شہادت
(Sana Luqman, Rawalpindi)
آج میں اس جگہ پر کھڑی ہوں جہاں
آج سے چھ سال پہلے تھی قدرت کا قانون ہے کہ ہر کسی کو واپس اسی کے پاس جانا
ہے میجر حامد آزاد کشمیر میں پوسٹڈ تھے اور برف کہ ان پہاڑوں میں خود کو
یوں عادی بنا چکے تھے کہ واپس جانا ناممکن سا لگنے لگا تھا موبائل تو شائید
ہی کا م کرتا تھا لیکن گھر بات کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کیا کرتے تھے
شازیہ کی آنکھیں نم ہو گئی اور لرز گئی نہ جانے قسمت میں کیا ہونے والا ہے
حامد کب آؤ گے آپ .............. یہاں سے آنا تو ناممکن ہی لگ رہا ہے فون
پر بات کرتے ہوئے میجر حامد نے جواب دیا اﷲ سے دعا مانگا کرو بس شازیہ اب
تو فضاؤں کے ساتھ دل لگا چکے ہیں ہم سب شازیہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے جواب
دیا میجر آج میری ہمت ٹوٹ رہی ہے ایک زور دار قہقہ لگایا اور کہنے لگے تم
سے زیادہ بہادر اس وقت مجھے کوئی اور نہیں نظر آ رہا ہے منزل اب دور نہیں
ہے شازیہ میں یہاں
اکیلا نہیں ہوں میرے جوان بھی ہیں جن کو میں چھوڑ کر نہیں آسکتا ہوں
.......
میجر تم ہمیشہ وعدہ خلافی کرتے ہو او ہو وعدہ خلافی کیسی آنا بہت مشکل ہے
اب فون رکھتا ہوں اپنا خیال رکھنا
میجر حامد ایک مضبوط اور بہادر آفیسر تھا لیکن شاز یہ سے بات کر نے کے بعد
ہمیشہ خود کو قصور وار سمجھتا تھا شادی کے دس دن بعد ہی وہ شازیہ کو تنہا
چھوڑ آیا تھا زندگی اس قدر تیزی سے رخ بدلے گی وہ دونوں نہیں جانتے تھے-
رات کے آخری پہر کال آئی اور کہا گیا کہ جوانوں کو تیار کیا جائے میجر نے
تمام تر ذمہ داری مکمل کر لی اور اس سوچ میں پڑ گیا کے شاز یہ سے کس طر ح
بات کروں کیونکہ آج خطرہ حد سے زیادہ نظر آرہاتھا کس طرح شازیہ کو بتاؤں
آج تک میں اس کو کچھ بھی نہیں دے سکا اور آج پھر ایک تنہائی کا پیغام میرے
پاس ہے -
آخر ہمت کر کے فون کر ہی دیا اور بہت ہمت سے شازیہ کو سمجھایا اور حوصلہ
دیا لیکن یہ بات کہتے ہوئے حامد کی آنکھیں بھی نم تھی آجاؤں گا بہت جلد اب
تو مسکرا دو
میجر اپنا خیال رکھنا اور میں انتظار کروں گی
آنکھوں میں آنسو تھے اور قدم بڑھاتے ہوئے شازیہ کو خدا حافظ کہا
اپنی منزل کی طرف رواں دواں میجر حامد نے کمانڈ دی اور سب سے پہلا قدم خود
آگے رکھا
شائید اب کبھی لوٹ کر نہ آؤں
دشمن کا پہلا نشانہ میجر حامد خود بنے .........................اور شازیہ
سے کیا ہوا یہ وعدہ پورا کر دیا اور جلد اس سے ملنے پہنچ گئے
شازیہ نے حامد کی ڈائری بند کرتے ہوئے خود کو دوبارہ اس جگہ محسوس کیا جہاں
آج سے چھ سال پہلے تھی
اپنے آنسوں صاف کرتے ہوئے کونے لگی میجر تم تو وعدے کہ بہت پکے نکلے اتنی
جلدی لوٹ آئے میر ے پاس...................
سامنے لگی تصویر کو دیکھا اور رمخاطب ہو کر کہنے لگی اپنے بیٹے کے ساتھ آج
میں ایک بہادر خاتون ہوں |
|