسب ہو
سکتی ہے جو سیرسپاٹے کے ساتھ ساتھ ،رنگین غذاؤں تک بھی پہنچا دیتی
ہے۔جراثیموں کےلئے انسان کی بڑی مونچھوں سے بڑھ کر اور کون سا معتدل مقام
ہو سکتا ہے کہ ہر سانس کے ساتھ نمی والی ہوا میسر،گھنی چھاؤں میسراور دن
میں تین وقت کا کھانا میسر (مونچھوں کے کھانے میں ڈپ ہونے کی وجہ سے )۔لہذا
ہمیں ابلیس کے ساتھ ساتھ ان شیطانوں سے بھی اپنے آپ کواور اپنے بچوں کو
بچانا ہے تا کہ ہم صحت وسلامتی کے ساتھ اپنے رب کی اطاعت سے لطف اندوز ہو
سکیں۔
|