میرا نصیب-قسط 2

بڑے صاحب اگر آگئے نہ تو تم سب کہ سب مار کھاؤ گے آج ....... بیگم صاحبہ نے غصے سے مجھے آواز دی اور کہنے لگی ارے بی بی کچھ کر لو تم بھی جی جی بس مہمان خانہ صاف کر دیا ہے کوئی اور کام ہے تو مجھے بتا دیں آپ
لیجئے اب میں بتاؤں گی اس کو کہ کیا کام ہے بیگم صاحبہ کا یہ لہجہ مجھے بہت ناگوار گزرا آنسو بس رک لئے اور اپنے کام میں لگ گئی..........شائید مجھ غریب کا نصیب بھی میری طرح کا ہے اتنے میں ایک زور دار آواز آئی اور وہ آواز بڑے صاحب کی تھی
ارے کدھر گئے سب لوگ؟
اتنے میں بیگم صاحبہ آئی اور کہنے لگی سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں ٹھیک ہے تمام تیاریاں مکمل کروا لو بس صاحب زادے بھی پہنچنے والے ہیں اور رانی کدھر ہے ان سے بھی کہے کہ تیار ہو جائیں آخر ہماری لاڈلی بیٹی ہیں بیگم صاحبہ نے کہا جی میں نے رانی کو رات ہی بتا دیا تھا کہ اچھا سا استقبال کرے
اتنے میں ملازم ایک بڑا بیگ اٹھائے آتا ہے بیگم صاحبہ یہ کدھر رکھوں ارے بھئی مہمان خانے میں رکھو اور بڑے صاحب تو خوشی کہ مارے پاگل ہورہے تھے آؤ آؤ رضوان میاں تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے خیر یت پہنچ گئے نہ کوئی دقت تونہیں ہوئی نہ نہیں چچا جان
اسلام علیکم چچی جان کیسی ہیں آپ آج بھی اسی طرح جوان اور پیاری رضوان تم نہ بدلے ہاہاہاہاہاہاہاہاہا
آؤ میں تمہیں تمہارا کمرہ دیکھا دوں ہاتھ منہ دھو لو
بڑے میاں نے بھی کہا کہ جاؤ میاں ہم کھانے پر تمہارا انتظار کرتے ہیں جلدی آنا
ارے بس میں گیا اور آیا
مسکراتے ہوئے رضوان نے چچی کی طرف دیکھا اور رانی کا پوچھا
ٹھیک ہے وہ بھی تم ہاتھ منہ دھو کہ نیچے آؤ بس رانی بھی آ گئی ہو گی بس ابھی آیا میں ایسے لگ رہا تھا جیسے رضوان میاں کو رانی بی بی کو دیکھنے کا کافی شوق تھا اور جب نیچے بھی آئے تو بھی نظریں کسی کو ڈھونڈ رہی تھی اتنے میں رانی بی بی نیچے آئی تو رضوان میاں نے انک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا آداب دونوں نے ایک دوسرے طرف مسکرا کر دیکھا اور کھانا کھانے میں مصروف ہو گئے مجھے تو یوں لگ رہا تھا جیسے رضوان میاں کو رانی بی بی پسند آ گئی ہیں میں زیادہ تر میں رانی بی بی کہ ساتھ ہی رہتی تھی کھانے کہ بعد میں رانی بی بی کہ کمرے میں آئی تو وہ گانا سن رہی تھی میں نے چائے کا کپ میز پر رکھا اور نیچے زمین پر بیٹھ گئی اور باتیں کرنے لگ گئی مجھے جو پوچھنا تھا وہ بات پوچھنیں میں ججھک آ رہی تھی آخر میں تھی تو نوکرانی نہ اور مجھے اس بات کا بھی ڈر تھا کہ کہیں نوکری سے ہی نہ نکال دیں وہاں گھر میں اکیلی پڑی رہوں گی اماں کہ تو نہ آنے کا پتہ تھا نہ جانے کا یہاں دو وقت کا کھانا بھی ہے اور عزت بھی محفوظ ہے ان تمام باتوں کو سوچ کر میں نے تو منہ بند ہی کر لیا اور چپ چاپ اپنا بستر ڈالا اور سو گئی رانی بی بی بہت اچھی تھی ہر بات واضح کر دیا کرتی اور مجھے اپنی بہنوں کی طرح سمجھا کرتی صبح فجر کہ وقت میں اٹھ جایا کرتی تھی رانی بی بی کہ کپڑے استری کرنے سے لیکر ناشتے تک کی ذمہ داری میری ہی ہوا کرتی تھی رانی بی بی کو کالج چھوڑ کر آنا بھی اب تو بڑے صاحب نے میرے ذمہ لگا دیا تھا
لیکن آج میں بیگم صاحبہ کے کام میں مصروف تھی تو بڑے صاحب نے کہہ دیا کہ رضوان چھوڑ آؤ آج ...........................
میں تو ایک دم چونک کر دیکھا اور دل میں سوچا کے آج تو دونوں خوب باتیں کریں گے چل آمنہ تو لگ جا اپنے کام میں یہ بڑے لوگوں کہ کام ہیں رانی بی بی بھی شرماتے ہوئے چلی گئی ان کی آنکھوں میں ایک خوشی تھی نہ جانے کیوں مجھے لگ رہا تھا کہ رضوان میاں اپنی پسند کا اظہار کر دیں گے آج
sana luqman
About the Author: sana luqman Read More Articles by sana luqman: 11 Articles with 22798 views I am student of MS mass communication.
I am a columnist in different news papers and Magazines.
.. View More