عدلیہ کی نظر میں مسلم مطلقہ خاتون کا حق
(Syed Mansoor Agha, India)
سپریم کورٹ نے لکھنؤ کی
مسماۃشمیمہ فاروقی کی عرضی پر ایک مرتبہ پھراس رائے کا اعادہ کیا ہے کہ
تعزیرات ہند کی دفعہ 125کا اطلاق بلااستثنٰی تما م ہندستانی باشندوں پرہوتا
ہے۔ اس دفعہ کے تحت مجسٹریٹ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اگرکوئی شخص وسائل
ہونے کے باوجود اپنے بے آسرا والدین یا بیوی بچوں کے گزراوقات سے لاپرواہ
ہو جائے، تواس سے عدالت ان کوگزارے کے لئے خرچہ دلوائے۔ہرچند کہ عدالت جو
رقم متعین کرتی ہے وہ نہایت حقیر ہوتی ہے مگراس پرواویلا بہت ہوتا ہے خصوصاً
اس صورت میں جب یہ حکم کسی مسلم مطلقہ خاتون کے حق میں دیا جائے۔
اس دفعہ کی ذیلی دفعہ الف میں جہاں بیوی کے لئے گزارہ بھتے کا استحقاق
مذکور ہے، وہیں طلاق شدہ بیوی کو بھی اپنے سابق شوہر سے گزارہ پانے کا حق
دیا گیا ہے۔ لیکن تبھی تک جب تک وہ دوسری شادی نہ کرلے ۔ استحقاق کی ایک
شرط یہ ہے کہ گزارہ طلب کرنے والے کے پاس خود گزارے کے قابل اپنا کوئی
زریعہ نہ ہو۔
بچوں کی ضمن میں تین باتیں مذکور ہیں۔ نابالغ ہوں۔ ان کے پاس گزر بسر کا
کوئی سادھن نہ ہو اوروہ اس کی قانونی اولاد ہوں یا غیرقانونی۔ (مراد غالباً
یہ ہے کہ قانونی بیوی سے ہوں یا رکھیل سے ، جس کا ہندوؤں میں رواج تھا
اوراب عدالت نے بغیر رسمی شادی ساتھ رہنے والے عورت کوبھی بیوی کا درجہ
دیدیا ہے اوراس سے پیدا ہونے والے بچوں کو قانونی بچوں کی طرح حقوق دیدئے
ہیں۔)
چاردہائی قبل شاہ بانو کیس میں بھی عدالت نے ایک ایسا ہی حکم دیا تھا ۔شاہ
بانو کی شادی 16سال کی عمر میں سنہ1932ء میں اندور کے ایک معروف وکیل
محمداحمد خان سے ہوئی تھی جو شہر کے صاحب حیثیت فرد تھے۔ان کی حیثیت کا
اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سنہ 1932ء میں ان کا مہر تین ہزارروپیہ مقرر
ہوا تھا۔جبکہ سونے کا بھاؤ صرف 18روپیہ فی دس گرام تھا۔
اس شادی سے دونوں کے پانچ بچے ہوئے ، دو بیٹیاں اور تین بیٹے۔ شاہ بانو سے
شادی کے 14سال بعدوکیل صاحب نے ایک اور شادی کرلی۔ اس سے بھی دو بچے
ہوئے۔30 سال تک دونوں بیویاں ساتھ رہیں۔ مگرسنہ 1975ء میں کسی بات پر ناراض
ہوکرانہوں نے شاہ بانو اوران کے پانچوں بچوں کو گھر سے نکال دیا۔البتہ خرچے
کے لئے دوسوروپیہ ماہانہ دیتے رہے۔ لیکن کچھ عرصہ کے بعد خرچہ دینا بند
کردیا۔ تین سال بعد سنہ1978میں ان کی 62سالہ رفیقہ حیات کو عدالت میں گزارہ
بھتہ کی عرضی داخل کرنی پڑی ۔ اس پرخانصاحب نے 6نومبر1978کو ان کو طلاق
مغلظہ (ناقابل رجوع ،تین طلاق) دیدی ۔
شاہ بانو کو جب گھر سے نکالا گیا ،وہ زندگی کے بہترین-43 44 سال محمد احمد
خان کی خدمت میں گزارچکی تھیں۔ ہرچند کی اسلامی تعلیمات کسی بھی عمر میں
نکاح ثانی کو نہیں روکتی بلکہ مستحسن قرار دیتی ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں
بیوہ ہو یا طلاق شدہ تو کیا غیرشادی شدہ معمر عورت کا نکاح کرنا معیوب
سمجھا جاتا ہے۔ جس عورت نے عنفوان شباب سے آخری عمر تک ایک بھرے پرے گھر
میں خوشحال زندگی گزاری ، اس کے لئے ایسا بے بس و بے سہارا ہوجانا یقینا
بڑا ہی تکلیف دہ ہوگا۔ اس کے کرب کا اندازہ لگانا آسان ہے۔
پریشان حال بیوی نے جب گزارے کے لئے عدالت سے رجوع کیا تو محمد احمد خان
صاحب کو اسلام کی وہ تعلیمات یاد نہیں آئیں جو بیوی کے تعلق سے دی گئی ہیں۔
ان کا گزارہ بحال کرنے کے بجائے ،اس کی ادائگی سے جان سے جان چھڑانے کے لئے
طلاق کا حربہ استعمال کیا اورعدالت سے کہہ دیا کہ انہوں نے طلاق دیدی ہے
اورمہر کی رقم ادا کردی ہے۔ عدت کے بعد طلاق شدہ بیوی کو گزارہ بھتہ دینے
کے وہ پابند نہیں، کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ لیکن مجسٹریٹ نے ان کی یہ دلیل
مسترد کردی اورمذکورہ دفعہ 125کے تحت صرف 25روپیہ ماہانہ گزارہ دینے کا حکم
صادر کردیا۔
مسٹرخان نے اس فیصلہ کوقبول نہیں کیا اور ہائی کورٹ میں اپیل کردی۔ کورٹ نے
اپیل کوخارج کردیا اور گزارے کی رقم بڑھا کر 179روپیہ 20پیسہ ماہانہ کردی،
جس پر کافی ہیجان برپا ہوا ۔ اس کے خلاف وہ سپریم کورٹ گئے ۔ سپریم کورٹ کی
پانچ رکنی بنچ نے فیصلہ یہ صادر کیا کہ اگرمسلم مطلقہ عورت کے پاس گزر
اوقات کا زریعہ نہیں اور اس کا مسلم شوہر نادار نہیں، تو شوہر اس وقت تک
گزارہ دینے کاپابند ہے، جب تک وہ عورت دوسری شادی نہ کرلے ۔عدالت نے یہ
دلیل بھی دی کہ اسلام مطلقہ بیوی کے ساتھ بھی حسن سلوک کی ترغیب دیتا
ہے۔محمداحمد خان کا رویہ تعلیمات اسلامی کے خلاف ہے، جس کے تحت وہ رلیف
چاہتے تھے۔
اس میں کیا شک ہے کہ اسلا م ہرطرح کے ظلم وزیادتی کو سختی سے روکتا ہے۔
بیوی کے ساتھ حددرجہ مہربانی سے پیش آنے کی ہدایت دیتا ہے۔طلاق کی رخصت
انتہائی ناگزیرحالات میں ہے اوروہ بھی شرطوں کے ساتھ۔ قرآن نے جتنے احکامات
دئے ہیں، ان میں سب سے زیادہ تفصیلی احکام طلاق کے بارے میں وارد ہوئے ہیں۔
اس کاایک متعین طریقہ کاربھی صراحت سے بتادیا ہے۔ بادی النظر میں محمداحمد
خاں ان سب ترغیبات اور احکامات کی پامالی کے مرتکب تھے مگر اپنے اس رویہ کے
لئے عدالت سے سند جوازحاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ ان کی انا کو تسکین حاصل
ہوجائے اور عورت بے بسی کے احساس کے تلے دبی رہ جائے۔
حیرت اورافسوس کی بات یہ ہے کہ اس مرحلہ پر ہم نے بحیثیت امت مسلمہ عورت
ذات کے حق کی پیروی میں اتنا زورصرف نہیں کیا جتنا محمداحمد خان کے موقف کی
تائید میں کیا۔کوئی تو ہوتا جو شاہ بانو سے کہتا ہے کہ تم محمداحمد کو جانے
دو، عمرکے اس آخری پڑاؤ میں عنداﷲ ہم تم کو سہارادیں گے۔ جتنا زور اور پیسہ
مقدمہ کی پیروی میں خرچ ہوا اس میں ایک شاہ بانو کی نہیں، دس بیوہ اورمطلقہ
خواتین کی دست گیری ہوجاتی۔
سپریم کورٹ نے بھی اپیل کومسترد کردیا، جس کی پیروکاری ’تحفظ شریعت ‘ کے
حوالے سے کئی بڑی ملی تنظیموں نے بھی کی۔ اس فیصلے بعد ایک زبردست تحریک
چلی۔ انتخابات کے پیش نظرراجیو گاندھی سرکار جھک گئی اور مسلم پرسنل بورڈ
کے مشورے (اور منظوری) سے ’مسلم (تحفظ حقوق مطلقہ) خاتون ایکٹ سنہ
1986ء‘منظورہوگیا ،مگر اس کے بعد بھی عدالتوں کے فیصلے اسی نہج پر آرہے ہیں
جس پر اس قانون کے نفاذ سے پہلے آئے تھے۔حال ہی میں دوفیصلے سامنے آئے
(ممکن ہے عدالتوں نے اور بھی دئے ہوں) ۔ پہلا گواہاٹی کی ایک خاتون ثمینہ
یاسمین (بنام عین الحق کامروپ)کے حق میں آیا اوراب 6؍اپریل بروز پیر ،لکھنؤ
کی شمیمہ فاروقی بنام شاہد خان کیس میں ویسا ہی فیصلہ آیا ہے۔
شمیمہ کی شادی اپریل سنہ1992میں شاہد خان سے ہوئی تھی، جو فوج میں نائک
تھا۔ عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ شمیمہ کے ساتھ شوہر کا رویہ ظالمانہ تھا۔ اس
کا مطالبہ ایک موٹرکار کا بھی تھا۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی اس نے بیوی کو
اس قدر ستایا کہ وہ گھبرا کر مائکہ آگئی۔ تین ماہ تک جب کوئی اسے لینے نہیں
آیا تو وہ خود ہی شوہر کے گھر لوٹ آئی مگر شوہر کا دل نہ پسیجا۔اس کا رویہ
تبدیل نہیں ہوا۔ مطالبہ کار کا برقرار رہا اوراذیت رسانی جاری رہی۔آخر جب
اس کے لئے شوہر کے ساتھ رہنا ناقابل برداشت ہوگیا، اس نے اپنے والدین کو
مطلع کیا۔ جو اسے گھرلے آئے۔ آخر اس نے عدالت کادروازہ کھٹ کھٹایا اورگزارے
کا مطالبہ کیا۔ اس پر شاہد نے بھی وہی حربہ اختیار کیا جو اندور کے احمد
خان نے شاہ بانو کے ساتھ کیا تھا ۔ شاہد نے عدالت میں کہا کہ وہ جون
1997میں ہی طلاق دے چکا ہے۔ مگرعدالت نے اس کی دلیل کو خارج کردیا اوردفعہ
125 کے تحت گزارہ کا حکم نافذ کردیا۔ سپریم کورٹ نے 6اپریل کے فیصلے میں اس
حکم کو بحال رکھا ہے۔
مدعااس وقت اس تحریرکا اس پہلو پرتوجہ دلانا ہے کہ طلاق مغلظہ کا لاکھ فقہی
جواز موجود ہو مگراس کی شناعت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ معاشرے میں اصلاح
وتبلیغ کے زریعہ اس کو روکنے کی جیسی جدوجہد ہونی چاہئے ،وہ نہیں ہورہی
ہے۔دوسرے یہ کہ عدالتوں اورحکومتوں سے گزارشوں اورمطالبوں کے بجائے ملت کو
خود کوئی ایسا نظام بنانا چاہئے کہ اس طرح کے معاملات میں مسئلہ کا حل نکل
سکے ۔ مطلقہ خواتین کے عقد ثانی کی حوصلہ افزائی کی جائے اورتاوقتیکہ ان کو
کوئی بندوبست ہو، ان کے گزربسرکی فکر کی جائے۔ افسوس یہ ہے کہ ہماری
تنظیمیں اپنے جلسہ جلوسوں اورباتصویراشتہارات پر تو کروڑوں خرچ کردیتی ہے
مگراس طرح کے نظم کے لئے ان کی جیب خالی ہوتی ہے۔ دشواری یہ ہے کہ اصلاح کی
تدبیر نہیں کی جاتی اور عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد شوراٹھتا ہے۔اس طرح کے
فیصلے صادرکرنے کے لئے کوئی عدالت چل کر کسی کے گھر نہیں جاتی، کوئی مسلم
خاتون اوراس کے متعلقین عدالت میں جاتے ہیں۔ اس میں کچھ ان کی انا شامل
ہوتی ہے۔ ہم دوش عدالت پر دھردیتے ہیں اوراپنے گھر کی اصلاح نہیں کرتے۔
کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جہاں اس طرح کی صورت ہو وہاں ابتدائی مرحلے میں ہی
اصلاح حال کی فکر کی جائے۔ یہ کام مقامی سطح بھی ہوناچاہئے اورجماعتی سطح
پر بھی۔ جب بھی کوئی ایسا کیس آئے تو بے سہارا عورت کو عدالت جانے کے لئے
مجبور ہونے کے بجائے اس کی دست گیری اجتماعی طور سے ہونی چاہئے ۔ یہ کچھ
مشکل بھی نہیں اگر زکوٰۃ اورصدقات کا اجتماعی نظام قائم ہوے اوراس کی
ترجیحات درست ہوں۔ مگرہویہ رہا ہے کہ زکوٰۃ اورصدقات کی رقومات سے سیاسی
تحریکات چلائی جاتی ہیں اورمعاشرے میں اپنا قد بلند کرنے کے لئے اس کا بیجا
استعمال ہوتا ہے۔
ضمناً یہ بھی عرض کردوں کہ محمد نسیم بھٹ بنام بلقیس اختر کیس میں ایسا ہی
ایک چشم کشا فیصلہ 2012میں جموں وکشمیر ہائی کورٹ میں جسٹس حسنین مسعودی کا
آیا تھا جس میں انہوں نے اسلام کے ان اساسی اصولوں کا حوالہ دیاتھا جو طلاق
کے سلسلے میں وارد ہوئے ہیں۔ (اس فیصلے کی وضاحت ان کالموں میں ہم دوقسطوں
میں اسی وقت کرچکے ہیں۔) سنا ہے کہ اس فیصلہ کا کچھ ذکر مسلم پرسنل بورڈ کے
حالیہ اجلاس جے پورمیں آیا تھا۔ مگر اس فیصلے روشنی میں تاریکی سے باپر
نکلنے کے لئے جرأتمندی سے موقف اختیارکرنے کی ضرورت ہے ۔حضرت عمرؓ نے
عورتوں کو ضیق میں ڈالنے کیلئے طلاق احسن کے ایک غلط استعمال کو روکنے کے
لئے بحیثیت حاکم وقت طلاق بدعی کے حق میں جو انتظامی حکم صادرکیا تھا، اس
کا اب دوسری طرح غلط استعمال ہورہا ہے۔ اس پہلو پر بھی غورہونا چاہئے۔
آخری بات یہ ہے کہ جولوگ اپنے نفوس کو قرآنی تعلیمات کی پیروی سے آزاد
کرلیتے ہیں، ان کا یہ حق کیسے باقی رہ جاتا ہے کہ وہ اپنے نفس کی پیروی میں
شریعت کے صریح احکامات کی تو خلاف ورزی کرتے رہیں مگراپنی ذمہ داری سے پہلو
بچانے کے لئے دیگر امور میں اس کے احکام کی دہائی دیں۔ خصوصاً خواتین کے
بارے میں یہ رویہ بہت واضح ہے اورافسوس یہ ہے، ہمارا جتماعی رویہ بھی ایسے
لوگوں کو مظلوم باور کرانے میں لگ جاتا ہے جبکہ اس ظلم پر خاموشی اختیارکر
لی جاتی ہے جو اس طرح کی نفسیات رکھنے والوں سے خواتین کے خلاف سرزد ہوتا
ہے۔(ختم) |
|