فارسی کا مقدمہ

فارسی کے ساتھ پہلی بار واسطہ اس وقت پڑا تھا، جب حٖفظ قرآن مکمل کرنے کے بعد سن 1999ء میں اعدادیہ دوم میں داخل ہوا تھا،فارسی کا آسان قاعدہ، کریما اور پند نامہ اسی سال کے نصاب میں شامل تھے،اس وقت عمر بمشکل کوئی 13 سال کے قریب تھی،لہذا یہ تین کتابیں لڑکپن کی نظر ہوگئیں، اس سے اگلے سال یعنی 14 سال کی عمر میں متوسطہ سوم میں گلستان و بوستان کے ساتھ ٹاکرا ہوا،مگر مجھ جیسا نا سمجھ لڑکاان شہرہ آفاق کتابوں کی تاب نہ لاسکا،اور عمر کی پہلی ہی منزل میں ایک اہم زبان کی اہمیت سے محروم ہوگیا،بات یہ نہیں تھی کہ میں نے محنت نہیں کی،اور مسئلہ یہ بھی درپیش نہ تھا کہ پڑھانے کو کوئی ماہر استاد دستیاب نہیں تھا، کیوں کہ ابتدائی کتابیں پڑھانے والے استاد مدرسے کے شیخ الحدیث کے درجے کے استاد تھے اور گلستان و بوستان پڑھانے والے دارالعلوم دیوبند کے فاضل تھے،اساتذہ شوق اور محنت سے پڑھاتے تھے، اور ہماری لگن اور محنت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں، کہ آج تقریبا 15 سال گزرنے کے باوصف کریما اور گلستان کے بہت سارے اشعار کے ساتھ ساتھ گلستان کی کئی حکایات بھی ازبر ہیں، مگر مسئلہ تھا عمر اور سمجھ کا،سب کچھ یاد ہونے کے باوجود بھی کچھ نہیں آٰیا،ہر وقت محنت کرنے کے باوجود بھی کچھ پلے نہ پڑا.....سن 2000ء کے ساتھ ہی فارسی کا قضیہ بھی ختم ہوا،اس کے بعد دورہ حدیث تک فارسی سے واسطہ نہیں پڑا......

فارسی کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوا جب مطالعے کا شوق مجھے اردو ادب کی طرف لے گیا،اردو ادب کے سرسری مطالعے کے بعد اس حقیقت سے انکار قطعی ممکن نہیں کہ اردو ادب فارسی کے بغیر نامکمل ہے،آپ اردو ادب سے متعلق کوئی بھی کتاب اٹھاکر دیکھ لیں،ہر صٖفحے پر کوئی فارسی کہاوت،ضرب المثل یا شعر ضرور نظر آئے گا،اور فارسی سے نابلد شخص کے لیے یہ صورت حال باعث کوفت بن جاتی ہے،اس کے علاوہ فارسی زبان کے اندر جو مٹھاس ہے اس کو بھی وہی شخص محسوس کرسکتا ہے، جس کو کچھ نہ کچھ شد بد فارسی کے ساتھ ضرور ہو، ورنہ کتاب کا مطالعہ ہی ادھورا رہ جاتا ہے........

ماضی قریب کے علماء کی تصنیفات بھی فارسی عبارات سے بھری پڑی ہیں، مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج کل کے علماء کی کثیر تعداد اس زبان سے قطعی ناواقف ہے،اگرچہ فارسی مدارس کے نصاب میں شامل ضرور ہے، مگر جس عمر کے طلباء کو یہ پڑھائی جاتی ہے، اس عمر میں کسی چیز کی اہمیت کا شعور بیدار ہو ہی نہیں سکتا. ...

میں چونکہ مدرسے کا تعلیم یافتہ ہوں، اس لیے یہ مقدمہ میں بصد احترام اپنے اکابرین اور وفاق المدارس کے منتظمین کی عدالت میں پیش کرنا چاہتا ہوں،کہ یہ علم ہمارے اسلاف کی میراث ہے، اس کے حوالے سے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، مدارس میں رائج فارسی نصاب کا ایک سرسری جائزہ لینے سے یہ بات ببانگ دہل کی جاسکتی ہے کہ نصاب میں شامل شامل کتابیں فارسی سیکھنے کے لیے کافی و شافی ہیں.... جیسے فارسی کا آسان قاعدہ، کریما، پند نامہ،گلستان اور بوستان، وغیرہِ ،ہم نے یہ تمام کتابیں عمر کے اس حصے میں پڑھ رکھی ہیں، جس وقت انسان کو اپنے کھانے پینے کی تمیز نہیں ہوتی، چہ جائے کہ وہ اتنا سمجھ دار بن جائے کہ اہمیت کے ساتھ اس فن کو حاصل کریں،15 سال کی عمر میں گلستان اور بوستان جیسی شہرہ آفاق کتابوں کو سمجھنے کے لیے کوئی جادو کی چھڑی مل جائے تو اور بات ہے، ورنہ اس لڑکپن میں ایسی کتابوں کو سمجھنا کسی کے بس میں نہیں ...اس کے علاوہ ان درجات میں فارسی پڑھانے کا ایک بہت بڑا نقصان ان طلباء کا بھی ہوتا ہے، جو میٹرک پاس کرنے کے بعد مدرسے کا رخ کرتے ہیں،چونکہ وہ ڈائریکٹ اولی میں داخل ہوتے ہیں، اس لیے وہ فارسی سے مکمل طور پر محروم رہتے ہیں.....

میرے خیال میں فارسی کا آسان قاعدہ اور کریما وغیرہ درجہ رابعہ کے بعد اور گلستان و بوستان کو درجہ سادسہ و سابعہ کے نصاب میں شامل کرنا چاہیے، کیوں کہ اس وقت طلباء علمی طور پر اچھا خاصا شعور بھی حاصل کرلیتے ہیں اور علوم اور فنوں کی اہمیت سے بھی بہرہ ور ہوتے ہیں...
Shakeel Akhtar Rana
About the Author: Shakeel Akhtar Rana Read More Articles by Shakeel Akhtar Rana: 36 Articles with 50570 views Shakeel Rana is a regular columnis at Daily Islam pakistan, he writs almost about social and religious affairs, and sometimes about other topics as we.. View More