مریض، پرائیویٹ ہسپتال اور ٹیلی میڈیسن
(musarrat ullah, peshawar)
"ابئی تہ لا مڑہ نہ ئے" یہ
مکالمہ ہے ایک ہسپتال میں داخل ہونیوالے مریض سے ڈاکٹر کے دروازے پر تعینات
اہلکار کا ، اور ہسپتال بھی ایسی جماعت کے زیر انتظام جو ملک بھر میں اسلام
اور غریبوں کی حقوق کے دعویدارہیں-تبدیلی لانے کی بات کرتے ہیں اور صوبہ
خیبر پختونخوامیں "تبدیلی والی سرکار کیساتھ اتحادی بھی ہیں" ان الفاظ کا
اردو میں ترجمہ کچھ یوں ہے کہ"اماں جی تم ابھی تک مری نہیں" اور وہ بزرگ
خاتون اس داڑھی والے شخص کو دیکھ رہی تھی جو اسے پشتو زبان میں یہ بتا رہا
تھا - راقم اپنے ایک دوست کیساتھ چیک اپ کیلئے گیا تھا اور اس دوران بزرگ
خاتون وہاں پر آئی اور جنرل او پی ڈی میں داخل ہونے لگی تو دروازے پر
تعینات اہلکار نے متعلقہ خاتون کو یہ بات کی ، خاتون نے اسے کہا کہ میری
طبعیت اب بھی ٹھیک نہیں ہورہی ، اس لئے آئی ہوں ، تو اس اہلکار نے یہ کہتے
ہوئے اسے جانے کی اجازت دیدی کہ " مر جاؤ تو اچھا ہے کیونکہ تم تو ایک وقت
کی بہت زیادہ روٹیاں کھاتی ہو" - جس کے بعد خاتون بزرگ تو جنرل او پی ڈی
میں چلی گئی اور وہ اہلکار ایک دوسرے ساتھی کو آنکھ مارتے ہوئے کہنے لگا کہ
"میری ان سے گپ شپ ہے" - کیا یہی شخص اپنی والدہ کو بھی یہی الفاظ کہہ سکتا
ہے ، کیونکہ خاتون اس کی والدہ کی ہم عمر تھی-
اسی ہسپتال میں کچھ دیر بعد ایک میڈیسن کمپنی کا اہلکار داخل ہوا تو اسے
ایک ہی اہلکار نے روک لیا جس پر میڈیکل ریپ نے ابنا بیگ کھولا اور پانچ چھ
ڈبے میڈیسن کے نکال کر اسے دئیے تو پھر اسی اہلکار نے میڈیکل ریپ کو جنرل
او پی ڈی میں جانے کی اجازت دیدی- حالانکہ اس وقت مریضوں کا رش بڑا تھا -
راقم نے اپنے ساتھی جو کہ صحافی تھا کو بتایا کہ کاش ایسا کیمرہ ہوتا کہ اس
کو ریکارڈ کرتے تو پھر مزہ آتا ، کہ یہ پشاور شہر میں وہ ہسپتال ہے جسے کسی
زمانے میں افغانستان میں زخمی ہونیوالے لوگوں کیلئے بنایا گیا تھا سعودی
اور کویت کی فنڈنگ سے بننے والے اس ہسپتال میں ان لوگوں کا علاج مفت ہوتا
تھا جو کہ ایک مخصوص جماعت کے کہنے پر افغانستان میں جہاد کرنے جاتے تھے
افغانستان جہاد میں ٹینکوں سے سکریپ بنا کر کباڑ میں فروخت کرنے والے اسی
پارٹی کے کچھ لوگوں نے حالت بہتر ہونے کے بعد یہ ہسپتال اپنے پارٹی کے نام
کردیا اور " خدمت" کا دعوی کرتے ہوئے "دکانداری" شروع کردی ان کی یہ خدمت
ابھی بھی جاری ہے- راقم کے صحافی دوست نے افسوس کا اظہار کیا اسی دوران
ہمارے ساتھ انتظار گاہ کی کرسی پر ایک بوڑھا شخص جو بہت پہلے سے بیٹھا ہوا
تھا ، نے ہ جنرل او پی ڈی پر تعینات ایک اہلکار کو بلایا اور کہا کہ بیٹا
میرے معدے کا مسئلہ ٹھیک نہیں ہوا ، اور مجھے جلدی فارغ کردو ، وہ ٹیکنیشن
بزرگ بابا کو یہ کہنے لگا کہ میں نے کہا تھا کہ آٹھ بجے آجاؤ لیکن تم ابھی
آئے ہو ، ابھی انتظار کرو ، تو بابا نے جواب دیا کہ اور انتظار نہیں کرسکتا
کیونکہ معدے میں کافی تکلیف ہے ، تو ٹیکنیشن مسکراتے ہوئے پشتو زبان میں
کہنے لگا" بابا مزے لو ، دیکھ لو کتنی خوبصورت لڑکیاں آئی ہیں انہیں دیکھ
کر گزارا کرو" یہ الفاظ کہہ کر وہ وہاں سے جانے لگا-اور راقم دل میں سوچ
رہا تھا کہ اگر اس کی اپنی بہن ، ماں ، بیٹی اسی طر ح ہسپتال میں مجبوری کی
وجہ سے آئی ہوتی تو کیا وہ ایسے الفاظ کہہ سکتا تھا"
اسی ہسپتال میں راقم خون کے ٹیسٹ کیلئے گیا لیبارٹری میں تعینات افراد نے
خود ہی خون لیا لیکن جب کاغذ دینے لگے تو اسے پر جنس کی جگہ " فیمیل " لکھا
ہوا تھا حالانکہ لیبارٹری میں تعینات اہلکاروں نے کھلی آنکھوں سے خون لیا
تھا اور دیکھا تھا کہ راقم کوئی خاتون نہیں بلکہ مرد ہے ، لیکن کاغذ میں
فیمیل لکھ دیا ، جسے بعد میں ایک بہت بڑے ہسپتال میں دکھانے کیلئے راقم نے
بال پوائنٹ سے " fe " کاٹ دیا تاکہ شرمندگی نہ ہو-یہ واقعات ایک پرائیویٹ
ہسپتال کے ہیں اور ہسپتال بھی ان لوگوں کا جن کے لیڈروں کے "اسلام" " عوامی
خدمت" اور "برابری" لانے کے نعرے ہوتے ہیں لیکن اپنے ادارے میں ان کا یہ
حال ہے ، حالانکہ راقم نے اس بارے میں ایک ایس ایم ایس پیغام بھی اسی پارٹی
کے متعدد افراد کو بھیجا لیکن مجال ہے کہ کسی نے اس بار ے میں رابطہ کرنے
یا پھر غلطی کو دیکھنے کیلئے زحمت بھی کی ہو -
ان حالات میں ہمارے صوبے کے وزیراعلی " پی کے " نے دعوی کیا کہ صوبے میں"
ٹیلی میڈیسن" کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے اور مریض فون پر ڈاکٹروں سے مرض
کی معلومات اور ادویات لے کرعلاج کرسکیں گے- منصوبہ تو اچھا ہے لیکن ایسے
صوبے میں جہاں پر پرائیویٹ ہسپتالوں کا حال یہ ہو ، اور ایسے ہسپتال جو "تبدیلی
والی سرکار" کے اتحادی بھی ہوں ، ساتھ میں سرکاری ہسپتالوں میں تعینات
ڈاکٹر ہسپتال آنیوالے مریضوں کو پرائیویٹ کلینکوں کی راہ دکھاتے ہو
ں،کاغذات میں دکھانے کیلئے مفت ادویات ہوں اور جعلی ڈاکٹر بن کر عوام کو
لوٹتے ہوں ایسے میں ٹیلی میڈیسن منصوبے سے عوام کو فائدہ ہونے سے رہا لیکن
ہاں " پی کے " کے پارٹی کے کچھ کارکن اورڈاکٹرہسپتالوں میں بیٹھ کر فون پر
گپ شپ بھی کرسکیں گے اور اگر غلطی سے کسی نے علاج کیلئے فون کر بھی دیا تو
پھر ایسی ادویات بھی تجویز کرسکیں گے جن سے انہیں زیادہ اور مریض کو کم
فائدہ ہو ، احتساب کے دعوے کرنے والے " پی کے" اور تبدیلی والی سرکار یہ
بھی ذہن میں رکھ لے کہ موجودہ حالت میں تو شہری کبھار کبھار ڈاکٹر کے کسی
غلط اقدام پر اسے عدالت لے جاسکتے ہیں لیکن اگر فون پر غلط میڈیسن ملنے سے
کسی کو کچھ ہوتو پھر عوام کس کو "عدالتوں میں" لائیں گے- |
|